Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مصنوعی ذہانت: پاکستان کہاں کھڑا ہے؟

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں واقع نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) کی ایک لیب میں بیٹھے ڈاکٹر حسن خالد اپنے کمپیوٹر کے ’کی بورڈ‘ پر انگلیاں چلا رہے ہیں، ان کے کمپیوٹر کی سکرین کو دیکھ کر عام آدمی کو لگتا ہے کہ شاید وہ دفتری اوقات میں ویڈیو گیم کھیل رہے ہیں۔
لیکن اصل میں ویڈیو گیمز ہی کی طرح وہ کمپیوٹر میں ایک بڑے شہر کا ماڈل بنا کر اس کے اوپر سے ڈرون اُڑا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں چیک کر رہا ہوں کہ ان کی لیب میں ڈرون اڑانے کے لیے تیار کیا گیا سافٹ ویئر ٹھیک سے کام کر رہا ہے یا نہیں۔ اگر اس نے ٹھیک سے کام کیا تو ڈرون کریش نہیں ہوگا اور کریش نہ ہوا تو ہم اسے اصل دنیا میں ٹیسٹ کریں گے۔
ڈاکٹر حسن یہ سافٹ ویئر ڈرونز میں انسٹال کریں گے اور یہ ڈرونز انسانی مدد کے بغیر کسی مخصوص جگہ یا شہر کی نگرانی، ریلوے ٹریکس کی مانیٹرنگ، ٹریفک منیجمنٹ اور بارڈر کی نگرانی جیسے سینکڑوں کاموں کے لیے استعمال کیے جا سکیں گے۔     
نسٹ یونیورسٹی میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے میدان میں کام کرنے والی ’انٹیلیجنٹ روبوٹکس لیب‘ کے انچارچ ڈاکٹر حسن کے مطابق مصنوعی ذہانت یا آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا حامل یہ ایک ڈرون اکیلا ہی سینکڑوں لوگوں کا کام کر سکتا ہے۔
اگر آپ 24 گھنٹے کسی شہر کی نگرانی کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے آپ کو مختلف جگہوں پر سینکڑوں اہلکاروں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن یہی کام مصنوعی ذہانت کے حامل چند ڈرون آسانی سے کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر حسن کے مطابق سادہ لفظوں میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا مطلب ہی یہی ہے کہ کوئی مشین انسانی مدد کے بغیر ایک سافٹ ویئر کے ذریعے اسی ذہانت سے کام کرے جس ذہانت سے انسان خود کرتا ہے۔

نسٹ یونیورسٹی مصنوعی ذہانت کا حامل ڈرون تیار کر رہی ہے جو شہر، ریلوے ٹریکس اور بارڈر کی نگرانی کے علاوہ ٹریفک منیجمنٹ کے لیے استعمال کیا جا سکے گا۔ 

ڈاکٹر حسن کہتے ہیں کہ دنیا تیزی سے آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے میدان میں ترقی کر رہی اور وہ وقت دور نہیں جب مصنوعی ذہانت دنیا میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں لائے گی۔
یہ پیش گوئی کرنے والے وہ واحد سائنسدان نہیں ہیں۔ ان کی طرح جدید ٹیکنالوجی سے واقفیت رکھنے والے دوسرے ماہرین کا بھی ماننا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی وجہ سے دنیا تیزی سے چوتھے صنعتی انقلاب کی طرف بڑھ رہی ہے۔
بین الاقوامی تنظیم 'ورلڈ اکنامک فورم' کے بانی اور مشہور انجینیئر کلاز شواب اپنی تصنیف 'دی فورتھ انڈسٹریل ریوولوشن' میں لکھتے ہیں کہ چوتھا انقلاب سابق صنعتی انقلابوں سے مختلف ہے، اس میں ذہین روبوٹس، خود کار گاڑیوں اور انسانوں کے جینز بدلنے سمیت مختلف اقسام کی نئی ٹینکنالوجیز شامل ہیں جن کے ذریعے تبدیلی بہت تیز اور ڈرامائی انداز میں رونما ہو رہی ہے۔
آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ذریعے دنیا میں رونما ہونے والی حالیہ تبدیلوں کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک طرف چین اپنے قومی سلامتی کے مفادات کے دفاع او فروغ کے لیے فوجی معاملات میں آرٹیفشل انٹیلجنس کا استعمال کر رہا ہے تو دوسری طرف امریکہ میں فیس بک اور ٹویٹر جیسی کئی بڑی کمپنیاں مصنوعی ذہانت کے ذریعے منٹوں میں کروڑوں افراد کا ڈیٹا اکھٹا کرنے اور اس کی بنیاد پر مطلوبہ نتائج اخذ کرنے کے قابل ہو گئی ہیں۔
شواب کہتے ہیں کہ چوتھا انقلاب زندگی کے تمام پہلوؤں کو نئے مفہوم عطا کرے گا۔ تاہم وہ یہ خدشہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ مختلف تنظیمیں اور حکومتیں نئی ٹیکنالوجیز کو استعمال کرتے ہوئے ان سے فائدہ اٹھانے میں ناکام ہو سکتی ہیں جس سے دنیا میں عدم مساوات مزید بڑھے گی اور نئے سکیورٹی خدشات پیدا ہوں گے۔
شواب کے اسی خدشے کو ذہن میں رکھتے ہوئے حکومت پاکستان نے بھی آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے میدان میں سرمایہ کاری کرنے اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہونے کاعزم ظاہرکیا ہے لیکن ماہرین کے مطابق پاکستان اس میدان میں ابھی بہت پیچھے ہے۔
پاکستان نے آرٹیفیشل انٹیلیجنس کو متعارف کروانے کے لیے ابھی تک محض دو واضح اقدامات اٹھائے ہیں۔

پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں میں نو لیبارٹریاں قائم کی گئی ہیں جن میں مصنوعی ذہانت کے تحت روبوٹس کی تیاری، مختلف بیماریوں کی شناخت اور دیگر معاملات پر تحقیق کی جا رہی ہے۔ 

پہلا منصوبہ صدر پاکستان عارف علوی کی طرف سے رواں سال کے آغاز میں متعارف کروایا گیا۔
'صدارتی پروگرام برائے مصنوعی ذہانت اور کمپیوٹنگ' کے نام سے شروع کیے گئے اس ایک سالہ منصوبے کے پہلے مرحلے میں ملک کے مختلف اضلاع میں نوجوانوں کو مصنوعی ذہانت اور ’آگمینٹیڈ ریئلیٹی‘ کے مختلف شعبوں میں مفت تربیت فراہم کی جائے گی۔
سائنسدانوں کے مطابق آگمنٹڈ ریئلٹی ایسی ٹیکنالوجی ہے جس کے ذریعے کمپیوٹر یا موبائل پر ہی صارفین اصل دنیا کا تجربہ حاصل کر سکتے ہیں، مثلاً اگر گوگل میپ میں آگمنٹڈ ریئلیٹی آجائے تو صارفین کو اسے استعمال کرتے ہوئے یوں لگے کا جیسے وہ سڑک پر کھڑے ہیں یا چل رہے ہیں۔
اس صدارتی منصوبے کا حصہ بننے والے نوجوانوں کو مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس اور انٹرنیٹ آف تھنگز (انٹرنیٹ کے ذریعے چیزیں بھیجنے اور منگوانے) کے متعلق ابتدائی تعلیم دی جائے گی۔ منصوبے کی ویب سائٹ کے مطابق اس پروگرام میں اب تک کراچی، اسلام آباد اور فیصل آباد سے 36 ہزار سے زائد نوجوان رجسٹر ہو چکے ہیں تاہم کلاسسز کا آغاز اپریل سے صرف کراچی میں ہی ہوسکا ہے۔
باقی شہروں میں کلاسسز کب شروع ہوں گی، اس حوالے سے تاحال  کوئی شیڈول جاری نہیں کیا گیا۔
منصوبے کے تحت مذکورہ شہروں کے علاوہ ملتان، سکھر، سیالکوٹ، ایبٹ آباد، لاہور، کوئٹہ اور پشاور میں بھی نوجوانوں کو مصنوعی ذہانت کے کورس کروائے جائیں گے لیکن اس حوالے سے ابھی کوئی شیڈول موجود نہیں۔
ملک میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کو فروغ دینے کے لیے دوسرا بڑا منصوبہ 2018 کے اوائل میں مسلم لیگ نواز کی حکومت کی وزارت منصوبہ بندی و ترقی نے 'نیشنل سنٹر فار آرٹیفیشل انٹیلیجنس' کے نام سے شروع کیا تھا۔
حکومت پاکستان کے ویژن 2025 کے تحت قائم کردہ اس نیشنل سنٹر کی سربراہی نسٹ یونیورسٹی میں روبوٹکس ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر یاسرایاز کو سونپی گئی ہے۔

چین، امریکہ اور دیگر بڑے ممالک آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا استعمال اپنے قومی سلامتی کے مفادات کا دفاع او فروغ کے لیے بھی کرتے ہیں۔

ڈاکٹر یاسر کہتے ہیں کہ 'دنیا میں مصنوعی ذہانت کے استعمال کا آغاز جنگ عظیم دوم میں ہو گیا تھا لیکن بدقسمتی سے پاکستان اس میدان میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔‘
مصنوعی ذہانت کے میدان میں سرمایہ کاری اورپیش رفت کے بغیر پاکستان کبھی بھی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا نہیں ہو سکتا۔ اگر ہم ایک بہتر معیشت بننا چاہتے ہیں تو ہمیں صنعتی میدان سے لے کر گھریلو سطح تک ہر محکمے اور ہر شعبے میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی ضرورت ہے۔
حکومت کی جانب سے یونیورسٹیوں کی سطح پر بھی اس تین سالہ منصوبے کی سربراہی نسٹ ہی کے پاس ہے۔ نسٹ کے علاوہ اس منصوبے میں پانچ مزید یونیورسٹیوں کو شامل کیا گیا ہے۔
ان میں کامسٹس انسٹیٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی اسلام آباد، این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئیرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کراچی، یونیورسٹی آف انجینئیرنگ اینڈ ٹینکالوجی پشاور، یونیورسٹی آف پنجاب لاہور اور یونیورسٹی آف انجینئیرنگ اینڈ ٹینکالوجی لاہور شامل ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر یاسر نے بتایا کہ مصنوعی ذہانت کے مختلف شعبوں پر تحقیق کے لیے نیشل سینٹر کے زیر انتظام مذکورہ یونیورسٹیوں میں نو لیبارٹریاں قائم کی گئی ہیں۔
ان لیبارٹریوں میں روبوٹس کی تیاری، مصنوعی ذہانت کے ذریعے غلط معلومات کے پھیلاؤ کی روک تھام، مختلف بیماریوں کی بہتر شناخت اورعلاج، صنعتی اور زرعی شعبے میں پیداوار بڑھانے، ملکی سکیورٹی کی بہتری، حادثات کی بہتر انداز میں مینیجمنٹ، نئے شہروں کی پلاننگ اور کان کنوں کی زندگیوں کو خطرات سے پاک کرنے کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔
حکومت نے نیشنل سینٹر کے تین سالہ منصوبے کے لیے تقریباً ایک ارب 10 کروڑ روپے مختص کیے تھے۔
منصوبے کے تحت نیشنل سنٹر کو پہلے سال 40 کروڑ روپے ملنے تھے تاہم اسے اب تک صرف 24 کروڑ ہی مل سکے ہیں اور وہ بھی مالی سال کے آغاز میں ملنے کی بجائے جنوری  2018  یعنی سال کے ساتویں مہینےمیں ملے ہیں، جس سے پراجیکٹ کی ابتدا ہی سست روی سے ہوئی ہے۔
ڈاکٹر یاسر کے مطابق سینٹر میں اس وقت کل 222 سائنسدان آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے مختلف شعبوں میں تحقیقی کام کر رہے ہیں۔
ان کا ماننا ہے کہ پاکستان میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس پر تحقیق کرنے والے باصلاحیت سائنسدانوں اور نوجوانوں کی کمی نہیں۔ اسی لیے نسٹ نے آئندہ سال سے آرٹیفیشل انٹیلیجنس میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں متعارف کروانے کا بھی فیصلہ کیا ہے، جبکہ نسٹ کے علاوہ فاسٹ یونیورسٹی بھی رواں سال کے آخر میں اس میدان میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کا آغاز کر رہی ہے۔
ڈاکٹر یاسر کے مطابق ’اگر حکومت ہمیں مناسب فنڈز کی بروقت ادائیگی کرتی رہے تو یہ سنٹر حیران کن نتائج دے سکتا ہے جس سے پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔
لیکن ان کو خدشہ ہے کہ حکومت کہیں مالی دباؤ سے نمٹنے کے لیے آرٹیفیشل ٹیکنالوجی کے لیے مختص کی گئی رقم کم نہ کر دے۔
ڈاکٹر یاسر کہتے ہیں کہ ’اس سرمایہ کاری کو کم کرنے کے بجائے ہر گزرتے سال کے ساتھ بڑھایا جائے۔‘

شیئر: