Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سول سروس اصلاحات نہ ہونے کے اثرات

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرمنٹ پالیسی کے امور پر کام جاری ہے، تصویر: وزیراعظم آفس
پاکستان میں گورننس کے نظام کا مکمل انحصار سول سروس پر ہوتا ہے جس کے ذریعے حکومتی پالیسیوں کے اثرات عوام تک پہنچتے ہیں لیکن عوام کبھی سرکاری ملازمین کی کارکردگی سے مطمئن نظر نہیں آئے جس کی وجہ سے ہر دور میں سول سروس میں اصلاحات کی بات کی جاتی ہے لیکن اس میں ابھی تک کامیابی نہیں ہو سکی۔
سول سروس میں اصلاحات کا نمایاں کام سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کے دور حکومت میں ہوا جس میں بنیادی پے سکیل تشکیل دیے جانے کے ساتھ ساتھ سرکاری ملازمین کے خلاف تادیبی کارروائی اور شکایات کے ازالے کے لیے سروسز ٹربیونلز قائم کیے گئے لیکن عوامی خدمات کا معیار مطلوبہ حد تک بہتر نہ ہوسکا۔
سابق صدر پرویز مشرف نے اپنے دور میں بھی سول سروس میں اصلاحات کی کوشش کی اور ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں نیشنل کمیشن فار گورنمنٹ ریفارمز‘‘ قائم کیا۔ ڈاکٹرعشرت حسین نے چار سال  کی محنت کے بعد ایک تفصیلی رپورٹ بھی تیار کی لیکن اس پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔
پنجاب میں سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کی حکومت کے دوران پولیس اور ڈپٹی کمشنرز کو ایک اضافی تنخواہ دینے کی تجویز کے ساتھ ساتھ تنخواہوں میں کئی گنا اضافہ کیا گیا لیکن بنیادی تبدیلیاں نہ ہونے کے باعث خاطر خواہ نتائج سامنے نہ آ سکے۔

سول سروس میں اصلاحات کی ذمہ داری ڈاکٹر عشرت حسین کو سونپی گئی ہے، تصویر: ٹوئٹر

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے بھی اپنے قیام کے بعد 100 روزہ ایجنڈے میں سول سروس اصلاحات کو شامل کیا۔ ڈاکٹر عشرت حسین ہی کی سربراہی میں 19 رکنی ٹاسک فورس قائم کی گئی جس میں وفاقی و صوبائی بیوروکریسی کے نمائندوں سمیت گورننس اور قانون کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین کو شامل کیا گیا۔
ٹاسک فورس نے ابتدائی سو روز میں سول سروس اصلاحات سے متعلق بلیو پرنٹ حکومت کے حوالے کر دیا لیکن ایک سال گزر جانے کے باوجود موجودہ حکومت کی اصلاحات کو ابھی تک کاغذ سے باہر نکال کر عملی جامہ نہیں پہنایا جا  سکا۔

سول سروس اصلاحات ہیں کیا؟

سول سروس اصلاحات کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو ملازمین سے متعلق ہے جبکہ دوسرا پہلو خدمات کی فراہمی کے بارے میں ہے۔ ملازمین سے متعلق پہلو مزید دو درجوں میں تقسیم ہوتا ہے جن میں سے ایک سی ایس ایس (مقابلے کا امتحان) پاس کر کے اور دوسرا درجہ مختلف اسامیوں پر براہ راست بھرتی ہونے والے ملازمین کے حوالے سے ہے۔

ماہرین ڈی ایم جی گروپ کو سول سروس اصلاحات میں رکاوٹ قرار دیتے ہیں، تصویر: وکی پیڈیا

سابق سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن عبدالرؤف چوہدری نے ’اردو نیوز‘ سے گفتگو میں کہا کہ سول سروس میں اصلاحات کا مطلب یہ ہے کہ ’’سرکاری اداروں اور ان کے نظام میں بہتری لائی جائے تاکہ سرکاری امور بہتر انداز میں چلائے جا سکیں اور عوام کو خدمات کی فراہمی کا عمل بھی بہتر بنایا جا سکے۔‘‘
ان کے مطابق ’’ وقت کافی بدل چکا ہے، اب ہمیں سپیشلائزیشن کی طرف جانا چاہیے۔ سول سروس کا ایک ہی امتحان لینے کے بجائے مختلف سروسز کے لیے تین چار الگ امتحانات ہونے چاہئیں۔ اگر آپ تاریخ کے طالب علم کو سیکرٹری خزانہ لگائیں گے تو کیا کارکردگی سامنے آئے گی؟ ڈاکٹرز کے اوپر سیکرٹری صحت اگر ڈی ایم جی گروپ سے ہو گا تو صحت کا شعبہ کیسے آگے بڑھے گا؟ بھرتی کا طریقہ کار ہی بدل دینا چاہیے۔‘‘
سول سروس کا آغاز بھرتی سے ہوتا ہے۔ ٹریننگ، پروموشن، سروس سٹرکچر، تقرر تبادلے سمیت بہت سارے امور اس میں شامل ہوتے ہیں جن کے طریقہ کار میں 1973 کے بعد بڑی اصلاحات نہیں کی گئیں۔

سول سروس میں نمایاں اصلاحات ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں کی گئیں، تصویر: سوشل میڈیا

سابق سیکرٹری کابینہ ڈویژن راجا حسن عباس نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’جب بھی اصلاحات کی بات کی جاتی ہے تو صرف سی ایس ایس والوں کا سوچا جاتا ہے جبکہ وہ صرف چند ہزار ہیں باقی لاکھوں سرکاری ملازمین کو ترجیح نہیں دی جاتی۔ گریڈز کی وجہ سے بھی خرابی ہوتی ہے۔ ایک سروس میں ایک گریڈ کے لیے تنخواہ و مراعات زیادہ اور دوسری میں کم ہیں جس سے تنازعات جنم لیتے ہیں۔‘‘
’’رائٹ مین فار دی رائٹ جاب کے فارمولے پر عمل ہو جائے تو مسئلہ ویسے ہی حل ہو جائے۔ یہاں ایک اسامی کے لیے چھ ماہ لگا کر ایک بندے کا انتخاب کیا جاتا ہے اور تین ماہ بعد اس کا تبادلہ کر کے نیا بندہ لے آتے ہیں اور پھر کہتے ہیں سروس ڈیلیوری میں بہتری نہیں آ رہی اور کارکردگی اچھی نہیں۔‘‘
سابق سرکاری افسران کے مطابق انتظامی، معاشی، پولیس، انجینئرنگ اور صحت جیسے گروپس تشکیل دے کر امتحانات لیے جائیں یا پھر پہلے سے بھرتی افسران بالخصوص ڈپٹی سیکرٹری اور سپیشل سیکرٹریز کو جدید کورسز کروا کر متعلقہ شعبوں میں تعینات کیا جائے تو پالیسی سازی اور ڈیلیوری میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔

 ماہرین کہتے ہیں کہ مختلف سروسز کے لیے الگ امتحانات ہوں، تصویر: ایف پی ایس سی

رکاوٹ کیا ہے؟  

ماضی میں بھی سول سروس میں اصلاحات لانے کی باتیں کی جاتی رہی ہیں اور ہر حکومت نے اپنے اپنے انداز میں کمیٹیاں بھی تشکیل دیں، سفارشات بھی تیار ہوئیں لیکن ہر بار یہ کوشش بارآور ثابت نہیں ہو سکی جس کے بعد یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو اصلاحات نہیں ہونے دیتے یا پھر عمل درآمد کے راستے میں رکاوٹ بن جاتے ہیں؟
سابق سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن عبدالرؤف چوہدری کہتے ہیں کہ اصلاحات کا حکومتی آئیڈیا بہت اچھا ہے لیکن بنیادی رکاوٹ صوبوں کا باہمی عدم اتفاق ہے۔ اٹھارھویں ترمیم کے بعد صوبوں کے مابین اتفاق قائم کرنا مزید مشکل ہو گیا ہے کیونکہ بہت سارے معاملات تو ویسے ہی ان کے پاس چلے گئے ہیں۔
’’صوبوں کے پاس دستیاب وسائل بھی اصلاحات کی راہ میں رکاوٹ ہیں کیونکہ اگر ایک صوبہ مراعات میں اضافے کی بات کرے تو دوسرے کے پاس وہ وسائل دستیاب نہیں۔ اصلاحات کے لیے قانون سازی پر بھی اتفاق نہیں ہوتا اور سب سے بڑی رکاوٹ ڈی ایم جی گروپ ہے جو اپنی اجارہ داری ختم نہیں کرنا چاہتا۔ ڈی ایم جی گروپ والے نہیں چاہتے کہ ان کی اسامیاں کم ہوں اور صوبوں یا اضلاع میں ان کے اختیارات پر کوئی قدغن لگے۔‘‘

شہباز شریف سول سروس اصلاحات لانے میں زیادہ کامیاب نہ ہو سکے، تصویر: اے ایف پی

سابق سیکرٹری کابینہ ڈویژن راجا حسن عباس ان تمام تر رکاوٹوں کے پیچھے سیاسی عزم کی کمی کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ کمیٹیوں، سفارشات، رپورٹس کی کمی پہلے تھی نہ اب ہے، اگر کمی ہے تو صرف سیاسی عزم کی ہے۔
’’آپ دیکھ لیں موجودہ حکومت کا بھی ایک سال تو گزر گیا کوئی نتیجہ سامنے آیا؟ تقرریاں اور تبادلے ہی ہو رہے ہیں۔ تعیناتی سے پہلے خوب سوچ بچار کر لینی چاہیے اور پھر تین سال تک تبادلہ نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

ٹاسک فورس کا کام کہاں تک پہنچا؟

ٹاسک فورس کے اب تک درجنوں اجلاس ہو چکے ہیں جبکہ وزیراعظم خود بھی ٹاسک فورس کی کارکردگی کا وقتاً فوقتاً جائزہ لیتے رہتے ہیں۔ اس حوالے سے آخری اجلاس 20 اگست کو ہوا جس میں مشیر برائے اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین نے وزیر اعظم کو بریفنگ دی تھی۔
ٹاسک فورس کی اب تک کی کارکردگی پر حکومتی موقف دینے کے لیے اردو نیوز نے وزیراعظم کے مشیر ڈاکٹر عشرت حسین اور شہزاد ارباب سمیت متعلقہ حکام سے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ دستیاب نہ ہو سکے۔

اصلاحات میں بنیادی اصول رائٹ پرسن فار دی رائٹ جاب ہو، ماہرین، تصویر: وکی پیڈیا

تاہم اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے حکام نے نام ظاہر نہ کرنے شرط پر بتایا کہ سول سروس اصلاحات کے تحت مختلف وزارتوں میں سیکرٹریز کی تعیناتی کے حوالے سے جامع نظام کی تشکیل، اہم خود مختار اداروں کے لئے سربراہوں کی تعیناتی کا طریقہ کار وضع کرنے، وزرا کی معاونت کے لئے ٹیکنیکل ایڈوائزرز کی تعیناتی اور عرصہ تعیناتی کے تحفظ سے متعلق سفارشات تیار کی جا چکی ہیں۔
تجویز دی گئی ہے کہ اعلیٰ سرکاری اداروں کی سربراہی متعلقہ شعبوں میں مہارت رکھنے والے افراد کو ہی سونپی جائے۔ سرکاری ملازمین کی بھرتیوں، پیشہ وارانہ تربیت، کارکردگی جانچنے کے معیار، ترقی کے طریقہ کار اور سینیئر ترین عہدوں پر قابل افراد کی تعیناتی کے لئے ضروری تبدیلیاں بھی تجویز کی گئی ہیں۔   
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں، ریٹائرمنٹ پالیسی اور اداروں کے اپنے احتساب کے نظام کو مزید بہتر بنانے پر بھی کام جاری ہے۔ نظام حکومت میں ای گورننس کے نفاذ کے لئے روڈ میپ تشکیل دیا جا چکا ہے جس سے نہ صرف شفافیت کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی بلکہ اس سے عوام کو خدمات کی فراہمی اور گورننس میں بھی بہتری آئے گی۔ 

شیئر: