Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’اب آسامی باشندوں کے ساتھ کیا ہوگا؟‘

انڈین ریاست آسام میں حکومت کی جانب سے مقامی باشندوں کی شناخت کے لیے حتمی فہرست نیشنل رجسٹر آف سیٹزن (این آر سی) جاری کیے جانے اور 19 لاکھ آسامی باشندوں کی شہریت قبول نہ ہونے کے حوالے سے ناصرف انڈیا بلکہ پاکستان میں بھی سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث شروع ہو گئی ہے۔
یہ بحث شاید اس لیے بھی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے کیونکہ خبر رساں اداروں کی جانب سے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جن باشندوں کی شہریت قبول نہیں کی گئی ان میں ایک بڑی تعداد ان مسلمانوں کی ہے جنہوں نے 1971 میں بنگلہ دیش کے قیام کے وقت آسام کی طرف ہجرت کی تھی۔
پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین نے اس فہرست اور تارکین وطن کو حراستی کیمپوں میں منتقل کیے جانے کے حکومتی فیصلے کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے مسلم مخالف اقدام قرار دیا جا رہا ہے تاہم انڈیا میں اس حوالے سے ملا جلا رد عمل سامنے آیا ہے۔
کچھ انڈین صارفین فہرست جاری ہونے کے بعد نریندر مودی کی تعریف کر رہے ہیں تو کچھ اس فیصلے کو ’سیاسی سٹنٹ‘ قرار دے رہے ہیں۔
’چِرپی سیز‘ نامی ایک ٹویٹر ہینڈل نے انڈین حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ ’ایک ایسے ملک میں جہاں وزیر اپنی ڈگریاں ثابت نہیں کر سکتے وہاں آپ عام لوگوں کو اپنی شہریت ثابت کرنے کا کہتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’اگرچہ غیر قانونی تارکین موجود ہیں جن کو شہریت سے محروم کیا گیا ہے ان میں سے زیادہ تر اصل انڈیننز ہیں۔ زیادہ تر غریب اور مسلمان۔‘
صبا نقوی نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’ہم نے ابھی ابھی 19 لاکھ باشندوں کو شہری ماننے سے انکار کر دیا ہے، ایک منٹ کی خاموشی تو بنتی ہے۔‘
بینود ادیکاری نام کے صارف نے اپنا نام فہرست میں نہ آنے پر ایک سکرین شارٹ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’1951 کی نیشنل رجسٹر آف سیٹزن (این آر سی) میں میرے دادا کا نام درج تھا لیکن 2019 کی فہرست میں میرا نام درج نہیں اگرچہ میں 1958 کی دستاویزات لے کر خود حکام کے پاس گیا تھا۔‘
سری نیواسن جین نے ٹویٹ کی کہ ہم نے ایک بٹن دبا کر تقریباً 20 لاکھ لوگوں کو شہریت کے حقوق سے محروم کر دیا ہے۔ شاید دنیا میں پہلی بار لوگوں کی اتنی بڑی تعداد سے ایسا کیا گیا ہے۔
پریذ وردے نامی صارف نے آسام کا ہیش ٹیگ دیتے ہوئے لکھا کہ ’اب ان 20 لاکھ افراد کے ساتھ کیا ہوگا، جلائیں گے یا دفنائیں گے۔‘
ادھرِ پاکستان میں سوشل میڈیا کے عام صارفین کے ساتھ ساتھ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اور انسانی حقوق کی وزیر شریں مزاری نے بھی انڈین حکومت پر تنقید کے نشتر برسائے ہیں۔
عمران خان نے اپنی ٹویٹ میں لکھا ہے کہ ’انڈین اور عالمی میڈیا میں مودی سرکار کے ہاتھوں مسلمانوں کی نسل کشی کی اطلاعات سے دنیا بھر میں خطرے کی گھنٹیاں بجنی چاہئیں اور یہ کہ کشمیر پر غیر قانونی قبضہ انڈین مسلمانوں کے خلاف ایک بڑی حکمت عملی کا حصہ ہے۔‘

پاکستان کی وزیر انسانی حقوق شریں مزاری نے مودی کو ایک بار پھر ہٹلر سے تشبیہ دیتے ہوئے ٹویٹر پر لکھا کہ ’ہٹلر کی طرح مودی بھی حراستی کمیپ تعمیر کر رہے ہیں مگر دنیا خاموش ہے۔‘
سوشل میڈیا صارفین اور مختلف شخصیات کی تنقید اپنی جگہ مگر مودی سرکار کے اس فیصلے کو انڈیا میں بہت سارے صارفین کی طرف سے سراہا بھی جا رہا ہے۔
اویک کمار نامی صارف نے ٹویٹ کی کہ ’آسام کو ایسے 20 لاکھ ’دیمک افراد‘ کو نکالنے پر مبارک ہو جو آسام کے انڈیا کی سب سے عظیم ریاست بننے میں رکاوٹ تھے۔

ازومیہ نام کے ایک ٹویٹر ہینڈل نے لکھا کہ ’سب کچھ ٹھیک ہے، صرف چند لوگ پریشان ہیں۔ غلط افواہوں پر کان مت دھریں جن کا نام فہرست میں نہیں ان کے پاس اپیل کے مناسب مواقع ہیں۔‘

 

شیئر: