Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکہ طالبان امن مذاکرات: کب کیا ہوا؟

طالبان کی افغانسان میں حزب اختلاف سے ماسکو میں دو بار ملاقات ہوئی۔ فوٹو: اے ایف پی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ امریکہ طالبان کے مابین بات چیت جاری تھی اور یہ بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گئی۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کئی سالوں سے امریکہ کی جانب سے کوششیں جاری تھیں کہ طالبان کے ساتھ امن معاہدہ کیا جائے تاہم ہر بار یہ کوشش ناکام ہوتی رہی۔

9/11 سے قبل: ’کھوکھلے وعدے‘

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سرکاری دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ 1993 سے 2001 تک امریکہ کے صدر رہنے والے بل کلنٹن کی انتظامیہ 11 ستمبر 2001 کے حملے سے قبل کئی بار طالبان کے ساتھ رابطے کرتی رہی۔
امریکہ کو اس بات کا ڈر تھا کہ طالبان افغانستان کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ بننے کی اجازت دے رہے تھے، خاص طور پر القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کے لیے۔
تاہم کہا جا رہا تھا کہ ان روابط سے امریکہ کو طالبان کی جانب سے 9/11 تک کھوکھلے وعدوں کے علاوہ کچھ نہ ملا۔

افغان طالبان جنگجووں کو آئس کریم دیتے نظر آئے، لیکن اس کے بعد ہنگامے دوبارہ شروع ہو گئے۔ فوٹو: اے ایف پی

9/11 کے بعد

2001 میں امریکہ کے افغانستان میں جنگ شروع کرنے کے بعد طالبان نے اس بات پر رضامندی ظاہر کی کہ اگر امریکہ افغانستان میں انہیں کھلی چھوٹ دے دے تو وہ بھی ہتھیار ڈال دیں گے۔ تاہم امریکہ نے اس پیشکش کو رد کرتے ہوئے عزم کیا کہ وہ طالبان کی حکومت کو تباہ کر دیں گے۔
اس کے بعد طالبان کے جنگجو افغانستان سے پڑوسی ملک پاکستان میں داخل ہوگئے۔ انہوں نے امریکی جنگ کے جواب میں افغان سکیورٹی اہلکاروں کی بھی بڑی تعداد کو نشانہ بنایا۔
اس کے بعد 2004 اور پھر 2011 میں مذاکرات کی کوششیں کی گئیں لیکن وہ ناکام رہیں۔
2013 میں طالبان نے قطر میں ایک دفتر کھولا لیکن طالبان کے اس دفتر کی جانب سے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی پیشکش کو رد کر دیا گیا۔
بعدازاں 2015 میں، افغان حکومت نے پاکستان میں طالبان کے ساتھ پہلی مرتبہ آمنے سامنے بیٹھ کر مذاکرات کیے لیکن یہ بھی کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ اس وقت یہ خبر منظر عام پر آگئی کہ طالبان کے امیر ملا عمر کی دو سال قبل موت ہو چکی ہے۔   

جنگ بندی کی ناکام کوششیں

2015 میں امن مذاکرات شروع کرنے کی کوشش میں افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کو ایک سیاسی جماعت کے طور پر تسلیم کرنے کی بھی پیشکش کی لیکن طالبان کی طرف سے اسے نظر انداز کر دیا گیا۔
2018 میں افغان صدر نے ایک بار پھر یہ پیشکش کی اور عیدالفطر کے موقعے پر جنگ بندی کے اعلان کا کہا لیکن طالبان نے اس کا جواب نہیں دیا تاہم اپنی طرف سے عید کے تین دن کے لیے جنگ بندی کا اعلان کیا۔

طالبان نے افغانستان کے ساتھ مذاکرات سے اس لیے انکار کیا ہے کہ ان کا ماننا ہے اشرف غنی کی حکومت امریکہ کی کٹپتلی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

2001 کے بعد سے یہ پہلی بار تھا کہ افغانستان میں تین دن کے لیے امن قائم ہوا۔ اس وقت ایسے مناظر دیکھنے میں آئے جن میں افغان باشندے طالبان جنگجوؤں کو آئس کریم دیتے ہوئے نظر آئے لیکن اس کے بعد ہنگامے دوبارہ شروع ہو گئے۔
مئی 2019 میں افغان معززین کے اجتماع یا جرگے نے ملک میں ’فوری اور مستقل‘ جنگ بندی کا مطالبہ کیا جسے طالبان نے مکمل طور پر رد کر دیا۔

ڈیل کا راستہ

ستمبر 2018 میں امریکہ نے زلمے خلیل زاد کو نمائندہ خصوصی برائے افغان امن عمل مقرر کیا اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کی نئی کوششیں شروع کیں۔
دوحہ میں کئی بار مذاکرات ہونے کے بعد امید نظر آئی کہ امریکہ اور طالبان کا امن معاہدہ ہو جائے گا۔
مذاکرات میں طالبان کی جانب سے اس بات پر سب سے زیادہ زور دیا گیا کہ امریکہ دہشت گردی کے خاتمے کے وعدے کے بدلے افغانستان سے اپنی فوج واپس بلا لے۔
طالبان نے کہا کہ کسی بھی طرح کے امن معاہدے سے قبل غیر ملکی فوج کا ملک سے نکلنا ضروری ہے۔
تاہم زلمے خلیل زاد کہتے رہے کہ امریکہ فوج کی واپسی کا نہیں بلکہ 2020 کے انتخابات سے قبل امن کا معاہدہ کرنا چاہتا ہے۔

جلتی، بجھتی امید

طالبان نے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات سے اس لیے انکار کیا ہے کہ ان کا ماننا ہے اشرف غنی کی حکومت امریکہ کی کٹ پتلی ہے۔
تاہم گذشتہ سال سے اب تک جیسے جیسے مذاکرات آگے بڑھے، طالبان کی افغان حکومت کے نمائندوں سے روس کے شہر ماسکو میں دو بار ملاقات ہوئی۔
2018 کے جولائی میں طالبان جنگجوؤں کی افغان حکومت کے ان نمائندوں کے ساتھ دوحہ میں ملاقات ہوئی، جو ’ذاتی حیثیت‘ میں بات چیت کے لیے وہاں گئے تھے۔
اس کے بعد دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں افغان حکومت کو شامل نہیں کیا گیا جس پر حکومتی نمائندوں نے برہمی کا بھی اظہار کیا۔
واضح رہے کہ جولائی میں افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے ایک ٹیم بھی تشکیل دی تھی۔
سات ستمبر کو ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ ایک خفیہ ملاقات اور امن مذاکرات معطل کرنے کا اعلان کیا۔
انہوں نے مذاکرات معطل کرنے کی وجہ حال ہی میں ہونے والے کابل حملے کو قرار دیا جس میں ایک امریکہ فوجی سمیت 11 افراد ہلاک ہوئے تھے اور اس حملے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی تھی۔

شیئر: