Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خودکار طریقے سے چلنے والی کشتی سفر کے لیے تیار

سمندر کے اندر کی 80 فیصد دنیا ایسی ہے جس کا اب تک کسی کو پتہ نہیں چل سکا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
خودکار طریقے سے چلنے والی ’مے فلاور 400‘ جلد سمندر میں اپنا سفر شروع کرے گی۔
خبر رساں ادارے ایف پی کے مطابق اس کشتی پر سولر پینلز لگے ہوں گے، اس کا وزن  50 فٹ اور 9 ٹن ہے  اور یہ اپنے سفر کے دوران سمندر میں آلودگی، پانی میں پلاسٹک اور سمندری جانوروں کا جائزہ لے گی۔
واضح رہے کہ سمندر کے اندر کی 80 فیصد دنیا ایسی ہے جس کا اب تک کسی کو پتہ نہیں چل سکا ہے۔
امریکی کمپنی آئی بی ایم میں کام کرنے والی ایک ماہر روزی لیکرش نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’لوگوں کے بغیر چلنے والی کشتی کی مدد سے سائنسدانوں کو جائزہ لینے کے لیے مزید جگہوں کا پتہ چل سکے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انساںوں سے خالی کشتی کسی بھی ماحول میں داخل ہو سکتی ہے۔
مے فلاور پراجیکٹ کے ماسٹر مائنڈ بریٹ فانوف کا کہنا تھا کہ اس کشتی کے پراجیکٹ میں کئی افراد شامل ہیں جن کا تعلق انڈیا، سوئٹزرلینڈ اور امریکہ سمیت دیگر ممالک سے ہے۔
انہوں نے بتایا کہ عالمی کوششوں کے بغیر اس پراجیکٹ کی لاگت پرو میئر کے لگائے 10 لاکھ ڈالر سے 10 گنا زیادہ ہوتی۔

سولر پینلز لگا ہوا 50 فٹ اور نو ٹن کا یہ جہاز مکمل طور پر خودکار ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

اس کشتی کی مدد سے حاصل کی جانے والی معلومات کو مفت میں پیش کیا جائے گا۔ ان معلومات کا استعمال خاص طور پر کمرشل شپنگ کے مستقبل کے لیے کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔
موسم کی صورتحال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اور برطانوی حکام سے اجازت ملنے کے بعد یہ خودمختار کشتی 15 مئی کو اپنا سفر شروع کرے گی۔ یہ سفر تین ہفتوں کا ہوگا۔
بریٹ فینوف کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی وبا کے باعث مے فلاور 400 کا سفر تاخیر کا شکار بنا ہے لیکن کم از کم اس پر کوئی بیمار نہیں پڑے گا۔
’اس پر کوئی بور نہیں ہوگا، نہ ہی تھکے گا یا بیمار ہوگا۔ تو یہ سائنس (پر کام کرنے) میں جتنا چاہے وقت لگا سکتا ہے۔‘

شیئر: