Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ستمبر سے نومبر تک مہنگائی مزید بڑھے گی‘ اسد عمر

پاکستان کے سابق وزیرخزانہ اسد عمر نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کو سی پیک منصوبوں کی تفصیلات نہیں دی گئیں لیکن قرضوں کی تفصیلات ضرور دی گئی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کے مجموعی قرضوں میں سے صرف 10 فیصد قرضہ چین کا ہے۔
اردو نیوز کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں اسد عمر نے کہا کہ ’آئی ایم ایف حکام قرضوں کی تفصیلات مانگتے تھے۔ امریکی وزیرِخارجہ مائیک پومپیو نے بھی ایک بیان دیا تھا کہ آئی ایم ایف کا پیسہ چین کا قرضہ واپس کرنے کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے ۔ جب ہم نے حقیقت آئی ایم ایف کے سامنے رکھی تو پتہ چلا کہ پاکستان کے کل قرضوں کا صرف دس فیصد قرضہ چین کا ہے۔ زیادہ تر قرضے تو مغربی ممالک یا ذرائع سے آئے ہیں، تو پھر انہوں (آئی ایم ایف) نے کوئی سوال نہیں پوچھا تھا۔ سی پیک منصوبوں کی نہیں قرضوں کی تفصیلات آئی ایم ایف کو ضرور دی تھیں۔‘

سابق وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ بطور وزیر خزانہ ان کی سب سے بڑی غلطی اپنے اقدامات کو عوام تک درست طریقے سے نہ پہنچانا اور معاشی ٹیم میں تبدیلیوں کی رفتار کو آہستہ رکھنا تھی۔

انہوں نے کہا کہ جس طریقے سے ہم اداروں کے سربراہان کو تبدیل کر رہے تھے اس کو مزید تیزی کے ساتھ تبدیل کیا جا سکتا تھا۔ اس پر زیادہ توجہ دی جانی چاہیے تھی۔ 
اسد عمر نے کہا کہ ’اداروں کے اندر ٹیم کو مضبوط کرنا بھی ضروری تھا۔ ہم نے کئی اداروں کے سربراہان بدلے لیکن وہ کام اتنا ضروری ہے کہ اور بھی تیزی اور توجہ کے ساتھ کرنا چاہیے تھا۔‘

جہاد کا نہیں صلح حدیبیہ کا وقت ہے

سابق وزیر خزانہ نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہ ’ایسا ممکن نہیں کہ بیک وقت تمام ممالک کے ساتھ یکساں تعلقات رکھے جائیں لیکن سب کے ساتھ تعمیری تعلقات رکھے جا سکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ترکی، ایران، سعودی عرب اور چین کے ساتھ بہتر تعلقات ہیں۔ چین کے ساتھ تعلقات کو قربان کیے بغیر ہم نے امریکہ کے ساتھ بھی تعلقات بہتر کیے ہوئے ہیں۔ پاکستان کو جو عزت مل رہی ہے کہ اس کی وجہ  لیڈرشپ ہے۔ پاکستان کو کوشش کرنی چاہیے تمام ممالک کے ساتھ تعمیری تعلق رکھے۔‘
انہوں نے کہا ’جہاد بھی اسلام کا حصہ ہے اور صلح حدیبیہ بھی اسلامی تاریخ کا حصہ ہے۔ جس مشکل وقت سے پاکستان گزر رہا ہے یہ صلح حدیبیہ کا وقت ہے۔‘

بطور وزیر خزانہ اپنے اوپر پارٹی کے اندر سے ہونے والی تنقید سے متعلق اسد عمر کا کہنا تھا کہ مشکل حالات میں مشکل فیصلے کرنا پڑتے ہیں، ’اگر آپ مشکل فیصلے نہیں کر سکتے اور سب کو خوش کرنا چاہتے ہیں تو پھر آپ آئس کریم بیچیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جب آپ مشکل فیصلے کریں گے تو لوگوں کو وقتی طور پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور ایسے میں آپ پر تنقید بھی ہوگی۔ اگر قیادت کرنی ہے تو ایسے فیصلے کرنے ہوتے ہیں جس سے لوگ ناخوش بھی ہوں‘۔

کیا اسد عمر دوبارہ کابینہ میں شامل ہوں گے؟

سابق وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے کہ وہ کابینہ میں شامل ہونے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ ’ اپنا کردار ادا کرنے کے لیے جو بہترین طریقے سے ہوگا وہ کروں گا اور جب لگے گا کہ میرے تجربے اور صلاحیت کا استعمال جس طریقے سے ہو سکتا ہے اس کے لیے تیار ہوں لیکن کام کرنے کے لیے کابینہ میں ہونا شرط نہیں ہے۔ میں چار ماہ سے کام کر کے دکھا رہا ہوں۔‘ 

کیا پاکستان آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کر لے گا؟ 

سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے تحریک انصاف کی حکومت کی معاشی ٹیم  کو پرکھنے کا معیار آئی ایم ایف سے چھٹکارے کو قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا ’جو حکومت آتی ہے وہ معاشی بحران کا سامنا کرتی ہے۔ اگر واقعی خوددار قوم کی طرح زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو ہمیں یہاں (آئی ایم ایف) سے نکلنا ہوگا اور اس کے لیے مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے۔ میں بطور وزیر خزانہ بھی کہتا تھا کہ پاکستان کی معیشت اس وقت درست ہوگی جب ہمارے فیصلے اگلی نسل کے لیے ہوں اگلے الیکشن کے لیے نہیں۔‘

ستمبر میں افراط زر بلند ترین سطح پر پہنچ جائے گی

اسد عمر نے ملکی معیشت کی حالیہ صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ستمبر اور نومبر کے درمیان افراط زر بلند ترین سطح پر پہنچ جائے گی۔ مہنگائی کی شرح میں آج سے چار پانچ ماہ بعد کمی ہوتی نظر آئے گی اور اس کے بعد (معیشت) مستحکم ہو جائے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جہاں تک شرح نمو کا تعلق ہے اس کے لیے یہ سال استحکام کا ہے۔ پچھلے سال تو حالات اتنے برے تھے کے بقا کا سال تھا۔ 2020-21 یعنی اگلا جو بجٹ آئے گا اس کے بعد شرح نمو میں بتدریج اضافہ ہوگا۔‘

کیا سی پیک منصوبے سست روی کا شکار ہیں؟

سابق وزیر خزانہ نے اپوزیشن کی جانب سے حکومت پر سی پیک کو رول بیک کرنے کے الزام کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سی پیک کے پہلے مرحلے میں 27 ارب روپے کے پراجیکٹس مکمل ہو چکے ہیں یا تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں۔ لیکن دوسرے مرحلے پر کام سست روی کا شکار ضرور ہے لیکن یہ گزشتہ دور حکومت میں بھی سست روی کا شکار تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’دوسرا مرحلہ ذراعت اور صنعتی شعبے کا ہے، جس میں پرائیوٹ سیکٹر کا کردار بہت بڑا ہوگا اور حکومت کا کردار محدود ہوگا۔ حکومت وہ ٹرانزیشن اتنی کامیابی سے نہیں کر پا رہی جس طرح پہلے مرحلے میں ہوا۔ اس میں تھوڑی سست رفتاری ہوئی ہے۔ ہماری حکومت میں بھی تھوڑا تیزی سے کام ہو سکتا تھا لیکن یہ بھی گزشتہ حکومت سے وراثت میں ملا ہے۔‘ 
سابق وزیر خزانہ نے حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ایف بی آر محصولات کے اہداف کو قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’شبر زیدی کے سامنے پہاڑ جیسا چیلنج ہے۔ ہماری دعائیں ہیں کہ وہ اس میں کامیاب ہوں لیکن چیلنج بہت بڑا ہے اور بہت ناگزیر بھی ہے اس کے بغیر جن مشکلات میں آپ ہیں اس میں سے نہیں نکل سکتے۔‘ 

’خود دار قوم بننا ہے تو آئی ایم ایف سے جان چھڑانا ہوگی‘۔ فوٹو: اے ایف پی

اسد عمر نے وزیراعظم عمران خان کو حالیہ معاشی صورتحال پر مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ مشکل فیصلوں پر قائم رہیں اور خود بھی جلدی میں نہ ہوں اور عوام کو بھی سمجھائیں کہ جلدی نہ کریں۔ اگر جلدی کی تو جو ہمشیہ کے لیے معاشی صورتحال کو بہتر بنانا چاہ رہے ہیں اس میں گڑ بڑ ہوسکتی ہے۔ خود بھی ثابت قدم رہیں اور قوم کو بھی سمجھائیں۔‘

تحریک انصاف کو چھوڑنے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’بہت سارے لوگوں کی خواہش تو یہ ضرور ہے کہ میں تحریک انصاف چھوڑ دوں لیکن میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اگر سیاست کروں گا تو تحریک انصاف میں، دوسری کسی جماعت میں شامل ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اور نئی جماعت بنانے کی ضرورت ہی نہیں۔ اگر تحریک انصاف چھوڑی تو سیاست ہی چھوڑ دوں گا۔‘

شیئر: