Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں جینیاتی تبدیلی والی خوراک؟

ہم روزانہ جو خوراک کھاتے ہیں اسے بظاہر یا تو کسان اگاتا ہے یا اسے جانوروں سے حاصل کیا جاتا ہے۔
یہ خوراک کس طرح اگتی ہے اس کے بارے میں ہمارے ذہن میں شاز و نادر ہی خیال آتا ہے کیونکہ ہمیں اتنا تو معلوم ہے کہ یہ ایک قدرتی عمل ہے لیکن ہم میں سے بہت سوں کو یہ علم نہیں کہ دنیا بھر میں اس قدرتی عمل میں ٹیکنالوجی اور مصنوعی طریقوں کا استعمال بہت زیادہ ہونے لگا ہے اور ایسا کرنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان بھی شامل ہو چکا ہے۔
ٹیکنالوجی یا مصنوعی طریقے سے فصل کو جس بیج سے اگایا جاتا ہے اسے انگریزی میں ’جی ایم‘ یا جینیٹیکلی موڈیفائیڈ سیڈ کہا جاتا ہے۔
اس وقت دنیا بھرمیں ایک کروڑ 80 لاکھ کسان جی ایم بیجوں کا استعمال کر رہے ہیں اورغذائی قلت جیسے مسائل کی وجہ سے عالمی ادارہ صحت نے بھی جی ایم ٹیکنالوجی کی حمایت کی ہے۔
عالمی ادارہ برائے صحت کے مطابق جی ایم سیڈ میں ایسے کیمیکل ملے ہوئے ہوتے ہیں جو فصل کو کیڑوں سے بچا کر رکھتے ہیں۔
لہٰذا فصل کے اگنے میں کوئی نقصان نہیں ہوتا اور اس کی مدد سے غذائی قلت جیسے عالمی مسائل سے نمٹا جا سکتا ہے۔
تاہم پاکستان میں ابھی اس ٹیکنالوجی کو پورے طریقے سے نہیں اپنایا گیا ہے۔ 

ٹیکنالوجی یا مصنوعی طریقے سے بیج اگانے کے لیے زرعی سائنسدان عرصہ دراز تک تحقیق کرتے رہے۔ فوٹو: اے ایف پی

پاکستان کی قومی زرعی تحقیقاتی کونسل سے منسلک زرعی سائنسدان ڈاکٹر رمضان خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ فی الحال ملک میں جی ایم بیجوں کا استعمال صرف روئی کی پیداوار کے لیے کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’روئی کی پیداوار پاکستان کی معیشت کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے۔‘ 
ڈاکٹر رمضان خان، جو اسلام آباد میں قائم وسیع و عریض نیشنل ایگریکلچر ریسرچ سینٹر کی عمارت نگاب میں باقی سائنسانوں کے ساتھ مل کر بیج اور اس کے استعمال پر تحقیق کرتے ہیں، کا کہنا تھا کہ فصل کو کیڑوں سے بچانے کے لیے پاکستان میں پیسٹی سائیڈز پر بہت زیادہ رقم خرچ کی جارہی ہے۔
’'اس کے نتیجے میں نہ صرف بڑی رقم خرچ کی جارہی ہے، بلکہ پیسٹی سائیڈرز میں موجود کیمیکل کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔‘‘
غذائی اجناس کی فصلوں سے متعلق ڈاکٹر رمضان خان کا کہنا تھا کہ اس کے لیے ابھی تک پاکستان میں جی ایم بیجوں کا باقاعدہ استعمال شروع نہیں ہوا ہے۔ تاہم ان پر ابتدائی تجربات شروع ہو گئے ہیں۔
’ابھی تک جن فصلوں کے لیے جی ایم بیج کا تجربہ ہو رہا ہے اس میں ٹماٹر اور گندم شامل ہے۔‘

 اکیسویں صدی کے آغاز سے ہی خوراک میں جینیاتی تبدیلیوں کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج شروع ہوا۔ فوٹو: اے ایف پی

پاکستان میں خوراک کی پیداوار کے لیے جینیاتی بیجوں کے استعمال میں تاخیر کی ایک وجہ کچھ حلقوں کی جانب سے اس پر تنقید بھی ہے۔
کسانوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا خیال ہے کہ جی ایم ٹیکنالوجی کے استعمال سے کسان کا اپنے بیج پر حق ختم کیا جا رہا ہے۔
اس سے متعلق بنائے گئے  قانون ’سیڈ ایکٹ 2015‘  پر بھی اعتراضات لگائے جا رہے ہیں کیونکہ اس کی وجہ سے کسانوں کے لیے لائسنس شدہ کمپنی سے بیج خریدنا لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔
معاشرے کے پسماندہ طبقات کے لیے کام کرنے والے ادارے ’روٹس فارایکوئیٹی‘کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عذرا سعید کے مطابق زمین کے نزدیک رہنے والے ایک کسان کو اس بات کا بہترعلم ہوتا ہے کہ بیج کی کن نسلوں کو آپس میں ملایا جائے یا دوسرے لفظوں میں کن بیجوں کی ’کراس بریڈنگ‘ کرائی جائے۔
’’لیکن اب یہ محدود سا کارپوریٹ سیکٹر کسانوں سے ان کی انٹلیکچوئل پراپرٹی لے رہا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ جوار کی فصل چارے کے طور پر وسیع پیمانے پر عرصے سے استعمال کی جاتی ہے لیکن اب اس میں بھی جینیاتی تبدیلیاں لانے کی کوشس کی جارہی ہے۔

پاکستان کی طرح انڈیا میں بھی جی ایم ٹیکنالوجی کا استعمال روئی کی پیداوار تک محدود ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

ڈاکٹر عذرا سعید نے مزید بتایا کہ جب ایک گندم کے پودے کوایک جینیاتی تبدیلی یا جی ایم سیڈ کے ساتھ پیداوار کے لیے ملایا جائے تو اس سے صرف ہم اپنی خوراک خراب کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے عوام کو صحت بخش خوراک دینے کے لیے کھانے پینے کی جگہوں پر چھاپے مارنے کا عمل فضول ہے کیونکہ جب ان کھانوں میں جڑ سے ہی خرابی ہے تو محکمہ خوراک کے لوگ ہوٹلوں اور دکانوں پر جتنی مرضی کارروائی کرلیں اس کا فائدہ نہیں ہے۔
’’پہلے اس مسئلے کا بنیادی حل نکالنا زیادہ ضروری ہے۔‘‘
اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ کل پاکستان میں جو خوراک دستیاب ہوگی وہ بھی مکمل طور پر قدرتی نہیں ہوگی بلکہ جینیاتی تبدیلیوں کے بعد مصنوعی مراحل سے گزر کر لوگوں تک پہنچے گی۔

جی ایم فصلیں کن ممالک میں پائی جاتی ہیں؟

جی ایم سے متعلق ایک ویب سائٹ کے مطابق پاکستان کی طرح انڈیا میں بھی جی ایم ٹیکنالوجی کا استعمال روئی کی پیداوار تک محدود ہے جبکہ کھانے کی فصلوں کی اگر بات کریں تو مکئی، گندم، چاول، چنے اور آلو کی بیجوں میں جینیاتی تندیلیاں لا کر اگانے کا عمل ابھی تجرباتی اور تحقیقاتی مراحل میں ہے۔

پاکستان میں ابھی جی ایم سیڈ ٹیکنالوجی کو پورے طریقے سے نہیں اپنایا گیا۔ فوٹو: اے ایف پی

خطے میں بنگلا دیش وہ ملک ہے جہاں جینیاتی تبدیلیوں سے اگنے والی انسانی خوراک کا استعمال ہو چکا ہے جس میں بینگن کی سبزی شامل ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ بنگلادیش میں بینگن کو جینیاتی تبدیلیوں کے ساتھ اگائے جانے سے اس سبزی کو کیڑوں سے محفوظ رکھنے میں کسانوں کی مدد کی گئی ہے۔
جنوبی افریقہ ان 10 ممالک میں سے ایک ہے جہاں جینیاتی تبدیلیوں والی مکئی اور سویا بین اگائی جاتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق 2017 میں جنوبی افریقہ کو جی ایم فصلوں کی وجہ سے 33 کروڑ ڈالر کا فائدہ ہوا تھا۔
چین کو جی ایم فصلوں کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ملک کہا جاتا ہے اور اگر کاشت کی بات کی جائے تو 2016 میں چین نے بڑے پیمانے پر جی ایم پپیتے کی کاشت کی تھی۔
اس کے علاوہ، کینیڈا اور امریکہ ان چھ ممالک میں سے ہیں جنہوں نے جی ایم فصلوں کا استعمال 1996 میں شروع کیا تھا۔ دوسرے چار ممالک میں ارجنٹینا، آسٹریلیا، چین اور میکسیکو شامل ہیں۔
کینیڈا کے پودوں کی سائنس سے متعلق ادارے ’کروپ لائف کینیڈا‘ نے تخمینہ لگایا ہے کہ ٹیکنالوجی سے لیس بیجوں کے استعمال سے کسانوں کو فائدہ ہوا ہے کیونکہ وہ زیادہ مقدار میں فصل اگا پا رہے ہیں۔
یورپی ممالک کی اگر بات کی جائے تو ان میں سے کچھ تو جی ایم فصلوں کے خلاف ہیں جبکہ کچھ اس کے حق میں ہیں۔ تاہم، یورپ میں جس جی ایم فصل کا سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے وہ ہے جانوروں کی خوراک، جسے درآمد کیا جاتا ہے۔ 

شیئر: