Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیب اختیارات کم کرنے کی ترمیم کیوں؟

وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم ترمیم کے مسودے پر کام کر رہے ہیں، تصویر: اے پی پی
پاکستان میں احتساب کے عمل کو ہمیشہ سے ہی شک کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ نواز شریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں ’احتساب کمیشن‘ قائم کیا تو پیپلز پارٹی کی قیادت نے اس کی کارروائیوں کو سیاسی انتقام قرار دیا۔
جنرل پرویز مشرف نے قومی احتساب بیورو (نیب) بنایا تو اسے سیاست دانوں کی وفاداریاں تبدیل کرانے کا آلہ کار ادارہ کہا گیا۔
پاکستان تحریک نصاف کی قیادت نے انتخابات کے دوران اپنی انتخابی مہم اور منشور میں بھی ’احتساب سب کا‘ کا نعرہ لگایا۔ اقتدار میں آنے کے بعد بھی وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے وزرا بارہا یہ اعلان کرتے نظر آئے کہ سب کا احتساب ہوگا اور حکومت کسی سے بھی بلیک میل نہیں ہو گی۔
اپوزیشن کے الزامات کے باوجود حکومتی موقف کو پذیرائی حاصل ہوئی۔
کم و بیش اسی طرح کا نعرہ پرویز مشرف نے بھی اقتدار سنبھالنے کے بعد لگایا تھا لیکن جب ان کے بنائے ہوئے نیب نے ملک کے بڑے تاجروں، کاروباری شخصیات اور فیکٹری مالکان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا آغاز کیا تو ملک میں معاشی صورت حال جو پہلے ہی ابتر تھی بالکل ہی جمود کا شکار ہو گئی۔
ملکی معاشی صورت حال کے تناظر میں فوجی حکومت نے نیب زدوں کو نیب زادہ بنانے کا فیصلہ کیا جس سے چیئرمین نیب لیفٹیننٹ جنرل سید محمد امجد نے اختلاف کیا اور اسی اختلاف کے باعث انھیں اپنے عہدے سے ہٹنا پڑا۔
اس وقت کے وزیر قانون ڈاکٹر خالد رانجھا نے پہلے چیئرمین نیب کو ہٹائے جانے کے بارے میں ’اردو نیوز‘ کو بتایا کہ انہیں اس لیے ہٹایا گیا کہ وہ کسی کی بات نہیں مانتے تھے۔
’مجھے یاد نہیں ان کو کسی خاص کیس کی وجہ سے ہٹایا گیا تھا لیکن اتنا پتا ہے کہ وہ مشکل آدمی تھے اور ان کے بارے میں مشہور ہو گیا تھا کہ وہ کسی کی بات نہیں مانتے۔ مشرف ان کی بے حد تعریف کرتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ میرے حق میں کبھی ڈنڈی نہیں ماریں گے۔‘

نیب قوانین میں اصلاحات کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری رہا

اگر موجودہ صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو صورت حال بالکل ویسی ہی نظر آ رہی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے احتساب سب کا نعرہ لگایا اور نیب نے پہلے مسلم لیگ ن کی قیادت کے خلاف کارروائیاں شروع کیں۔ پھر ان کے تعینات کیے گئے افسران فواد حسن فواد اور احد چیمہ کو گرفتار کیا۔
دوسرے مرحلے میں ملک کے بڑے تاجروں کے خلاف کارروائیاں شروع کیں اور اب پیپلز پارٹی کی قیادت بھی نیب مقدمات میں جیل پہنچ چکی ہے۔
جب تاجروں نے تحفظات کا اظہار کیا تو چیئرمین نیب کو تاجر نمائندوں سے خطاب کر کے یہ کہنا پڑا کہ آئندہ تاجروں کو نیب نہیں بلایا جائے گا تاہم جس کے خلاف شکایت ہو گی اسے سوال نامہ بھیجا جائے گا۔
چیئرمین نیب کی وضاحت بھی کام نہ آئی اور ملک کی معاشی صورت حال بھی دن بدن گھمبیر ہوتی چلی گئی اور تاجر برادری کے نیب سے متعلق تحفظات زور پکڑنے لگے تو حکومت نے نیب قوانین میں از خود ترمیم کا فیصلہ کیا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل نیب قوانین میں اصلاحات کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری تھا اور حکومت اور اپوزیشن نے مجوزہ ترامیم کا مسودہ ایک دوسرے کے حوالے کر رکھا تھا۔
اس سے قبل بھی نیب نے ڈبل شاہ کیس، مضاربہ سکینڈل اور لینڈ مافیا کی ہاؤسنگ سکیمز کے مقدمات میں ہزاروں لوگوں کو ریلیف دیا جبکہ فراڈ کے سینکڑوں ملزمان کے خلاف کارروائی مخلتف مراحل سے گزر رہی ہیں۔
20 اگست کو کابینہ اجلاس میں نیب قوانین میں ترمیم کا فیصلہ کرتے ہوئے طے پایا کہ نیب کا دائرہ کار محدود کرتے ہوئے اسے صرف میگا کرپشن مقدمات تک محدود کر دیا جائے گا اور عوامی نوعیت کے مقدمات، نجی افراد، کاروباری شخصیات اور کمپنیوں کو نیب کے دائرہ کار سے باہر کر دیا جائے گا۔
وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم نے بدھ کے روز پریس کانفرنس میں کہا کہ نیب کے قیام کا مقصد ہی میگا کرپشن مقدمات اور عوامی اور سرکاری عہدوں کے اختیارات کے غلط استعمال کو روکنا تھا۔ اس لیے اسے میگا مقدمات تک ہی محدود کر رہے ہیں۔
اس حوالے سے اردو نیوز سے گفتگو میں سابق وزیر قانون ڈاکٹر خالد رانجھا نے کہا کہ ’ہر ملک کو ایسے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جو سونا ملک میں لاتے ہیں جیسے ہمارے ہاں سیٹھ عابد ہیں۔‘
ان کے مطابق ’ہمیشہ سے ہی کچھ لوگ نیب زدہ ہوتے ہیں اور کچھ کو نیب زادہ بنایا جاتا ہے تاکہ معیشت کا پہیہ بھی چلتا رہے۔‘
نیب کے سابق پراسیکیوٹر عمران شفیق نے کہا کہ ’چیٹگ ود پبلک ایٹ لارج‘ کی شق کے تحت نیب نے اپنی کارروائیوں کو اتنی وسعت دی کہ قریباً ملک کی تمام ہاؤسنگ سکیمز کے مقدمات نیب کے پاس آ گئے۔

اپوزیشن جماعتیں پی ٹی آئی حکومت سے نیب قوانین میں ترامیم کا مطالبہ کر رہی ہیں، فوٹو: اے ایف پی

’اگر نیب سے یہ اختیار واپس لے لیا گیا تو تمام پراپرٹی ٹائیکونز آزاد ہو جائیں گے۔ نیب کو ان کے خلاف تمام مقدمات سے دستبردار ہونا پڑے گا جس سے علیم خان سمیت وزیراعظم کے کئی ساتھیوں کو فائدہ ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ مقدمات کسی دوسرے فورم پر منتقل ہو جائیں لیکن فی الوقت حکومت کی بدنیتی نظر آ رہی ہے۔‘
حکومت اول روز سے سب کے یکساں احتساب کا دعویٰ کر رہی تھی تو اچانک یہ فیصلہ کیوں کیا گیا ہے کہ نیب کا دائرہ کار میگا کرپشن مقدمات تک محدود کیا جائے؟ اس پر خالد رانجھا نے کہا کہ یہ درست ہے کہ نیب کو میگا کرپشن کے لیے ہی بنایا گیا تھا لیکن نیب نے تھانیدار کا کردار ادا کرتے ہوئے پٹواریوں تک کو گرفتار کیا اور اپنا کام پھیلا لیا جسے محدود ہی کرنا چاہیے۔
’سلیکٹڈ احتساب کا تاثر نہیں جانا چاہیے کیونکہ یہ نا انصافی ہے تاہم نیب کو چھوٹے چھوٹے مقدمات میں الجھانا احمقانہ عمل ہے۔ نیب کو پبلک آفس ہولڈرز اور ان کے رشتہ داروں تک محدود کرنا چاہیے تاکہ کوئی بھی اپنے اختیارات کا غلط استعمال نہ کرے۔‘
تاہم نیب کے سابق پراسیکیوٹر عمران شفیق ڈاکٹر خالد رانجھا سے اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کاروباری حضرات کے نام پر قریبی ساتھیوں کو بچایا جا رہا ہے جبکہ کہا جاتا رہا ہے کہ احتساب کے عمل میں ججوں اور جرنیلوں کو بھی شامل کیا جائے گا۔
’’امید تو تھی کہ نیب کا دائرہ کار وسیع ہو گا اور صرف 30 فیصد بجٹ کے بجائے 70 فیصد بجٹ والے بھی احتساب کے دائرے میں آئیں گے لیکن حکومت نے احتساب کے عمل کو وسعت دینے کے بجائے سکیڑ دیا ہے بلکہ یوں کہیے کہ آگے جانے کے بجائے الٹا گیئر لگا دیا ہے۔‘‘
ماہر قانون عارف چوہدری نے بھی تحریک انصاف کی حکومت کے اس فیصلے کو پسند نہیں کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اب تک تحریک انصاف کی حکومت نے صرف پرانے مقدمات کی معلومات ہی فراہم کی ہیں جو کہ حکومت کا کام نہیں۔ 
’ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت وائٹ کالر کرائم کو پکڑنے کے لیے نیب کی صلاحیتوں میں اضافہ کرتی۔ نیب کو مزید وسائل فراہم کیے جاتے. پنجاب کے بعد دیگر جگہوں پر بھی فرانزک لیبارٹریز قائم کی جاتیں۔ لیکن ایک سال کے عرصے میں تحریک انصاف کی حکومت نے احتساب کے زمرے میں کوئی ایسا کام نہیں کیا جس پر وہ فخر کر سکیں۔"
 انہوں نے کہا کہ دنیا کے کسی بھی قانون میں میں کاروباری شخصیات یا ادارے احتساب سے مبرا نہیں ہوتے۔ مقدمات میں کلاس نہیں دیکھی جاتی بلکہ رقم کا حساب لگایا جاتا ہے۔ سرکاری ملازمین کے لیے تو اینٹی کرپشن اور ایف آئی اے جیسے ادارے موجود ہیں۔ 
’امریکہ میں مائیکل ہلٹن پاکستان کے کل بجٹ سے بھی زیادہ انسائیڈ ٹریڈنگ کرتا تھا۔ انہوں نے اس کو بھی پکڑ کر جیل میں ڈالا۔ تبدیلی کی حکومت میں تو یہ بات ختم ہو جانا چاہیے تھی کہ اگر کسی کو پکڑ کر جیل میں ڈالا تو سٹاک ایکسچینج گر جائے گی۔ میرے خیال میں اگر کسی کرپٹ کاروباری شخصیت کو پکڑ کر جیل میں ڈالیں گے تو سٹاک مارکیٹ اوپر جائے گی اور ملکی معاشی صورت حال میں بھی بہتری آئے گی۔‘‘ 
 انھوں نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ آصف زرداری کا احتساب کریں اور اس کے شریک کاروباریوں کو اس لیے چھوڑ دیں کہ وہ عوامی عہدہ نہیں رکھتے۔
 اردو نیوز نے مجوزہ ترمیم کے حوالے سے سیکرٹری قانون ارشد فہیم فاروق سے رابطہ کیا تو انھوں نے پہلے تو کہا کہ ابھی مسودہ تیار نہیں ہوا اس لیے اس پر کچھ کہنا قبل از وقت ہے تاہم نیب کا دائرہ کار محدود کرنے کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ نیب کو بھی تو دیکھیں نا کہ وہ کیا کر رہا ہے۔
 ’نیب عام افراد کے لین دین میں گھس گیا ہے، اس کا جب دل کرتا ہے کسی بھی عام بندے کو جا کر پوچھ گچھ کرتے ہیں۔ ترمیم کا مقصد بھی یہی ہے کہ نیب کسی عام بندے کو تنگ نہ کر سکے۔‘
اس سوال پر کہ کیا حکومت معاشی مجبوریوں کے باعث بڑی کاروباری شخصیات سے بلیک میل تو نہیں ہوئی تو سیکرٹری قانون کا کہنا تھا کہ اس سوال کا جواب وزارت خزانہ یا وزارت تجارت ہی دے سکتی ہیں۔ وزارت قانون کا کام حکومتی ہدایات کی روشنی میں قانونی مسودہ تیار کرنا ہے۔ 
نیب کا انکم ٹیکس کیسز واپس ایف بی آر کو بھیجنے کا فیصلہ
دوسری جانب چیئرمین نیب جاوید اقبال نے جمعے کو تاجروں کے وفد سے ملاقات کی اور انکم ٹیکس سے متعلق تمام مقدمات واپس ایف بی آر کو بھیجنے کا فیصلہ کیا۔
چیئرمین نیب نے ملتان، بہاولپور اور ڈی آئی خان ڈویژنز کی فلور ملز مالکان کو بھیجے گئے نوٹسز بھی معطل کر دیے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس لگانے اور ٹیکس وصول کرنے میں نیب کا کوئی کردار نہیں ہے، کاروباری طبقہ اس پروپیگنڈے میں نہ آئے کہ نیب اسے ہراساں کر رہا ہے۔

شیئر: