Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امرتا پریتم: ’اج آکھاں وارث شاہ نوں‘

انڈیا پاکستان اور تیسرے پنجاب کینیڈا میں امرتا پریتم کی 100ویں سالگرہ پر انہیں خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔
میں سوشل میڈیا پر دیکھ رہا ہوں کہ ادبی حلقوں اور ادبی تنظیموں کے زیرِ اہتمام امرتا پریتم کے صد سالہ جنم دن پر پروگرام منعقد کیے جا رہے ہیں اور درجنوں ایسے دعوت نامے موصول ہو رہے ہیں۔
امرتا پریتم ایک شاعرہ، ناول نگار، افسانہ نگار یا ادیبہ ہی نہیں بلکہ ایک لیجنڈری شخصیت تھیں۔ جو شہرت بحثیت ادیبہ انہیں ملی شاید ہی کسی عورت لکھاری کو ملی ہو۔
امرتا پریتم کی اپنی زندگی خود ایک فن پارے کی طرح دلچسپ ہے۔ ایسی ہستی کو خراج تحسین پیش کرنا فرض کے زمرے میں آتا ہے۔ ان کی زندگی کا مختصر تعارف یہ ہے۔
امرتا پریتم کا جنم 31 اگست 1919 کو گوجرانوالہ میں ہوا۔ والد ماسٹر کرتار سنگھ اور والدہ راج کور دونوں گوجرانوالہ کے ایک سکول میں پڑھاتے تھے۔

امرتا پریتم نے تقسیم برصغیر کے حالات کا مشاہدہ کیا اور پھر انہیں سپرد قلم بھی کیا۔

امرتا کو پڑھنے لکھنے کا ماحول گھر سے ہی ملا اس لیے وہ بہت جلد پڑھنا لکھنا سیکھ گئیں اور شاعری بھی کرنے لگیں۔ پہلی نظم لکھنے پر باپ سے ڈانٹ بھی کھائی مگر اس کے ساتھ یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ وہ اتنی چھوٹی عمر میں نظم لکھ رہی ہے تو آگے چل کر بہت کچھ لکھے گی بعد میں پھر ایسا ہی ہوا۔ گیارہ سال کی عمر میں ماں کا انتقال ہوگیا اور باپ بیٹی گوجرانوالہ چھوڑ کر اندرون لاہور گُمٹی بازار آ بسے۔
16 سال کی عمر میں امرتا کی شادی ہو گئی، خاوند کا نام پریتم سنگھ تھا۔ اس کے بعد وہ امرتا پریتم بن گئیں اور اسی سال ان کی نظموں کی پہلی کتاب ’ٹھنڈیاں کِرناں‘ 1935 میں شائع ہوئی۔
تقسیم ہند کے بعد دہرہ دون اور پھر دہلی میں رہائش پذیر ہوگئیں لیکن تقسیم پنجاب کے وقت ہونے والے قتل عام کے واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تو ان واقعات نے ان کے دل اور دماغ پر گہرا اثر چھوڑا۔ ٹرین میں سفر کرتے ہوئے خون کی بہتی ندیاں دیکھیں اور خواتین اور معصوم بچوں کی چیخ و پکار اپنے کانوں سے جس طرح سنیں اسی طرح اپنی قلم سے لکھ دیا۔

امرتا پریتم کی ساحر لدھیانوی کے ساتھ لی گئی ایک یادگار تصویر

وہ ایک صدی کی نامور شہرہ آفاق افسانہ نگار، شاعرہ اور ناول نگار تھیں۔ انہوں نے سو سے زائد کتابیں لکھیں جن میں شاعری کے علاوہ کہانیوں کے مجموعے، ناول اور تنقیدی مضامین کے انتخابات بھی شامل ہیں۔ کاغذ اور کینوس، خاموشی سے پہلے، ستاروں کے لفظ اور کرنوں کی زبان، کچے ریشم کی لڑکی، رنگ کا پتہ، چک نمبر چھتیس، ایک تھی سارا، من مرزا تن صاحباں، لال دھاگے کا رشتہ، لفظوں کے سائے، درویشوں کی مہندی، حجرے کی مٹی، چراغوں کی رات، پنجر، کورے کاغذ ،انچاس دن، ساگر اور سپیاں، ناگ منی، دل کی گلیاں، تیرہواں سورج، نویں رت، چنی ہوئی کویتائیں، رسیدی ٹکٹ (آپ بیتی) وغیرہ۔
آخری کتاب، ’میں تینوں فیر ملاں گی‘ نظموں کا مجموعہ تھا ۔ ہندوستان کی تقسیم پر ان کے ایک ناول ’پنجر‘ پر اسی نام سے فلم بھی بن چکی ہے جس نے اہم ایوارڈ بھی جیتےتھے۔ اس کے علاوہ بھی کئی تخلیقات پر نو سے زائد فلمیں اور سیریل بن چکے ہیں۔
امرتا پریتم انڈین ایوان کی رکن بھی رہیں۔ دہلی، جبل پور اور وِشو بھارتی یونیورسٹی کی طرف سے انہیں ڈاکٹر آف لٹریچر کی تین اعزازی ڈِگریاں دی گئیں اور 1982 میں انہیں پنجابی ادب کی عمر بھر کی خدمات کے اعتراف پر اعلیٰ ترین گیان پتھ ایوارڈ بھی دیا گیا۔
وہ ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ پانے والی اور صدارتی ایوارڈ پدم شری حاصل کرنے والی پہلی پنجابی خاتون لکھاری ہیں۔ انہیں پنجابی زبان کی صدی کی شاعرہ کا ایوارڈ بھی دیا گیا۔ امریکہ میں مشی گن سٹیٹ یونیورسٹی کے ماہنامہ میگزین محفل نے امرتا پریتم پر اپنا ایک خصوصی نمبر بھی شائع کیا تھا۔ سنہ 1948 سے 1959 تک آل انڈیا ریڈیو میں بطور پنجابی اناؤنسر کام کیا۔ مئی 1966 سے 2001 تک پنجابی رسالے ناگ منی کی ادارت کی ذمہ داری سر انجام دیتی رہیں۔

ان کی تحریروں کا ترجمہ اردو، ہندی، تامل، مراٹھی، انگریزی زبانوں میں ہو چکا ہے

امرتا پریتم کا ساحر لدھیانوی کے ساتھ عشق کا معاملہ تھا جو انہوں نے من و عن تسلیم بھی کیا، جو ان کی کتاب ’رسیدی ٹکٹ‘ میں موجود ہے۔ امرتا ساحر کے عشق میں گرفتار، خوابوں خیالوں میں کھوئی اس کا انتظار کرتی رہیں لیکن ساحر نے امرتا کو سویکار نہ کیا اور وہ ساحر کے سحر میں عمر بھر ڈوبی رہیں۔ امرتا اور پریتم سنگھ کی شادی زیادہ عرصہ نہ چل سکی ان کے ہاں ایک بیٹا ہوا جس کا نام نوراج رکھا۔ علیحدگی کی وجہ شاید ساحر بنا تھا۔  امرتا پریتم نے بعد کی زندگی اپنے ایک دوست آرٹسٹ امروز کے ساتھ گزاری۔
امرتا پریتم کی تقریباً تمام تحریریں شاہ مکھی پنجابی اور اردو میں ترجمہ ہو کر شائع ہوچکی ہیں۔ وہ اس بات کی خواہش رکھتی تھیں کہ دونوں ممالک کے پنجابی ادب کو شاہ مکھی اور گور مکھی میں منتقل کیا جائے تاکہ دونوں ملکوں کی نئی نسل کو ادب کو جاننے کا موقع مل سکے ۔
ان کی تحریروں کا ترجمہ اردو، ہندی، تامل، مراٹھی، انگریزی کے علاوہ فرانسیسی جاپانی اور ڈینش اور مشرقی یورپ کی کئی زبانوں میں کیا گیا۔ پاکستانی پنجاب کے ادیبوں، شاعروں سے بھی امرتا پریتم کی گہری دوستی تھی۔

گوگل نے امرتا پریتم کے 100ویں یوم پیدائش کے موقع پر ڈوڈل بنایا ہے۔ فوٹو: گوگل

امرتا پریتم کی شاعری میں مشرقی عورت خاص کر پنجاب کی عورت، مردانہ سماج کے اندر ظلم و جبر، سفاکیت و بربریت کی چکی میں پستی  ہوئی نظرآتی ہے۔ ان کی سب سے زیادہ شہرہ آفاق نظم ’اج آکھا وارث شاہ نوں‘ ہے۔
امرتا پریتم کا 86 سال کی عمر میں 31 اکتوبر 2005 میں انتقال ہو گیا اور وہ پنجابی زبان کے ادب کا بہت بڑا خزانہ چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے امر ہو گئیں۔
پاکستان کے سب سے زیادہ  آبادی والے صوبہ پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں پیدا ہونے والی پنجابی زبان کی اس عظیم لکھاری نے بچپن کے 11 سال یہیں گزارے، جوانی لاہور شہر کے گلی کوچوں میں بسر کی نیز زندگی کا ایک تہائی حصہ پاکستانی پنجاب میں گزانے کے باوجود بھی انہیں انڈین شاعرہ، ناول نگار اور افسانہ نگار سمجھا جاتا ہے۔ اس شہر آفاق شخصیت کو آج اس کے سوویں جنم دن کے موقع پر بھی پاکستانی پنجاب سرکار کی طرف سے نظر انداز کر دینا اچھی بات نہیں ہے اور اسی رویے پر آج مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیے جانے چاہییں تاکہ یہ تاثر ختم ہو کہ امرتا پریتم صرف انڈیا کی ادیبہ نہیں تھیں وہ پنجاب کی لکھاری تھیں ۔
کیا وہ اس پنجاب کی سر زمین پر پیدا نہیں ہوئی تھیں؟ کیا انہوں نے اس خطے کی زبان پنجابی میں نہیں لکھا تھا؟  کیا انہوں نے پاکستان کے خلاف کچھ لکھا تھا؟  کیا انہوں نے بلھے شاہ، شاہ حسین، وارث شاہ اور پنجابی صوفی شعرا کے کام کو آگے نہیں بڑھایا؟ کیا ان کا یہ قصور تھا کہ وہ تقسیم کے وقت پاکستان سےانڈیا چلی گئیں اور باقی زندگی وہیں گزاری؟  یقیناً ان سوالات کے جوابات نہیں ملیں گے۔
 پنجاب دھرتی پر جنم لینے والی اس پنجابی زبان کی عظیم شاعرہ اور ادیبہ کو ہم پنجاب کے بٹوارے کے بعد کیوں تقسیم کر بیٹھے ہیں، خطے تقسیم ہو سکتے ہیں لوگ تقسیم ہو سکتے ہیں مگر پرندے، ہوا، بادل، روشنی، سوچ اور ادیب، شاعر کے لیے سرحدیں کھڑی نہیں کی جا سکتیں۔ ان کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، وہ پنچھیوں کی طرح سرحدوں میں بٹ نہیں سکتے۔
امرتا پریتم اسی زمین کی بیٹی ہے۔ پکی پنجابن ہے وہ انہیں گلی کوچوں میں آج بھی بھاگ رہی ہے، سائیکل چلا رہی ہے، اس کی آواز آج بھی انہیں فضاؤں میں گونج رہی ہے وہ آج بھی پنجاب کی مظلوم بیٹیوں کی آواز وارث شاہ تک پہنچا رہی ہے....
’اج آکھاں وارث شاہ نوں کتوں قبراں وچوں بول
تے اج کتابِ عشق دا کوئی اگلا ورقہ کھول
اک روئی سی دھی پنجاب دی توں لِکھ لِکھ مارےوَین
اَج لَکھاں دھیآں روندیاں، تینوں وارث شاہ نوں کَیہن
اٹھ دردمنداں دیا دردیا اٹھ  تک اپنا پنجاب
اج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دی بھری چناب‘ 

    

شیئر: