Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیاحتی مقامات کی حفاظت: پاکستانی خاتون کے لیے ایوارڈ

پاکستان میں پہاڑوں اور دیگر سیاحتی مقامات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی عائشہ خان کو بین الاقوامی اعزاز ’سٹینفورڈ برائٹ ایوارڈ‘ سے نوازا گیا ہے جس پر دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا ہے کہ یہ ملک کے لیے قابل فخر بات ہے۔
عائشہ خان ماؤنٹین اینڈ گلیشیئر پروٹیکشن اورگنائزیشن نامی ادارے کی بانی ہیں۔ سٹینفورڈ نیوز کے مطابق انہوں نے 2001 میں پاکستان کے شمالی علاقوں کا پہلا دورہ کیا جس کے دوران انہوں نے دیکھا کہ سیاحت کی وجہ سے ان علاقوں میں آلودگی خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔
اس وقت سے عائشہ خان پاکستان کے پہاڑی علاقوں کی حفاظت کے لیے کام کر رہی ہیں، جس میں وہاں کے لوگوں کو معاشی طور پر بااختیار بنانا بھی شامل ہے۔
عائشہ خان کے ان کاموں کو سراہتے ہوئے انہیں ایک لاکھ ڈالرز کا ایوارڈ دیا گیا ہے جو کہ امریکی ریاست کیلی فورنیا میں سٹینفورڈ یونیورسٹی کا ماحولیات سے متعلق سب سے بڑا اعزاز ہے۔

عائشہ خان کا کہنا ہے کہ مقامی افراد اپنی روزمرہ ضروریات کے لیے ماحولیات پر انحصار کرتے ہیں، فوٹو: سٹینفورڈ نیوز

اس ایوارڈ کو سراہتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ عائشہ خان نے کے ٹو سمیت دیگر پہاڑی اور سیاحتی مقامات کے تحفظ، صفائی اور عوام میں شعور اجاگر کرنے کے لیے قابل تحسین کوششیں کی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک پاکستانی کو ماحولیات اور پہاڑوں کی حفاظت سے متعلق بین الاقوامی ایوارڈ ملنا پاکستان کے بیرون ملک تشخص کے لیے ایک مثبت پیش رفت ہے۔
’سٹینفورڈ برائٹ ایوارڈ 2019 ایک پاکستانی کو ملنے سے نہ صرف ملک میں سیاحت کے فروغ میں مدد ملے گی بلکہ دنیا میں بھی اچھا پیغام جائے گا۔‘
ڈاکٹر فیصل کا ماننا ہے کہ عائشہ خان سب کے لئے ایک مثال ہیں، ہم سب کو ماحول کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
’اس اعزاز کے نتیجے میں دیگر پاکستانیوں کی بھی حوصلہ افزائی ہو گی کہ وہ ماحولیاتی تحفظ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔‘

عائشہ خان کے کاموں کو سراہتے ہوئے سٹینفورڈ یونیورسٹی نے انہیں ایک لاکھ ڈالرز کا ایوارڈ دیا ہے، فوٹو: سٹینفورڈ نیوز

پہاڑوں اور مقامی افراد کا تحفظ

سٹینفورڈ نیوز کے مطابق، اپنے پہلے منصوبے کے تحت عائشہ خان نے چھ ہفتے کی ایک صفائی مہم کا آغاز کیا جس کے دوران کے ٹو تک جانے والے پہاڑی رستے کی صفائی کی گئی۔ اس کے تسلسل میں ایک اور چھ ہفتے کی مہم چلائی گئی جس میں کیمپنگ کے لیے تین مقامات منتخب کیے گئے جن کی دیکھ بھال مقامی افراد کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں وقت گزار کر اور ملک کے دور دراز دیہات میں رہ کر ان کو احساس ہوا کہ کیسے مقامی افراد اپنی روزمرہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ماحولیات پر انحصار کرتے ہیں۔ ’مقامی افراد کا حصہ بن کر میں نے دیکھا کہ غریب لوگ ماحولیات کو خراب نہیں کرتے بلکہ امیر لوگ قدرت کے اثاثوں کی قدر نہیں کرتے۔‘
شروع کے چھ برسوں تک عائشہ خان کے پاس اپنے ادارے کے لیے کوئی مالی امداد نہیں تھی۔ لیکن کچھ منصوبوں کے نتیجے میں انہیں انعامات ملے جس سے انہوں نے اپنا کام آگے بڑھایا۔
’میں ان لوگوں کی خاص کر شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھ پر اعتماد کیا اور میرے کام کو سراہا۔‘
عائشہ خان کا کہنا ہے کہ انہوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ انہیں اپنے کام کے بدلے میں اعزاز سے نوازا جائے گا۔
اس ایوارڈ کے ذریعے عائشہ خان کو ماحولیات سے متعلق اپنے پیغام کو آگے پہنچانے میں مدد ملے گی۔

شیئر: