Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یاسین ملک کے خلاف مقدمے کی سماعت

مقدمے کی دوبارہ سماعت شروع ہونے کے بعد یاسین ملک کی رہائی کے امکانات معدوم ہوتے نظر آرہے ہیں۔(فوٹو: اے ایف پی)
جموں کشمیر کی انسداد دہشتگردی کی عدالت (ٹاڈا) نے یاسین ملک کے خلاف 30 سال قبل انڈین فضائیہ کے اراکین کے قتل کے مقدمے کی دوبارہ سماعت شروع کردی ہے۔
انڈیا کی سرکاری خبررساں ایجنسی پی ٹی آئی میں شائع رپورٹ کے مطابق رواں سال مارچ میں جب جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کو انڈیا نے کالعدم قرار دیتے ہوئے تنظیم کے سربراہ یاسین ملک کو حراست میں لیا تو انڈیا کے سیکریٹری داخلہ راجیو گوبا نےکہا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف حکومت 'زیرو ٹالرینس' کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ جے کے ایل ایف پر انڈین فضایہ کے چار اہلکاروں کے قتل اور اس وقت کے انڈیا کے وزیر داخلہ مفتی محمد سعید کی بیٹی روبیہ سعید کے اغوا کے الزامات ہیں۔ اس کے علاوہ رپورٹ میں  1989 میں کشمیری پنڈتوں کے قتل کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔
فضائیہ کے چار اہلکاروں کے قتل کا مقدمہ 29 سال بعد پیش کیا جا رہا ہے،اس  کیس کی پیروی کرنے والے سرکاری وکیل پوتر سنگھ بھاردواج نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ 'یاسین ملک کے خلاف مقدمہ اب اپنے منطقی انجام کو پہنچے گا۔'
ان سے جب پوچھا گیا کہ اس مقدمے کی سماعت میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی تو انھوں نے کہا کہ 'ملزم اتنے عرصے تک کیس کو ملتوی کرانے کی حکمت عملی اپناتا رہا،اسے سیاسی پشت پناہی بھی حاصل تھی۔'

جے کے ایل ایف پر انڈین فضایہ کے چار اہلکاروں کے قتل کا الزام ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

واضح رہے کہ یاسین ملک جموں کشمیر میں برسر اقتدار پارٹی نیشنل کانفرنس کے خلاف ایک طلبہ لیڈر کے طور پر سامنے آئے تھے۔ انھوں نے 1987 کے انتخابات میں امیرا کدل سے مسلم یونائٹڈ فرنٹ کے امیدوار محمد یوسف شاہ کی حمایت کی۔
کشمیر کے علیحدگی پسند یہ کہتے ہیں کہ نہ یوسف شاہ کر ہرایا جاتا،نہ وہ پاکستان جا کر سید صلاح الدین بنتے اور نہ ہی ان کے حامی وہاں جا کر عسکری تربیت لیتے اور نہ ہی انڈیا میں مسلح جدوجہد کا دور شروع ہوتا۔ اس میں جے کے ایل ایف کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں۔

 

یاسین ملک نے جے کے ایل ایف میں شمولیت اختیار کی اور ان کا گروپ جسے چار رہنماؤں حامد شیخ، اشفاق وانی، جاوید احمد میر اور یاسین ملک کے نام کے پہلے حروف کو جوڑ کر 'حاجی' کہا گیا وہ شروع میں بہت مقبول رہا لیکن رفتہ رفتہ اس کا زور ختم ہوتا رہا یہاں تک کہ اس جماعت کے دو گروپ بن گئے۔
یاسین ملک کی کئی بار گرفتاریاں ہوئیں اور ہر بار ان میں کوئی نہ کوئی تبدیلی رونما ہوئی۔ جب سنہ 1994 میں جب انہیں حراست میں لیا گیا تو انھوں نے کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے تشدد کے بجائے امن کے راستے کی پیروی شروع کردی اور 'گاندھین' بن گئے اور بات چیت کے ذریعے جس میں انڈیا پاکستان کے ساتھ کشمیریوں کی بھی شمولیت ہو کی حمایت کرنے لگے۔

رواں سال مارچ میں انڈیا نے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کو کالعدم قرار دیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سنہ 1999 اور پھر سنہ 2002 میں انھیں گرفتار کیا گیا جس دوران تقریبا ایک سال تک وہ جیل میں رہے۔ اس کے بعد انھوں نے دنیا بھر کے رہنماؤں سے ملاقات کرنے اور کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے بات چیت کا سلسلہ شروع کیا جبکہ ان کی پارٹی نے 2007 میں 'سفر آزادی' کے نام سے لوگوں سے ملنے کا ایک سلسلہ شروع کیا جس میں انڈیا کی حکومت کے مطابق انھوں نے لوگوں میں حکومت کے خلاف تاثرات پیدا کیے۔
یاسین ملک نے 2013 میں پاکستان کی کالعدم تنظیم 'لشکر طیبہ' کے سربراہ حافظ محمد سعید کے ساتھ سٹیج شیئر کیا جس پر انھیں انڈیا میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ حافظ سعید کو انڈیا ممبئی بم دھماکوں کا 'ماسٹر مائنڈ' کہتا ہے۔
یاسین ملک کے خلاف مقدمے کی دوبارہ سماعت شروع ہونے کے بعد ان کی رہائی کے امکانات معدوم ہوتے نظر آرہے ہیں۔

یاسین ملک کون ہیں؟


یاسین ملک کے خلاف مقدمے کی دوبارہ سماعت شروع ہونے کے بعد ان کی رہائی کے امکانات معدوم ہوتے نظر آرہے ہیں: فوٹو اے ایف پی

یاسین ملک انڈیا کے ریرانتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے علیحدگی پسند رہنما ہیں وہ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین ہیں۔ وہ تین اپریل 1963 کو کشمیر میں پیدا ہوئے۔ اوائل نوجوانی سے ہی وہ کشمیر کو الگ اور آزاد حیثیت دینے کے لیے سرگرم ہیں۔
انہوں نے مسلح جدوجہد بھی کی اور بعدازاں سیاسی جدوجہد شروع کی جس کی وجہ سے وہ شروع سے ہی گرفتاریوں کا سامنا کرتے آ رہے ہیں۔
2009 میں انہوں نے پاکستانی آرٹسٹ مشال ملک سے شادی کی جن سے ان کی ملاقات چند سال قبل مشرف دور میں اس وقت ہوئی تھی جب دونوں ملکوں کے تعلقات میں کافی خوشگواری پیدا ہو گئی تھی اور دونوں اطراف سے وفود ایک دوسرے کے ملک کے دورے کر رہے تھے، ان ہی دنوں یاسین ملک پاکستان آئے تھے اور ایک تقریب میں مشال ملک سے ملاقت ہوئی۔
ان کی ایک بیٹی رضیہ سلطانہ بھی ہے۔
آخری بار یاسین ملک  کو 22 فروری 2019 کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا اور سات مارچ کو انہیں جموں کوٹ بلوال جیل منتقل کیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد ان کو تہاڑ جیل منتقل  کیا گیا۔
جہاں سے ان کی صحت بگڑنے کی خبریں سامنے آتی رہی ہیں۔ پانچ اگست کو جب انڈین حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی گئی تو اس وقت بھی یاسین ملک جیل میں تھے۔

 

 

شیئر: