کسی بھی کالم نگار کے لیے سب سے پرخطر کام چلتی خبر کا تجزیہ کرتے ہوئے کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کرنا ہے۔ اس معاملے پر اگر دس بزدل کالم نگاروں کی فہرست بنائیں تو پھر مجھے سرِ فہرست رہنے دیجیے گا۔
سب سے بہادر کالم نگار تو وہ ہیں جنہوں نے طے کرلیا ہے کہ وہ کسی ایک نظریاتی یا شخصیاتی کیمپ کا حصہ ہیں۔ اب چاہے آندھی آئے یا طوفان، سورج مشرق سے نکلے کہ شمال سے، انہیں اپنی بات اور تجزیے پر ڈٹے رہنا ہے۔ مجھ جیسوں کو یہ ثابت قدمی جتنی مشکل محسوس ہوتی ہے ان کے لیے یہ اتنی ہی آسان ہے۔ بس یہی تو کرنا ہوتا ہے کہ دوسرے کو ابلیس اور اپنے والے کو ظلِ الہٰی ثابت کرنا ہے۔ اب یہ دوٹوک دمادم مست قلندری قلمی رویہ کالم نگار کو بہاتے ہوئے جہاں تک لے جائے۔ قلم جدھر رک گیا بس وہی حتمی تجزیہ ہے۔ اس تجزیاتی دوآبے کا ایک کنارہ اگر ڈٹائی ہے تو دوسرا ڈھٹائی، رشک آتا ہے ان قلم کاروں پر۔
اپنا حال یہ ہے کہ یہی اندازہ نہیں ہوپاتا کہ جنابِ شیخ کا قدم اب یوں پڑے گا کہ ووں۔ اس وقت جو آگ ان کے منہ سے نکل رہی ہے اس پر یقین کر کے لکھنا شروع ہوجاؤں یا دو گھنٹے بعد ان کے منہ سے جو پھول جھڑنے والے ہیں کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ان کا انتظار کرلوں۔ یہ نہ ہو کہ کل تک جب میرا مدبرانہ تجزیہ چھپے تب تک بازی پلٹ جائے اور میرا قاری میری تجزیاتی عقل پر زنجیری ماتم کر رہا ہو۔
مزید پڑھیں
-
قبضہ مہنگا ہو تو آزادی ممکن ہےNode ID: 428406
-
کشمیر کی آزادی تک ادھار بند ہےNode ID: 429781
-
سامری جادوگرNode ID: 429896