Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’وسیم بہت بڑا کھلاڑی ہے لیکن معصوم ہے‘

ہارون رشید، جاوید میانداد اور وسیم حسن راجہ (گیٹی امیجز)
کرکٹ کی معروف ویب سائٹ ’کرک انفو‘ پر جنوری 2015 میں پانچ ایسے کرکٹروں کے بارے میں مضامین شائع ہوئے، جن کے بارے میں یہ خیال تھا کہ وہ خود میں موجود ٹیلنٹ اور پوٹینشل سے انصاف نہ کرسکے وگرنہ عظمت ان کے دروازے پر دستک دے سکتی تھی۔
ان پانچ کھلاڑیوں میں ایک وسیم حسن راجہ تھے۔ ان کے بارے میں مضمون ندیم فاروق پراچہ نے لکھا، جس میں عمران خان کے حوالے سے بتایا ہے کہ ان کے مطابق، جن کھلاڑیوں کے ساتھ انھیں کھیلنے کا موقع میسر آیا ان میں غالباً وسیم حسن راجہ کو سب سے زیادہ قدرتی صلاحیتیں ودیعت ہوئی تھیں مگر ان سے وہ صحیح معنوں میں فائدہ نہ اٹھا سکے ۔
اس مضمون سے پہلے مئی 2014 میں نامور کرکٹ رائیٹر سٹیورٹ وارک نے کرکٹ انفو پر ’سٹائل اوور سٹیٹسٹکس‘ کے عنوان سے وسیم راجہ کے بارے میں مضمون میں بتایا کہ 57 ٹیسٹ میچوں میں چار سنچریوں کی مدد سے 36.16 کی اوسط سے بنائے گئے 2821 رنز سے، ٹیم کے لیے، ان کی وقعت ظاہر ہوتی ہے اور نہ ہی اس سرخوشی کا اندازہ ہو سکتا ہے جو شائقین کو ان کی بیٹنگ دیکھنے سے ہوتی۔
انھوں نے بتایا کہ ایک طرف وہ بیٹسمین ہوتے ہیں جو شاندار اعداد و شمار کے برتے پر آپ کے تخیل میں بس جاتے ہیں ،مثال کے لیے انھوں نے سر ڈان بریڈ مین کا نام لیا۔ 

دو دفعہ وسیم راجہ کا نام  ٹیم کی قیادت کے لیے زیر غور آیا لیکن ان کی متلون مزاجی آڑے آئی (گیٹی امیجز)

 دوسری قبیل کے بیٹسمین ان کے خیال میں وہ ہیں جو اپنی جارحانہ اپروچ سے چاہنے والوں کو متاثر اور ان میں تحرک پیدا کرتے ہیں۔ سٹیورٹ وارک نے وسیم حسن راجہ کو اسی زمرے میں شامل کیا ۔
کرکٹ ہو یا زندگی کا کوئی دوسرا میدان اس میں بڑائی کا تعین اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ تگڑے حریف کا مقابلہ آپ نے کتنی بہادری سے کیا۔ اس  حوالے سے وسیم حسن راجہ اپنے ساتھی کھلاڑیوں میں سب سے آگے تھے، اس بات کی گواہی ویسٹ انڈیز کے خلاف ان کے شاندار ریکارڈ سے مل جاتی ہے۔ دوسرے وہ آج بھی اگر لوگوں کے دلوں میں مقیم اور ان کے ناسٹلجیا کا حصہ ہیں تو اس کی ایک بڑی وجہ ان کی بیٹنگ کا دلکش سٹائل ہے جس کی کمک پر بے خوفی تھی۔
وہ بولر کی قامت اور میچ کی سچویشن سے بے نیاز فطری انداز میں کھیلتے، ان کی یہی ادا دیکھنے والوں کا اچھی لگتی۔ 
وہ جس زمانے میں ٹیسٹ کرکٹ کھیل رہے تھے، اس میں ویسٹ انڈین بولروں کی اس قدر ہیبت تھی کہ ان کا سامنا کرتے بڑے بڑے بیٹسمینوں کا پتا پانی ہوتا لیکن وسیم راجہ کا معاملہ دیگر تھا، ویسٹ انڈیز کے خلاف ان کے جوہر اور بھی زیادہ کھلتے۔اس کی بہترین مثال سنہ 1977 کا دورہ ویسٹ انڈیز ہے۔ 
 برج ٹاؤن  میں ہونے والے پہلے ٹیسٹ میں اینڈی رابرٹس، کولن کرافٹ، جوئیل گارنر اور ہولڈر کا سامنا کرتے ہوئے پہلی اننگز میں ناقابل شکست 117رنز بنائے (اس سے پہلے وہ کراچی میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ناقابل شکست سنچری بنا چکے تھے)، دوسری اننگز میں 71 سکور کر کے لڑکھڑاتی بیٹنگ لائن اپ کو سہارا دیا۔
پاکستان یہ ٹیسٹ میچ جیتنے کے قریب آ گیا، پاکستان نے ان کے نو کھلاڑی آؤٹ کر لیے لیکن میچ آخر کار ویسٹ انڈیز ہارنے سے بچ گیا۔ امپائروں نے اپنے ملک کو شکست سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ معروف لیفٹ آرم سپنر اقبال قاسم نے اپنی کتاب ’اقبال قاسم اور کرکٹ‘ میں لکھا:
کرافٹ کئی دفعہ صاف ایل بی ڈبلیو ہوئے لیکن امپائر نے مقامی شائقین کا دل توڑنا مناسب نہ سمجھا حالانکہ کرافت ہمشہ وکٹوں کے سامنے ٹانگیں ملا کر کھیلنے کے عادی ہیں.... امپائر خواہ کسی ملک کے ہوں ایسے نازک موقعوں پر ہمیشہ اپنے ملک کا ساتھ دیتے ہیں۔‘
اقبال قاسم کے اس بیان کو نیوٹرل امپائرنگ سے پہلے کے زمانے پر بلیغ تبصرہ سمجھا جا سکتا ہے۔

ٹیم میں ان آﺅٹ ہونے میں ان کے جارحانہ مزاج کا بھی دخل تھا (گیٹی امیجز)

 ویسٹ انڈیز کے خلاف پانچ ٹیسٹ میچوں کی اس سیریز میں وسیم حسن راجہ نے 57.44 کی اوسط سے 517 رنز بنائے۔
وسیم راجہ کو ویسٹ انڈین عوام میں خاصی مقبولیت ملی۔ ان کے جارحانہ بیٹنگ سٹائل سے مایہ ناز کرکٹر روہن کہنائی بھی متاثر ہوئے۔ 
ویسٹ انڈیز کے خلاف انھوں نے 11 ٹیسٹ میچوں میں 57.43 کی اوسط سے 919 بنائے، ان کے ہم عصروں میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ڈینس ایمس اور سنیل گواسکر کی اوسط ہی ان سے بہتر تھی۔
پاکستانی کھلاڑیوں میں ظہیر عباس کا ویسٹ انڈیز کے خلاف ریکارڈ بہت خراب ہے اور ان کی بیٹنگ اوسط 20 سے کم ہے۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف جاوید میانداد کی بیٹنگ اوسط بھی 30 سے کم رہی۔
 سنہ 1979 کے دورہ ہندوستان میں جہاں دوسرے پاکستانی بیٹسمین زیادہ اچھی کارکردگی نہ دکھا سکے، وسیم راجہ نے اس سیریز میں 56.25 کی اوسط سے 450 رنز بنائے۔ ان کی آخری قابل ذکر سیریز ویسٹ انڈیز کے خلاف تھی جس میں انھوں نے 61.50 کی اوسط سے 246 رنز سکور کیے۔ 12 سالہ کرکٹ کرئیر (1973-1985) میں ان کی ٹیم میں مستقل جگہ نہ بن سکی جبکہ وہ بیٹسمین کے ساتھ ساتھ ایک کارآمد لیگ سپنر بھی تھے۔
ٹیم میں ان آﺅٹ ہونے میں ان کے جارحانہ مزاج کو بھی دخل تھا، بات یہیں تک رہتی تو بھی ٹھیک تھا لیکن وہ دورانِ بیٹنگ کپتان کا کہا بھی نہ مانتے اور صورت حال کے مطابق کھیلنے کے بجائے فطری انداز برقرار رکھتے۔ ایسی باتوں کا ظاہر ہے نقصان تو اٹھانا پڑتا ہے۔
دو دفعہ ان کا نام  ٹیم کی قیادت  کے لیے بھی زیر غور آیا لیکن ان کی متلون مزاجی آڑے آئی اور وہ کپتان نہ بن سکے۔
شخصی اعتبار سے من موجی اور اکل کھرے تھے، ان کے رویوں سے ظاہر ہوتا کہ وہ نام ہی کے نہیں اصل میں بھی راجہ ہیں۔ ساتھی کھلاڑیوں میں زیادہ گھلتے ملتے نہیں تھے۔ تنہائی پسند تھے۔
ایک دفعہ کسی سینئیر کھلاڑی نے اپنی جرابیں سکھانے کے لیے کہیں ڈالنے کو کہا تو وسیم راجہ نے انکار کر دیا۔ اسی طرح عمران خان سے ایک دفعہ صادق محمد نے چائے کا کپ لانے کے لیے کہا تو انھوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ ان کے ملازم نہیں ہیں۔

وسیم راجہ بولر کی قامت اور میچ کی سچویشن سے بے نیاز فطری انداز میں کھیلتے (گیٹی امیجز)

 سنہ1977میں آسٹریلیا میں کوئنز لینڈ کے خلاف سائیڈ میچ میں سینچری کے باوجود انھیں سڈنی ٹیسٹ میں ڈراپ کر دیا گیا تو مینجر کرنل شجاع الدین سے الجھ پڑے۔ انھیں دھوکے باز اور بے ایمان تک کہہ ڈالا۔ مشتاق محمد نے اپنی آپ بیتی ’ان سائیڈ آﺅٹ‘ میں لکھا ہے کہ وسیم حسن راجہ جس وقت ٹیم مینجر پر گرجے برسے اس وقت انھوں نے شراب پی رکھی تھی۔ 
دلچسپ بات مشاق محمد نے یہ لکھی کہ بیچارے شجاع الدین تو سڈنی ٹیسٹ کے لیے میانداد کو ڈراپ کر کے وسیم راجہ کو شامل کرنے کے حق میں تھے لیکن وہ اور نائب کپتان آصف اقبال اس خیال سے متفق نہیں تھے۔
ضیاالحق کے دور میں وزارت اطلاعات کے نگران جنرل مجیب الرحمان تھے۔ میڈیا میں ان کی مرضی کے بغیر پتا نہیں ہلتا تھا۔ ان موصوف کو وسیم راجہ کے سامنے ایک دفعہ کھسیانا ہونا پڑ گیا۔
پی ٹی وی کے سابق چیئرمین اختر وقارعظیم نے اپنی کتاب ’ہم بھی وہیں موجود تھے ‘ میں ایک واقعہ لکھا ہے جس سے وسیم حسن راجہ کا مزاج سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ ان کے بقول ’اس سیریز (1979 کی پاک بھارت سیریز) کے کچھ میچ دیکھنے جنرل مجیب بھی بھارت گئے تھے۔ ایک ٹیسٹ میچ میں وسیم
راجہ نے سینچری بنائی۔ جنرل صاحب انھیں مبارکباد دینے خاص طور پر پویلین گئے۔ وسیم راجہ ایک کونے میں لیٹے ہوئے تھے۔ ٹیم مینجر نے ان سے جنرل صاحب کا تعارف کرایا۔ راجہ بدستور لیٹے رہے۔ جنرل مجیب نے صدر کی طرف سے انھیں مبارکباد کا پیغام پہنچایا تو وسیم نے لیٹے لیٹے جواب دیا: ’ان سے
میری بات ہو چکی ہے۔‘ جنرل صاحب خاموشی سے واپس چل دیے، کہا تو صرف اتنا ’یہ بہت بڑا کھلاڑی ہے لیکن معصوم ہے۔‘

ان کے زمانے میں ویسٹ انڈین بولروں کی بڑی ہیبت تھی (گیٹی امیجز)

 وسیم حسن راجہ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد انگلینڈ سدھار گئے اور وہاں تدریس سے متعلق ہو گئے۔ کوچ کی حیثیت سے تھوڑے عرصے کے لیے پاکستان کرکٹ ٹیم کے ساتھ ان کی وابستگی رہی۔ آئی سی سی کے لیے میچ ریفری کے حیثیت سے کام کیا۔
23 اگست 2006 کو انگلینڈ میں ایک دوستانہ میچ کے دوران ان کی طبیعت اچانک بگڑنے پر ہسپتال لے جایا گیا لیکن جانبر نہ ہو سکے، انتقال کے وقت ان کی عمر 54 برس تھی۔
وسیم حسن راجہ کے چھوٹے بھائی رمیز حسن راجہ بھی نامور کرکٹر تھے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان بھی رہے۔ اتفاق کی بات ہے کہ بڑے بھائی کی طرح انھوں نے بھی 57 ٹیسٹ میچوں میں قومی ٹیم کی نمائندگی کی۔ کرکٹ کمنٹری میں انھیں ممتاز مقام حاصل ہے۔

شیئر: