Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اس شا ہکار گیٹ کی تعمیر کا اچھوتا خیال کس کا؟

جمالیاتی حسن کا شاہکار گیٹ آف مکہ( بوابہ مکہ) 4 3 برس سے مقدس شہر کے زائرین کا خیرمقدم کررہا ہے۔
 جدہ سے مکہ مکرمہ کی جانب سفر کرنے والے لاکھوں زائرین دوران سفر اسے دیکھتے ہیں۔بوابہ مکہ ایک طرح سے مقدس شہر کا داخلی دروازہ اوراس کا ثقافتی ورثہ ہے۔
 گیٹ آف مکہ ’با ب قرآن ‘کے نام سے بھی معروف ہے۔اس کا ڈیزائن سعودی آرٹسٹ ضیاءعزیز ضیاء نے 1979ءمیں تیار کیا تھا۔اس وقت تعمیر پر 4کروڑ 60 لاکھ سعودی ریال لاگت آئی تھی۔ یہ 4712 مربع میٹر رقبے پر تعمیر کیا گیا ہے۔اس کی لمبائی 152 میٹر اور چوڑائی 31 میٹر ہے۔یہ گیٹ مکہ مکرمہ اور جدہ کوجوڑنے والی شاہراہ پر شہر سے 5 کلومیٹر دو ر واقع ہے۔
 گیٹ آف مکہ سے گزرتے ہوئے بیشتر لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اس شا ہکار گیٹ کی تعمیر کا اچھوتا خیال کس کا ہے؟ ۔

قرآن مجید کی رحل سے اس گیٹ کے نقشے کا خیال آیا 

 مکہ مکرمہ کے گورنر شہزادہ خالد الفیصل کی جانب سے حال ہی میں یہ کہا گیا تھا کہ گیٹ آف مکہ کے ڈیزائنر ضیاءعزیز کی خواہش پر ان تمام افراد کو جنہوں نے اس گیٹ کی تعمیر میں حصہ لیا شامل سمجھا جائے گا ۔
سعودی وزیر ثقافت بدر بن عبد اللہ بن فرحان نے ٹویٹر پر ضیا ءعزیز کی تجویز کو منظوری دئیے جانے کا اعلان کیا ہے۔
 ضیاءعزیز نے عرب نیوز سے گیٹ آف مکہ کی اہمیت کے بارے میں بات کی اور بتایا کہ یہ کیوں اہم ہے کہ اس منصوبے میں حصہ لینے والے ہر فرد کو اس کا کریڈٹ ملنا چاہئے جس کے وہ حقدار تھے۔
 سعودی آرٹسٹ کا کہنا تھا’ا سے تمام مسلمانوں کے دل کا دروازہ سمجھیں۔ یہ اسلام کے دل کا دروازہ ہے‘۔ مکہ مکرمہ میں خدا کا گھر ہے اور یہ دنیا کا سب سے اہم شہر ہے۔ میرے کیریئر میںکسی دوسرے کام سے اس کا موازنہ نہیںکیا جا سکتا۔
 ابتدائی طور پر مکہ مکرمہ میونسپلٹی اور پرائیوٹ تعمیراتی کمپنی کے درمیان 1979 میں اس کی تجویز سامنے آئی۔

۔یہ گیٹ مکہ مکرمہ اور جدہ کوجوڑنے والی شاہراہ پر شہر سے 5 کلومیٹر دو ر واقع ہے۔

 ضیاءعزیز نے بتایا تعمیرانی کمپنی کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ وہ گیٹ آف مکہ کو کس طرح دیکھنا چاہتے ہیں ، مجھے صرف اتنا بتایا گیا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ یہ گیٹ شہر کی طرف جانے والی شاہراہ کے اوپر ہوگا۔
’مکہ مکرمہ کی اہمیت کے بارے میں بہت سوچنے کے بعدکچھ خیالات ذہن میں آئے لیکن میرے نزدیک سب سے اہم بات یہ تھی کہ نزول قرآن کی آئی جس کی شروعا ت مکہ مکرمہ سے ہوئی تھی۔ سوچ یہ تھی کہ نزول قرآن کے خیال کو لوگ ڈیزائن کے ذریعے پہچانیں۔
ضیاء عزیز ضیاء کا کہنا تھا کہ قرآن مجید کی رحل سے اس گیٹ کے نقشے کا خیال آیا تھا۔قرآن مجید کو رحل پر رکھنے کی طرح اس گیٹ کے عین درمیان میں لکڑی کا اسٹینڈ ہے۔ یہ بھی ایک طرح سے بہت بڑی رحل ہے۔ اس کے دونوں اطراف کنکریٹ کے ستونوں میں پیوست ہیں ان کے درمیان میں کھلی کتاب نظر آرہی ہے۔ ایک خاص بات یہ ہے کہ کھلی کتاب سے آسمان کی جانب روشنی بلند ہوتی ہے۔

گیٹ آف مکہ 4 3 برس سے مقدس شہر کے زائرین کا خیرمقدم کررہا ہے۔

 اس وقت مکہ مکرمہ کے میئر عبدالقادر کوشک کے دفتر گیا اور حتمی ڈیزائن پیش کیا۔ کچھ ماہ بعد گیٹ پر تعمیراتی کام شروع ہوا اور یہ کام 1985 میں مکمل ہوا۔
 ضیاءعزیز کا کہا تھا کہ یہ میری زندگی کا سب سے اہم کارنامہ ہے۔’ اپنے کیریئر کے آغاز سے مرنے کے دن تک‘۔مکہ مکرمہ دنیا کے ہر مسلمان کے دل میں بستا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ خدا نے میرے لئے گیٹ آف مکہ مکرمہ کے کا ڈیزائنر بننے کا انتظام کیا۔
 

شیئر: