Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مذاکرات کی معطلی، افغان انتخابات پھر سے توجہ کا مرکز

28 ستمبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں طالبان کی جانب سے شدید حملوں کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات معطل کرنے کے بعد افغان انتخابات ایک بار پھر توجہ کا منظر بن گئے ہیں۔
رواں ماہ 28 ستمبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں صدر اشرف غنی اپنے ہی چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے مد مقابل ہوں گے۔
امریکہ کا طالبان کے ساتھ امن معاہدہ طے پانے کی صورت میں انتخابات منعقد ہونے کے حوالے سے بے یقینی کی صورتحال تھی۔ افغانستان میں عموماً یہ خیال پایا جا رہا تھا کہ شاید انتخابات منسوخ ہو جائیں اور معاہدہ طے پانے کے نتیجے میں عبوری حکومت قائم کر دی جائے گی۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق انتخابات میں کھڑے ہونے والے درجنوں امیدوار، جن میں سابق قائدین جنگ بھی شامل ہیں، کو انتخابات وقت پر منعقد ہونے کا یقین نہیں تھا۔ بے یقینی کی صورتحال میں انتخابی مہم بھی باقاعدہ طور پر نہیں چلائی جا رہی تھی۔
لیکن صدر ٹرمپ کے 8 ستمبر کو ٹویٹ کے ذریعے کیے گئے اعلان نے حالات کا رخ تبدیل کر دیا ہے۔ ٹرمپ نے ٹویٹ میں نہ صرف امن مذاکرات کی منسوخی کا اعلان کیا تھا بلکہ ساتھ ہی یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے طالبان کو کیمپ ڈیوڈ میں ملاقات کے لیے دعوت دے رکھی تھی۔
جبکہ طالبان کے خیال میں امن مذاکرات کے علاوہ دوسرا رستہ جنگ ہے۔ ایسی صورت میں آئندہ انتخابات طالبان کا اولین نشانہ ہوں گے۔  طالبان نے ہمیشہ افغانستان میں ہونے والے انتخابات کی مخالفت کی ہے۔ طالبان کی کوشش ہو گی کہ انتخابات کے عمل کو متاثر کرنے لیے ووٹ ڈالنے والوں کی شرح کا تناسب کم سے کم ہو۔

آئندہ چوتھے صدارتی انتخابات میں صدر اشرف غنی اپنے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے مد مقابل ہوں گے۔ فوٹو: اے ایف پی

افغان تجزیہ کار ہارون میر نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا  کہ طالبان انتخابات متاثر کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے اور مزید تشدد متوقع ہے۔
کابل یونیورسٹی میں افغانستان سنٹر کے ڈائریکٹر وحید وفا نے ملک میں خوف اور بوکھلاہٹ کی فضا بیان کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں انتخابات کے لیے کوئی بھی تیار نہیں ہے، ’نہ افغانستان کی عوام، نہ الیکشن کمیشن، اور نہ ہی حکومت۔‘
2001 میں طالبان کی حکومت برطرف ہونے کے بعد سے ستمبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات چوتھے ہوں گے، جو پہلے دو دفعہ تعطل کا شکار ہو چکے ہیں۔
ڈاکٹر وحید وفا کا کہنا تھا کہ ملک میں پر تشدد حالات اور انتخابی عمل پر عدم اعتمادی کی وجہ سے ووٹ ڈالنے کی شرح بہت کم ہو گی۔
اس سے پہلے 2014 کے انتخابات بھی دھاندلی کا شکار ہوئے تھے جس میں دونوں امیدوار اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ نے انتخابات جیتنے کا دعوہ کیا تھا۔
گزشتہ سال اکتوبر میں افغان قومی اسمبلی کے انتخابات کے دوران طالبان نے حملے شروع کر دیے تھے اور لوگوں کو انتخابی عمل میں شریک ہونے سے منع کیا تھا۔
تجزیہ کاروں کے خیال میں طالبان انتخابی عمل کو متاثر کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔

شیئر: