Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’احتیاط کیجیے کہیں ایجنٹ نہ ہو‘

سورن سنگھ کے قتل میں بلدیو کمار کا نام آنے کے بعد تحریک انصاف نے ان سے قطع تعلق کر لیا تھا: فوٹو سوشل میڈیا
پاکستان تحریک انصاف کے خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے مقتول رکن صوبائی اسمبلی سردار سورن سنگھ کے قتل میں نامزد ملزم اور سابق رکن صوبائی اسمبلی بلدیو کمار نے انڈیا میں سیاسی پناہ کے لیے درخواست دے دی ہے۔
انڈین خبر رساں ادارے ایشیئن نیوز انٹرنیشنل (اے این آئی) کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بلدیو کمار نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان میں اقلیتیں تو دور کی بات مسلمان بھی محفوظ نہیں ہیں۔
انھوں نے انڈین حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں بالخصوص ہندوؤں اور سکھوں کے لیے پیکج کا اعلان کرے تاکہ وہ بھی یہاں (انڈیا) میں آ کر بسنا شروع کریں۔
بلدیو کمار نے کہا کہ وہ واپس پاکستان نہیں جانا چاہتے کیونکہ وہ وہاں پر ذہنی طور پر ٹارچر محسوس کرتے ہیں۔ ’ایم پی اے ہوتے ہوئے بھی میرے ساتھ زیادتی ہوئی اور باقی لوگوں کے ساتھ بھی ہوتی ہے لیکن کوئی بولتا نہیں۔‘
ٹوئٹر پر اے این آئی کی اس خبر سے متعلق ٹویٹ پر پاکستانی اور انڈین ٹوئٹر صارفین نے بھی اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
پاکستانی صارفین تو سمجھتے ہیں کہ بلدیو کمار نے اپنی ہی جماعت کے ایم پی اے سورن سنگھ کو اس لیے قتل کیا کہ وہ خود ایم پی اے بن سکیں اور اب جب انھیں یقین ہے کہ ان کو سزا ہو سکتی ہے تو بھاگ گئے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے سندھ سے ہندو رکن اسمبلی دیوان سچل نے ٹویٹ کی کہ سردار سورن سنگھ کا قاتل اقلیتوں کو ہراساں کرنے کا بہانہ بنا کر انڈیا بھاگ گیا ہے۔ پہلے اس نے میرے دوست کو قتل کیا اور اب کہتا ہے کہ پاکستان میں اس سے نفرت کی جاتی ہے۔ ہاں ہم قاتلوں سے نفرت کرتے ہیں۔
 
صحافی انس ملک نے ٹوئٹر پر لکھا کہ اگرچہ بلدیو کمار کو عدالت نے کم ثبوتوں کی بنیاد پر بری کر دیا تھا کہ لیکن پولیس کو ابھی بھی یقین ہے کہ بلدیو کمار ہی سورن سنگھ کے قتل میں ملوث ہیں۔
 
بشریٰ حبیب نامی صارف نے لکھا کہ اس (بلدیو کمار) نے سکھ رکن صوبائی اسمبلی کو قتل کیا، کوئی حیرت نہیں کہ یہ اب انڈیا ہی میں پناہ مانگے گا۔
 
دوسری جانب انڈین صارفین نے انھیں پاکستان کا ایجنٹ سمجھنا شروع کر دیا ہے۔
ہرمیندر سنگھ نے لکھا کہ بلدیو کمار جس کو پاکستانی لوگوں نے ووٹ دیے وہ انھی کے خلاف انڈیا سے سیاسی پناہ مانگ رہا ہے اور یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب کرتار پور راہداری کچھ ہی عرصے بعد کھلنے والی ہے، کیا ہم انڈیا کی گیم نہیں سمجھتے؟ انھوں نے کہا کہ ہاں پاکستان اور انڈیا دونوں میں اقلیتیں محفوظ نہیں۔
 
بلدیو کمار کی درخواست کو لے کر ایک صارف بشال چکر ورتی نے لکھا کہ احتیاط کیجیے گا کہیں ایسا نہ ہو کہ بلدیو کمار آئی ایس آئی کا انڈر کور ایجنٹ ہو۔
کچھ صارفین نے طنز کیا کہ بلدیو کمار نے خالصتان زندہ باد کے نعرے لگانے کے لیے سیاسی پناہ لینے کی درخواست دی ہے، اور انڈیا کو ان کے انڈر کور ایجنٹ ہونے سے متعلق تصدیق کرنی چاہیے بلکہ پاکستان سے آنے والے ہر ہندو اور سکھ سے متعلق تحقیقات کی ضرورت ہے کہ کہیں وہ ایجنٹ تو نہیں۔

یاد رہے کہ تحریک انصاف کے خیبر پختونخوا سے سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی سردار سورن سنگھ کو 22 اپریل 2016 کو قتل کر دیا گیا تھا اور پولیس نے ان کے قتل کے الزام میں ان کی پارٹی کے رہنما بلدیو کمار کو گرفتار کیا تھا۔
واضح رہے کہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے اقلیتی ارکان کی ترجیحی فہرست میں سورن سنگھ کے بعد بلدیو کمار کا نمبر تھا، اور سورن سنگھ کے قتل کے بعد قانون کے مطابق انہوں نے ہی ایم پی اے بننا تھا۔
تاہم سورن سنگھ کے قتل میں بلدیو کمار کا نام آنے کے بعد تحریک انصاف نے ان سے قطع تعلق کر لیا تھا۔
 بلدیو کمار نے سورن سنگھ کی جگہ پر اسمبلی مدت ختم ہونے سے 32 گھنٹے قبل حلف اٹھایا تھا اور رکن اسمبلی بنے تھے۔ان سے عدالتی حکم پر حلف لیا گیا تھا۔ اس سے قبل بلدیو کمار کو ہتھ کڑی لگا کر جیل سے اسمبلی لایا جاتا رہا لیکن ارکان کے احتجاج کے باعث وہ حلف نہیں اٹھا سکے تھے۔

شیئر: