Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صلاح الدین قتل کیس میں کیا جواب صرف پوسٹ مارٹم رپورٹ؟

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع رحیم یار خان میں اے ٹی ایم کارڈ چرانے کے الزام میں گرفتار صلاح الدین کی پولیس حراست میں موت واقعی اتنا پیچیدہ معاملہ ہے کہ ابھی تک ابتدائی تفتیش بھی مکمل نہیں ہو پائی یا پھر سوشل میڈیا پر شدید عوامی ردعمل کی وجہ سے اس کیس کو اب حد درجہ احتیاط کے ساتھ ہینڈل کیا جا رہا ہے؟
اس بات کا جواب کچھ بھی ہو لیکن ایسے بنیادی سوال اپنی جگہ موجود ہیں جن کے محض جواب ہی اس واقعے کا ابتدائی منظر نامہ واضح کر سکتے ہیں۔ تاہم صورت حال یہ ہے کہ رحیم یار کی ضلعی اتنظامیہ کے قریباً تمام کرتا دھرتا اپنے سر سے بوجھ اتارنے کی فکر میں دکھائی دیتے ہیں۔ اور ہر کوئی اپنی طرف سے "تکنیکی" جواب دے کر بری الذمہ ہو رہا ہے۔
ان "تکنیکی" جوابات نے سوشل میڈیا پر کنفیوژن اور بڑھا دی ہے اور لوگ مطمئن دکھائی نہیں دیتے۔
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے صلاح الدین کیس میں ایکشن لیتے ہوئے ڈی پی او رحیم یار خان عمر سلامت کو عہدے سے ہٹا دیا جبکہ واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا بھی حکم جاری کر دیا۔ سینیئر سول جج شیخ فیاض حیسن کو واقعے کی جوڈیشل انکوائری کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔
اردو نیوز نے صلاح الدین کی موت کے واقعہ میں اب تک ہونے والی پیش رفت اور کنفیوژن پیدا کرنے والے تمام عناصر کا جائزہ اس رپورٹ میں لینے کی کوشش کی ہے۔ 

صلاح الدین کو اس کی زندگی میں پولیس سے سوال کا جواب نہ مل سکا۔ فوٹو: ویڈیو گریب

کیا موت پولیس حراست میں تشدد سے ہوئی؟ 
عوامی ردعمل تو یہ نتیجہ اخذ کر چکا ہے کہ صلاح الدین کی موت نہ صرف پولیس حراست میں ہوئی بلکہ پولیس تشدد سے ہوئی۔ اور اس نتیجہ اخذ کرنے کا سبب وہ ویڈیوز ہیں جو پولیس اہلکاروں نے ہی صلاح الدین سے بات چیت کرتے ہوئے بنائی تھیں اور جو اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ صلاح الدین موت سے قبل پولیس حراست میں ہی تھے۔
دوسری طرف شیخ زید میڈیکل کالج ہسپتال انتظامیہ نے تصدیق کی ہے کہ ہفتہ اکتیس اگست کو رات نو بج کر 48 منٹ پر ایک سٹریچر پر صلاح الدین کو لایا گیا جو کہ اس وقت مردہ حالت میں تھے۔
شیخ زید ہسپتال کے فوکل پرسن رانا الیاس احمد کے مطابق ایمرجنسی میں ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹرز نے ان کو مردہ قرار دیا جس کے بعد ان کی لاش مردہ خانے منتقل کر دی گئی۔ اس معاملے میں کنفیوژن اس وقت بڑھی جب ہسپتال نے ان کی موت کی وجہ بتانے سے معذوری کا اظہار کرتے ہوئے ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں وجہ موت کے خانے میں "غیر یقینی" لکھ دیا۔
ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر ربانی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا "ہم نہیں بتا سکتے کہ موت کی اصل وجہ کیا ہے۔ کیونکہ ابتدائی پوسٹ مارٹم میں صرف وہی بتایا جا سکتا ہے جو سامنے نظر آ رہا ہو۔ تشدد، یا زہر یا ایسی کسی بیرونی وجہ سے ہونے والی موت کا تعین صرف فرانزک لیب ہی کر سکتی ہے اسی لیے ہم نے وہ نمونے بھیج دیے ہیں جب رپورٹ آئے گی تو یہاں کی ابتدائی رپورٹ سے ملا کر کر حتمی رپورٹ جاری کریں گے اور موت کی اصل وجہ بتا سکیں گے"۔ 

شیخ زید ہسپتال کے ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ جب صلاح الدین کی لاش لائی گئی تو اس پر تشدد کے نشان نہیں تھے۔ فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے کہا کہ وہ صرف قانون کے مطابق اور احتیاط سے کام کر رہے ہیں لیکن لوگوں کو فوری نتائج چاہئیں جو کہ ممکن نہیں ہوتا۔ انہوں نے اس تاثر کی نفی کی ضلعی ہسپتال حقائق چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔ 

صلاح الدین کے جسم پر تشدد کے نشان

دوسری بڑی کنفیوژن وہ تصاویر ہیں جو اس وقت سوشل میڈیا پر بڑی تعداد میں گردش کر رہی ہیں جن کو صلاح الدین کے جسمانی اعضا بتایا جا رہا ہے ۔ صلاح الدین کے والد محمد افضال نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ وہ تصاویر درست ہیں اور ان کی لاش وصول کرنے کے بعد بنائی گئیں۔
ایم ایس شیخ زید ہسپتال سے جب اردو نیوز نے اس حوالے سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا "جب لاش لائی گئی تو بظاہر اس پر تشدد کے نشان نہیں تھے لیکن یہ ممکن ہے کہ اگر تشدد ہوا ہے تو اندرونی چوٹیں آئی ہوں اس لیے پوسٹ مارٹم میں جسم کے کچھ حصے کیمیائی تجزیے کے لیے بھیجے گئے ہیں اور پوسٹ مارٹم کے عمل میں بھی کچھ حد تک چیر پھاڑ کا عنصر ہوتا ہے اس لیے پوسٹ مارٹم کے عمل کی تصاویر کو تشدد سے جوڑا جا رہا ہے، آپ انتظار کریں رپورٹ مکمل ہونے دیں دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا"۔
مزید پڑھیں
 
ان کا کہنا تھا کہ تفصیلی رپورٹ میں موت سے پہلے اور بعد کے نشانات کی بھی نشاندہی ہوگی۔ ریجنل پولیس آفیسر بہاولپور عمران محمود بھی تشدد زدہ تصاویر کے منظر عام پر آنے سے متحرک ہوئے اور انہوں نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں اس بات کی تردید کی ہے کہ ان نشانات کا تعلق پولیس حراست میں تشدد سے ہے۔
انہوں نے کہا کہ جس وقت وجہ موت کا باقاعدہ تعین ہو گیا اسی وقت بڑا ایکشن بھی نظر آئے گا۔ 

پولیس کی اب تک کی کارروائی

صلاح الدین کے والد محمد افضال کی درخواست پر پولیس نے قتل کا ایک مقدمہ رحیم یار خان کے تھانہ اے ڈویژن کے ایس ایچ او محمود الحسن اور دو تفتیشی افسران سب انسپکٹر شفات علی اور اسسٹنٹ سب انسپکٹر مطلوب حسین کے خلاف درج کر کیا ہے۔ ان افسران کو ان کے عہدوں سے بھی ہٹا دیا گیا ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب کے ترجمان ڈاکٹر شہباز گل کے مطابق متعلقہ ڈی ایس پی کو بھی غفلت برتنے پر معطل کر دیا گیا ہے۔
رحیم یار خان پولیس کے ضلعی ترجمان ذیشان رندھاوا نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ لوگ پولیس پر بھروسہ رکھیں مکمل پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے کے بعد باقاعدہ طور پر کارروائی کا آغاز ہو گا۔ جبکہ ضلعی پولیس آفیسر نے معاملے کی جوڈیشل انکوائری کے لیے خط ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج رحیم یار خان کو لکھ دیا ہے تاکہ تحقیقات میں اعتماد کی فضا کو بحال رکھا جا سکے۔ 

پولیس اور تشدد کا رشتہ

پاکستان مین انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے جسٹس پیس پراجیکٹ نے دوران تشدد پولیس ہلاکتوں پر کافی تحقیقی کام کیا ہے۔ ان کی ایک تحقیقی رپورٹ جو صرف صوبہ پنجاب کے ایک شہر فیصل آباد میں پولیس تشدد سے متعلق ہے اس میں کل 18 سو ایسے واقعات سامنے آئے جن میں پولیس نے دوران حراست ملزمان کو تشدد کا نشانہ بنایا اور کسی ایک میں بھی پولیس اہلکاروں کو سزا نہیں ہوئی۔
جسٹس پیس پراجیکٹ کی سربراہ بیرسٹر سارہ بلال نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا "جس تک پولیس تشدد کو باقاعدہ قابل تعزیر جرم نہیں بنایا جاتا تب تک ایسے واقعات کی روک تھام مشکل ہے۔
سارہ بلال  کے مطابق ہم نے جتنے بھی واقعات کا تجزیہ کیا ہے ان میں پولیس والے سزاؤں سے بچ جاتے ہیں اور بڑی وجہ ہوتی ہے کہ مدعی صلح کر لیتے ہیں۔ اگر قانون سازی کر کے پولیس تشدد کو الگ سے جرم ڈیکلئیر کیا جائے اور اس پر فوری محکمانہ کارروائی ہو اور تشدد کے شکار افراد سے پولیس ملزمان کے خلاف پورا مقدمہ جھیلنے کا عذاب ہٹا دیا جائے تو یہ تیز ترین طریقہ ہوگا اسے واقعات کو روکنے کا۔" 

پولیس تشدد کیوں کرتی ہے؟

یہ سوال اتنا ہی سادہ ہے جتنی سادگی سے صلاح الدین نے اپنی موت سے قبل پولیس والوں سے پوچھا تھا کہ انہوں نے مارنا کہاں سے سیکھا ہے۔

پولیس تشدد کو روکنے کے لیے قانون سازی کر کے اس کو جرم قرار دینے کی ضرورت ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

صلاح الدین کی زندگی میں تو اس سوال کا جواب کوئی نہ دے سکا اردو نیوز نے اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی تو پنجاب کے سابق ڈی آئی جی انویسٹیگیشن چوہدری شفیق گجر نے بتایا کہ "پولیس نے تشدد پولیس سے ہی سیکھا ہے۔ اگر آپ اس کی جڑ تک جائیں گے تو وہ نوآبادیاتی نظام ہے جب پولیس کو رعایا کے خلاف استعمال کیا جاتا تھا طاقت کا موروثی نظام ہی تشدد کی بنیادی وجہ ہے۔"
انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ بظاہر قانون پولیس کو حراست کے دوران تشدد کی اجازت دیتا ہے اگر پولیس کسی ملزم کو حراست میں لیتی ہے تو قانونی طور پر وہ اسے ہاتھ بھی نہیں لگا سکتی۔
چوہدری شفیق گجر کے مطابق "اصل مسئلہ تفتیش کے نظام کو اپ گریڈ کرنا ہے۔ موجودہ نظام میں اگرچہ کافی اصلاحات کی گئیں لیکن ایسے واقعات نہیں تھم رہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے تفتیش کاروں کو سائنسی طریقوں سے تفتیش کرنے کے قابل ہی نہیں بنایا جا سکا۔ ان کے پاس سب سے آسان حل یہی رہ جاتا ہے کہ تشدد کر کے ملزم سے جرم منوا لیں"۔
ان کا کہنا تھا صلاح الدین والے معاملے میں موجودہ نظام کے تحت حتمی پوسٹ مارٹم رپورٹ ہی صورت حال کو واضح کرے گی۔ 

شیئر: