Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا ’غلط ‘ کو ’غلت‘ لکھنا چاہیے؟

کراچی میں چھوٹی بڑی کشتیوں پر کام کرنے والے مزدور آج بھی ’خلاصی‘ کہلاتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
خود غلط وہ، قول و فعل اُن کا غلط
خط غلط، انشا غلط، املا غلط
شاعر مراد آباد (ہند) کے تھے اس لیے’غلط‘ کو’غلط‘ کہہ گئے، ایران سے ہوتے تو’غلط‘ لکھ کر’قلط‘ پڑھتے۔ واقعہ یہ ہے کہ اہل ایران اکثر مواقع پر حرف ’ق‘ اور ’غ‘ کو باہم بدل دیتے ہیں۔ خوش اسلوب ادیب محمد حسین آزاد کے مطابق ایک ایرانی صاحبِ زبان سے کسی ہندی نے کہا ’آغا! اکثر اہل ایران را دیدم بجائے ’غ‘، ’ق‘ میگویند۔‘ یعنی اکثراہل ایران کو دیکھا ہے کہ حرف ’غ‘ کا تلفظ ’ق‘ کرتے ہیں۔
ایرانی چمک کر بولا: ’کسے ’قلط‘ گفتہ باشد‘، یعنی کسی نے قلط (غلط) کہا ہے۔ 
’غلط‘ کو ’قلط‘ پڑھنا تو ایک رہی، علامہ اقبال نے بچپن میں ’غلط‘ کو ’غلت‘ لکھا اور استاد کے توجہ دلانے پر جواب دیا کہ ’غلط ‘ کو ’غلت‘ ہی لکھنا چاہیے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اردو میں ’غلت‘ کتنا ہی ’غلط‘ کیوں نہ ہو عربی میں یہ ’غلت‘ بھی درست ہے۔ وہ یوں کہ عربی زبان میں ’غلط‘ اور’غلت‘، دونوں لفظوں کے معنی خطا کرنے کے ہیں۔ فرق بس اتنا ہے کہ ’غلط‘ کا تعلق زبان و بیان سے اور ’غلت‘ کا حساب کتاب سے ہے۔
غلط وغلت‘ کےعلاوہ بھی عربی زبان میں ایسے بہت سے الفاظ ہیں جو باہم صوتی مشابہت اور معنوی مماثلت رکھتے ہیں۔ مثلاً لفظ ’قتل‘ کے معنی ’ہلاک کرنا‘ اور ’قطل‘ کے معنی ’ٹکڑے کرنا‘ ہیں۔ پھر اس ’قتل‘ اور ’قطل‘ کے ساتھ ’قطع‘(کاٹنا) کو بھی شامل کرلیں تو تینوں ہم قبیلہ بن جاتے ہیں۔ 
اردو میں رائج عربی الفاظ ’ لمس، مَس اور مسح‘ پر غورکریں تو آسانی سے ان کے مشترکہ مفہوم ’چُھونا‘ تک پہنچ جائیں گے۔ ایسے ہی لفظ ’حارث‘ اور’حارس‘ بھی ہے جس میں پہلے کے معنی ’کسان‘ اور دوسرے کے ’نگہبان‘ ہیں۔
’حارث‘ اگر فصلوں کی دیکھ ریکھ کر رہا ہے تو ’حارس‘ گھر اور بازار کی چوکیداری پر مامور ہے۔ 
اب واپس’غلط‘ پر آتے اور’غلط العام‘ و ’غلط العوام‘ کے فرق پر بات کرتے ہیں، مگر اس سے پہلے ’نواب محمد یوسف علی خاں بہادر‘ کا خوب صورت شعر ملاحظہ کریں:
میں نے کہا کہ دعوئ الفت مگر غلط
کہنے لگے کہ ہاں غلط اور کس قدر غلط
ایسا لفظ یا اُس کا تلفظ جو نادرست ہونے کے باجود عوام و خواص میں یکساں پذیرائی حاصل کر جائے اصطلاح میں ’غلط العام‘ یا ’فصیح‘ کہلاتا ہے۔ مثلاً اردو زبان کا جانا پہچانا لفظ ’قلفی‘ اپنی اصل میں ’قفلی‘ ہے اور اس ’قفلی‘ کا تعلق عربی لفظ  قفل (تالا) سے ہے۔ چوں کہ ’قفل‘ میں’بند کرنے‘ کا مفہوم پایا جاتا ہے، یوں اردو میں ’قفل‘ سے لفظ ’قفلی‘ بنا اور درج ذیل معنی میں برتا گیا:
1۔ سانچا جس میں برف سے دودھ وغیرہ جماتے ہیں۔ 2۔ پیچدار برتن جو ایک دوسرے میں پھنس جاتا ہے۔ 3۔ سالن وغیرہ بند كركے ركھنے كا ڈھكنے دار برتن۔ 4۔ پہلوانوں كا ایک پیچ۔

لفظ ’قلفی‘ اپنی اصل میں ’قفلی‘ ہے اور اس ’قفلی‘ کا تعلق عربی لفظ  قفل (تالا) سے ہے (فوٹو: اے ایف پی)

اب محاورے ملاحظہ فرمائیں:
1۔ قُفلی پڑجانا (پتنگ لڑانے میں دو پتنگوں كی ڈور میں ایسے پیچ پڑ جانا جن كا چھوٹنا مشكل ہو)۔ 
2۔ قُفلی جَمنا ( سخت سردی سے منجمد ہوجانا)۔
3۔ قُفلی ڈالنا ( كشتی وغیرہ میں قفلی كا داؤ پیچ استعمال كرنا)۔
4۔ قُفلی كَرنا (درندوں كا دانتوں كو بند كرنا اس طرح كہ پھر نہ كھولیں)۔
5۔ قُفلی لگ جانا (دو چیزوں میں ایسا پیچ پڑجانا كہ پھر چھوٹنا مشكل ہو)۔
ان واضح معنوں اور محاوروں کے باوجود لفظ ’قفلی‘ بدل کا ’قلفی‘ ہوا اور خواص و عوام سے سند قبولیت پا کر’غلط العام‘ میں داخل ہوگیا۔ دیکھیں معروف شاعر سرفراز شاہد کیا کہہ رہے ہیں:
لبوں میں آ کے قلفی ہو گئے اشعار سردی میں
غزل کہنا بھی اب تو ہو گیا دشوار سردی میں
غلط العام‘ کے بعد اب ’غلط العوام‘ کی بات کرتے ہیں۔ ایسا لفظ یا اُس کا تلفظ جسے عوام النّاس اُس کی اصل یا اسناد کے برخلاف استعمال کریں’غلط العوام‘ کہلاتا ہے۔ جیسے ’پتّھر‘ کو ’پھتّر‘ اور ’چیں بہ جبیں کو ’چیں بہ چیں‘ کہنا۔ یا ’وتیرہ‘ کو ’وطیرہ‘ اور ’تابع‘ کو ’تابعدار‘ لکھنا۔
آپ پوچھ سکتے ہیں کہ ’تابعدار‘ میں کیا مسئلہ ہے۔ تو عرض ہے کہ ’تابع‘ کے معنی ’اتباع کرنے والا‘ ہیں، ایسے میں ’دار‘ لگانے کی ضرورت نہیں رہتی ۔ پھر بھی اگر جملے میں ’دار‘ کا ذکر ضروری ہو تو’تابعدار‘ کی جگہ ’فرماں بردار‘ استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اس ’سنگین‘ کفتگو کے بعد اب صحافی شاعر ’فاضل جمیلی‘ کا رنگین و نمکین شعر ملاحظہ کریں:
شوقین مزاجوں کے رنگین طبیعت کے
وہ لوگ بلا لاؤ نمکین طبیعت کے

کشتیوں اور بحری جہازوں پر ملاح کے علاوہ مزدور بھی ہوتے ہیں جو ’خلاصی‘ کہلاتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

عام فہم بات ہے کہ ’نمکین‘ کا تعلق ’نمک‘ سے ہے، نمک کو عربی میں ’مِلح‘ کہتے ہیں، یوں نمک کے حصول کے لیے سمندر کا رخ کرنے والا ’ملاح‘ کہلایا۔ چوں کہ کشتی بان اور جہاز ران بھی سمندر سے متعلق ہوتے ہیں یوں ’ملاح‘ کے معنی میں کشتی بان اور ناخدا بھی شامل ہوگئے۔
اس کشتیوں اور بحری جہازوں پر ملاح کے علاوہ مزدور بھی ہوتے ہیں جو ’خلاصی‘ کہلاتے ہیں۔ معروف محقق ڈاکٹر حمید اللہ  کے مطابق ’خلاصی‘ کی اصطلاح حبشی ماؤں کے عرب بچوں کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔ چوں کہ کشتیوں اور بحری جہازوں میں کام کرنے والے عام طور پر یہی مخلوط النسل ہوتے تھے یوں ’خلاصی‘ سمندری مزدور کا مترادف ہوگیا۔ بعد میں ’خلاصی‘ کے معنی میں وسعت پیدا ہوئی اور اس لفظ کا اطلاق مزدوروں کی دیگر صورتوں پر ہونے لگا۔ یوں توپ خانہ، ریل یا جہاز پر کام کرنے والے مزدور بھی ’خلاصی‘ کی تعریف میں داخل ہوگئے۔
 یہ حیرانی کی بات نہیں کہ عربوں کے زیر اثر کراچی میں چھوٹی بڑی کشتیوں پر کام کرنے والے مزدور آج بھی ’خلاصی‘ کہلاتے ہیں۔ 
اب واپس ’مِلح‘ پر آتے ہیں جس سے لفظ ’ملیح‘ اور ’ملیحہ‘ بنے ہیں۔ ان دونوں لفظوں کے معنی حسین و دلکش کے ہیں۔ پھر لفظ ’ملاحت‘ بھی ہے جو سانولے پن کی خوب صورتی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ وجہ یہ کہ گورے چٹے محبوب کے برخلاف سنوالا سنولا رنگ زیادہ جاذب ہوتا ہے اور اس رنگت کو ’ملاحت‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یقین نہ آئے تو ’امداد علی بحر‘ کا شعر ملاحظہ کریں:
بیانِ ملاحت کیا چاہتا ہوں
سخن میں نمک کا مزا چاہتا ہوں

شیئر: