Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قضیہ فلسطین: ’مضبوط کیس کا وکیل کمزور‘

’اسرائیلی کاز ایک غیر منصفانہ کیس ہے مگر اس کا وکیل کامیاب ہے‘ ( فوٹو: العربیہ)
امریکہ  میں سعودی عرب کے سابق سفیر اور انٹیلی جنس کے سابق سربراہ شہزادہ بندر بن سلطان نے کہا ہے کہ ’فلسطینی خود دھڑوں میں منقسم ہیں۔ غربِ اردن میں فلسطینی اتھارٹی غزہ کی خود ساختہ حکمراں جماعت حماس کو غدار قرار دیتی ہے۔ اس صورت حال میں کوئی دوسرا ان کے کیس کی کیا وکالت کر سکتا ہے؟‘
العربیہ ٹی وی چینل کو خصوصی انٹرویو میں دیتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ ’فلسطینی قیادت تاریخی طور پر ناکام رہی ہے۔ اس کی ناکامیوں کا یہ سفر ہنوز جاری ہے‘۔
’میں نے حالیہ دنوں میں فلسطینی قیادت سے جو کچھ سنا ہے، وہ فی الواقع بہت ہی تکلیف دہ اور افسوس ناک ہے‘۔
’ان کا خلیجی ریاستوں کی قیادت کے بارے میں معاندانہ رویہ نا قابل قبول ہے‘۔
’صدر محمود عباس سمیت فلسطینی لیڈروں نے متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے ساتھ گزشتہ ماہ طے ہونے والے امن معاہدے کو فلسطینی عوام کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف قراردیا تھا‘۔
انہوں نے کہا ہے کہ ’غزہ کی پٹی کے لیڈر غربِ اردن کی قیادت پر غداری کے الزامات عائد کرتے ہیں جبکہ دوسری جانب غربِ اردن کی قیادت غزہ کی قیادت پر کمر میں چھرا گھونپنے اور الگ سے اپنی عمل داری قائم کرنے کا الزام عائد کرتی ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’فلسطینی کاز ایک جائز اور مضبوط کیس ہے لیکن اس کا وکیل نا کام اور کمزور ہے جبکہ اسرائیلی کاز ایک غیرمنصفانہ کیس ہے مگر اس کا وکیل کامیاب ہے‘۔
’ہم نے یاسر عرفات کو بغداد میں دیکھا، وہ صدام حسین کے ساتھ چہک رہے تھے اور انہیں کویت پر قبضے کی مبارک باد دے رہے تھے۔ ان کے اس رویہ سے خلیجی ممالک کے شہریوں اور بالخصوص کویتی بھائیوں کو بہت تکلیف ہوئی‘۔

’فلسطینی قیادت تاریخی طور پر ناکام رہی ہے، اس کی ناکامیوں کا یہ سفر ہنوز جاری ہے‘ ( فوٹو: العربیہ)

’اس کے باوجود سعودی عرب نے فلسطینی قیادت کے خلاف کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا تھا، فلسطینیوں کی صدام حسین کی تصاویر کے ساتھ خوشی منانے کی تصاویر سامنے آئیں اس وقت بھی سعودی عرب نے خاموشی اختیار کی حالانکہ وہ خلیج جنگ کے دوران ریاض پر عراقی راکٹ گرنے پر خوشیاں منا رہے تھے‘۔
شہزادہ بندر نے واشنگٹن میں اپنی تعیناتی کے دوران بعض خفیہ رازوں، دو طرفہ سفارتی تعلقات کے گوشوں اور یاسرعرفات کے کردار اور ان کے عرب لیڈروں سے تعلقات کے بارے میں تفصیل سے گفتگو کی ہے۔
ان کا یہ انٹرویو تین حصوں میں العربیہ سے نشر کیا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ شہزادہ بندر بن سلطان 2012 سے 2014 تک سعودی انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ رہے۔
 سعودی عرب کی قومی سلامتی کونسل کے سربراہ  بھی رہ چکے ہیں جبکہ اس سے پہلے اکیس سال تک (1983ء سے 2005ء) واشنگٹن میں سعودی عرب کے سفیر رہے۔
باخبر رہیں، اردو نیوز کو ٹوئٹر پر فالو کریں

شیئر: