Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میاں طارق سے ٹی وی ٹھیک کروایا تھا، جج ارشد ملک

احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے ایف آئی اے کو بتایا ہے کہ وہ اپنا خراب ٹی وی ٹھیک کروانے ملتان میں ایک مکینک میاں طارق کے پاس گئے تھے جس نے انکی متنازعہ ویڈیو بنا کر انہیں بلیک میل کرنا شروع کر دیا۔
ایف آئی اے کے  ڈی جی بشیر میمن کی جانب سے منگل کو سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی رپورٹ کے مطابق جج ارشد ملک نے اعتراف کیا کہ ایک جج کو ملزمان سے نہیں ملنا چاہیے مگر وہ بلیک میلنگ کے باعث میاں نواز شریف سے انکی رہائش گاہ پر ملے۔
منگل کو  چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ نے ویڈیو اسکینڈل کیس کی سماعت کی جس کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔
ڈی جی ایف آئی اے نے عدالت میں رپورٹ  پیش کی۔ اردو نیوز کے پاس دستیاب رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے نے تصدیق کی کہ جج ارشد ملک اس سال اپنے فیصلے کے بعد چھ اپریل کو  سابق وزیراعظم نواز شریف سے ملنے ان کی رہائش گاہ جاتی امرا گئے اور ان کے ہمراہ ناصر بٹ بھی تھے۔

ایف آئی اے کے مطابق مریم نواز نے دوسری متنازعہ ویڈیو کے حوالے سے تمام تر زمہ داری ناصر بٹ پر عائد کی. فوٹو اے ایف پی

ایف آئی اے نے اپنی رپورٹ میں جج ارشد ملک سے سوالنامے کے ذریعے کی گئی تفتیش بھی شامل کی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں  جج ارشد ملک نے تفتیشی ادارے کو بتایا کہ بلیک میلنگ کے ملزم میاں طارق سے ان کی ملتان میں صرف دو بار ملاقات ہوئی تھی جب وہ اپنا خراب ٹی وی ٹھیک کرانے کے لیے ان کے پاس گئے تھے ۔ ان کے مطابق ان دنوں وہ ملتان میں بطور ایڈیشنل سیشن جج تعینات تھے۔تاہم ارشد ملک کے مطابق جب انکی ملتان سے باہر  ٹرانسفر ہو گئی تو انہیں میاں طارق نے ایک ویڈیو کی بنیاد پر بلیک میل کرنا شروع کر دیا۔
سابق جج نے ایف آئی اے کو بتایا کہ جب وہ اپنا خراب ٹی وی واپس لینے گیا تو انہوں نے مجھے کچھ نشہ آور چیز کھلا کر میری ویڈیو بنا لی۔ تاہم ارشد ملک نے کہا کہ بلیک میلنگ کے بعد وہ بار بار میاں طارق کے پاس جانے پر مجبور ہو گئے۔ تاہم ارشد ملک کے مطابق مریم نواز کی پریس کانفرنس میں دکھائی جانے والی انکی گفتگو پر مبنی ویڈیو اصلی نہیں بلکہ اس میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔
جج نے کہا کہ عام حالات میں جج کو ملزمان سے ان کی رہائش گاہ پر نہیں ملنا چاہیے مگر وہ بلیک میلنگ کے خطرے کی وجہ سے ایسا کرنے پر مجبور ہوئے۔ ایف آئی اے نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ جج ارشد ملک کو ایف آئی اے نے دوسرا سوالنامہ بھی بھیجا تھا مگر اس کا جواب نہیں دیا گیا۔
 ایف آئی اے کی انکوائری کے دوران مرکزی ملزم طارق محمود کی یو ایس بی سے جج ارشد ملک کی غیر اخلاقی ویڈیو برآمد ہوئی ۔ملزم طارق کو 16  جولائی 2019کو گرفتار کیا گیا تھا۔

ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق جج ارشد ملک نے اس سال تین غیر ملکی دورے کیے. فوٹو سوشل میڈیا

ملزم نے ایف آئی کو بتایا کہ اس نے دوہزار تین میں جج ارشد ملک کی ملتان قابل اعتراض ویڈیو بنا لی تھی اور اسے بلیک میلنگ کے لیے استعمال کرتا تھا۔ ملزم نے ایف آئی اے کو بتایا کہ اس سال جون میں اس نے مسلم لیگ ن لاہور کے ایک مقامی رہنما میاں سلیم رضا کووہ متنازعہ ویڈیو تیرہ ملین روپے اور ایک لینڈ کروزر گاڑی کے عوض فروخت کی ۔
ایف آئی اے نے مسلم لیگی رہنماؤں مریم نواز شریف اور شہباز شریف سے بھی سوالناموں کے ذریعے ویڈیو کے حوالے سے پوچھ گچھ کی۔
ایف آئی اے کے مطابق مریم نواز نے دوسری متنازعہ ویڈیو کے حوالے سے تمام تر زمہ داری ناصر بٹ پر عائد کی اور اسکی تمام تفصیلات سے لاعلمی ظاہر کی۔ جبکہ شہباز شریف نے ایف آئی اے کو بتایا کہ ویڈیو کے حوالے سے مریم نواز ہی وضاحت دے سکتی ہیں کیوںکہ انہیں ویڈیو کے بارے میں پریس کانفرنس سے چند لمحے قبل ہی پتا چلا۔
ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق جج ارشد ملک نے اس سال تین غیر ملکی دورے کیے۔پہلا دورہ جنوری فروری میں متحدہ عرب امارات کا تھا جبکہ دوسرا دورہ مارچ اپریل میں سعودی عرب کا تھا جس میں انہوں نے عمرہ کیا اور تیسرا دورہ بھی مئی جون میں  عمرے کے لیے سعودی عرب کا تھا۔
ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق جج ارشد ملک کی مریم نواز کی پریس کانفرنس میں دکھائی جانے والی ویڈیو راولپنڈی میں انکی رہائش گاہ پر بنائی گئی تھی۔
 
خیال رہے کہ اس سے قبل مسلم لیگ ن کی سینئر قیادت کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کے دوران پارٹی کی نائب صدر مریم نواز نے نوازشریف کو العزیزیہ ریفرنس کیس میں سزا سنانے والے نیب عدالت کے جج اور نوازشریف کے قریبی ساتھی ناصر بٹ کی خفیہ کیمرے سے بنی ایک مبینہ ویڈیو دکھائی تھی۔
مریم نواز نے الزام لگایا تھا ’سزا دینے والا جج خود بول اٹھا ہے کہ نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی اور فیصلہ کیا نہیں صرف سنایا گیا ہے۔
جج ارشد ملک کا مریم نواز کی جانب سے دکھائی گئی ویڈیو ویڈیو کے حوالے سے کہنا تھا کہ ’مریم صفدر صاحبہ کی پریس کانفرنس میں دکھائی جانے والی ویڈیوز نہ صرف حقائق کے برعکس ہیں بلکہ ان میں مختلف مواقع اور موضوعات پر کی جانے والی گفتگو کو توڑ مروڑ کر سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرنے کی مذموم کوشش کی گئی ہے۔
اس کے بعد تحریک انصاف کی حکومت نے جج ارشد ملک کو کام کرنے سے روک دیا تھا۔ وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا تھا کہ جج ارشد ملک کو کام کرنے سے روک دیا گیا ہے اور انہیں اپنے ادارے لاہور ہائی کورٹ رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

شیئر: