Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سابق وزیر خزانہ ارون جیٹلی بھی نہیں رہے

انڈیا کے سابق وزیر خزانہ اور بی جے پی کے اہم رہنما ارون جیٹلی کا 66 سال کی عمر میں سنیچر کی دوپہر دہلی میں انتقال ہو گیا۔
وہ  ایک عرصے سے بیمار تھے اور گذشتہ کئی دنوں سے دہلی کے معروف ہسپتال ایمس میں نو اگست سے لائف سپورٹ پر تھے۔
 ایمس کی ترجمان آرتی وج نے میڈیا کو  بتایا کہ جیٹلی نے سنیچر کو دوپہر 12:07 منٹ پر آخری سانسیں لیں۔
اس سے قبل حال ہی میں انڈیا کی وزیر خارجہ شسما سوراج کا بھی انتقال ہو گیا تھا۔ ان دونوں کی طبیعت بہت دنوں سے خراب تھی اور اسی لیے انھوں نے نہ تو رواں سال ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لیا اور نہ ہی نئی حکومت میں انھوں نے کوئی عہدہ لیا۔

اس سے قبل انڈیا کی وزیر خارجہ شسما سوراج کا بھی انتقال ہو گیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

مئی میں حکومت سازی کے وقت ارون جیٹلی نے وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک خط لکھا تھا اور کہا تھا کہ خرابی صحت کی وجہ سے وہ نئی حکومت میں کوئی ذمہ داری نہیں چاہتے ہیں۔
اسی خط میں انھوں نے بتایا تھا کہ گذشتہ 18 مہینوں سے ان کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ در اصل ان کے گردے خراب ہو گئے تھے اور انہیں گذشتہ سال ٹرانسپلانٹ کے ذریعے تبدیل کیا گیا تھا۔در اصل سنہ 2014 میں جب جیٹلی اپنا پہلا بجٹ پیش کر رہے تھے تو انھوں نے بیٹھ کر بجٹ پیش کرنے کی اجازت چاہی تھی اور اس وقت ان کی پیٹھ میں تکلیف تھی۔
ان کی حالیہ خراب طبیعت کو دیکھتے ہوئے بی جے پی رہنما مسلسل انھیں دیکھنے کے لیے ہسپتال جا رہے تھے۔
اس سے قبل بے جے پی کے اہم رہنما اور سابق وزیر دفاع اور گوا کے وزیر اعلی منوہر پاریکر کا مارچ کے مہینے میں انتقال ہو گیا تھا۔

اس سے قبل مارچ میں بے جے پی کے اہم رہنما اور سابق وزیر دفاع اور گوا کے وزیر اعلی منوہر پاریکر کا انتقال ہوا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

گذشتہ ہفتے سنیچر کی شام  وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ بھی ایمس پہنچے تھے جبکہ اس سے قبل نو اگست کو وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر صحت ہرش وردھن ان سے ملنے ہسپتال پہنچے تھے۔
ان کی موت پر بی جے پی رہنماؤں کی جانب سے سوشل میڈیا پر پیغام ڈالے جا رہے ہیں۔ راج ناتھ سنگھ نے لکھا کہ انھیں 'ہمیشہ معیشت کو بحران سے نکال کر صحیح راستے پر لانے کے لیے یاد کیا جائے گا۔ بے جے پی کو ارون جی کی کمی کھلے گی۔ میں ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں۔'
کانگریس پارٹی نے بھی ان کی موت پر دکھ کا اظہار کیا ہے اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ تعزیت کی ہے۔
جبکہ دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے ان کی بے وقت موت کو 'ملک کا بڑا نقصان' کہا ہے۔
دوسری جانب وزیر داخلہ امت شاہ نے اسے ذاتی نقصان بتایا ہے اور لکھا ہے 'ان کی شکل میں میں نے نہ صرف تنظیم کا ایک سینیئر رہنما کھویا ہے بلکہ خاندان کا ایک ایسا نہ علیحدہ کیے جانے والا رکن بھی کھویا ہے جن کا ساتھ اور رہنمائی مجھے سالوں تک حاصل رہی ہے۔'
دہلی یونیورسٹی میں طلبہ یونین سے اپنا سیاسی میلان دکھانے والے جیٹلی دہلی کے سیاسی دائرے میں مقبول تھے۔
لیکن 1975 میں ایمرجنسی کے دوران جب قید کیا گيا تو وہ قسمت سے اسی جیل میں قید کیے گئے جہاں اٹل بہاری واجپی اور ديگر رہنما قید تھے۔
وکالت سے سیاست میں آنے والے ارون جیٹلی کو بی جے پی کے تجربہ کار قائدین میں شمار کیا جاتا ہے۔ انھوں نے پہلی مودی حکومت میں نوٹ بندی کی حمایت کی تھی اور اسے کالے دھن اور بدعنوانی پر حکومت کا کڑا وار کہا تھا۔

ارون جیٹلی کو اچھا کھانے اور پہننے کا شوق تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

ارون جیٹلی کو اچھا کھانے اور پہننے کا شوق تھا اور انھیں بی جے پی کے بڑے رہنام ایل کے اڈوانی کا قریبی شمار کیا جاتا تھا لیکن 2014 کے پارلیمانی انتخابات سے قبل وہ پوری طرح سے نریندر مودی کے خیمے میں آ گئے تھے۔
1991 میں پارلیمانی انتخابات میں انھوں نے اڈوانی کو معروف اداکار راجیش کھنہ کے خلاف جیت دلانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ انھوں نے اڈاوانی کو مختلف مقدموں سے بری کرانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ان مقدموں میں بابری مسجد انہدام معاملہ اور معروف جین حوالہ کیس بھی شامل تھے۔
جیٹلی ہمیشہ راجیہ سبھا سے منتخب ہو کر پارلیمان پہنچے۔ جیٹلی کو بی جے پی کے ایلٹ کلب کا ہونے کی وجہ سے عوام میں مقبولیت نہیں ملی۔ وہ فلموں اور کرکٹ کے شوقین تھے اور دہلی کرکٹ ضلع کرکٹ کونسل ڈی ڈی سی کے صدر بھی رہے۔ انہیں واجپائی حکومت میں وزیر اطلاعات و نشریات کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ انھوں نے اس کے علاوہ کئی ديگر اہم وزارتوں کی ذمہ داری بھی نبھائی تھی۔

شیئر: