Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شوہر نے کہا ”اسکول گرل“ جیسی حرکتیں تمہیں نہیں زیبا“

 
 وہ شکستہ قدموں سے واش بیسن کی طرف گئی ،تمام میک اپ دھو ڈالا
عنبرین فیض احمد۔ کراچی
رمشا کو بچپن سے ہی سجنے سنورنے کا بڑا شوق تھا۔ وہ جب بھی کسی ہم صنف کو سجے سنورے دیکھتی تو اس کا دل مچلنے لگتا کہ کاش میں بھی ان کی طرح میک اپ کر سکتی۔ وہ چوری چھپے اپنی امی جان کی لپ اسٹک لگا کر گھنٹوں مختلف زاویوںسے اپنے چہرے کو آئینے میں دیکھتی رہتی کیونکہ اس کی امی جان اس معاملے میں بڑی سخت تھیں۔اگر کبھی وہ اپنی بیٹی کو ایسی خودفریفتگی کی حرکتیں کرتے دیکھ لیتیں تو بری طرح اس کی شامت آ جاتی۔ اس کے ایسے لتے لیتیں کہ رمشا بے چاری کو آنسوں کے راستے بہتی خواہش کے نشانات ٹشو سے رگڑ رگڑ کر مٹانے پڑتے۔ ا ن کا کہنا تھا کہ شادی سے پہلے لڑکیوں کویوں بننا سنورنا زیب نہیں دیتا ۔ اس کے علاوہ لڑکیوں پر روپ تو شادی کے بعد ہی آتا ہے۔ شادی کے بعد وہ شوہر کی مرضی کے مطابق جیسا چاہیںفیشن کریں، انہیں کوئی منع نہیں کرتا ۔ ویسے بھی سنگھار شوہر کے لئے ہی ہوتا ہے پھر شادی سے پہلے لڑکی کا سجنا سنورنا کس کے لئے؟
رمشا کے گھر میں اس کی امی کا ہی حکم چلتا تھا۔کوئی بھی کام ان کی مرضی کے خلاف نہیں ہو سکتا تھا۔ اس کے والد بھی بہت نرم طبع انسان تھے۔ اپنی بیگم کے سامنے ان کی ایک نہیں چلتی تھی۔ عورت ہونے کے باوجودرمشا کی امی کا مزاج حاکمانہ تھا اوراس کے ا بوبالکل برعکس تھے۔ اس لئے گھر کے تمام فیصلے اس کی امی ہی کیا کرتی تھیں حالانکہ رمشا ان کی اکلوتی اولاد تھی ۔اسکی امی کی خواہش تھی کہ اس کی اچھی تعلیم و تربیت ہو ۔اکلوتی ہونے کی وجہ سے والدین کی کڑی نگاہ بھی اس پر ہر لمحہ رہتی تھی کہ وہ کیا کر رہی ہے ، کہاں جار ہی ہے، یہاں تک کہ اسکول ، ٹیوشن ، ملبوسات اور بالوں کے اسٹائل تک وہ اپنی امی کی مرضی سے بناتی تھی۔
رمشا جب چھوٹی تھی تو اسے بڑا شوق تھا کہ وہ اسٹائلش کپڑے پہنے، اسے آستینوں سے بے نیاز، پھولے پھولے جدید انداز کے فراک، گھاگھرا اور چولی وغیرہ بہت پسند تھے مگر اس کی امی نے ایسے پہناوے پہننا تو دور کی بات ،کبھی ان کی جانب غور سے دیکھنے بھی نہیں دیا ۔وہ ذرا بڑی ہوئی تو اس کے دل میں اپنے لمبے اور گھنے بالو ں کو کٹوانے کی خواہش جاگی مگر اس کی امی نے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ جس دن اس نے اپنے بال کٹوائے ، اس دن اسے ماں کی لاش پر سے گزرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ جتنی خواہشیں تمہارے دل میں ہیں، وہ سب کی سب شادی کے بعد میاں کے ہاں جا کر پوری کر لینا، جتنا خوش ہونا چاہو، ہو لینا۔پھراپنے شوہر کے لئے خواہ بلا آستین والی قمیص پہننا یا گھاگرا چولی، میری بلا سے۔یوں وہ ہر وقت کوئی نہ کوئی حکم صادر کرتی رہتیں اور کہتی تھیں کہ بھلا بیٹی کی تربیت کرنا کوئی آسان کام ہے۔ لوگ دس باتیں بنانے کے لئے ہر دم تیار بیٹھے رہتے ہیں۔ ہر ہر قدم پھونک کر اٹھانا پڑتا ہے۔ ذرا سی اونچ نیچ ہو جائے تو لوگ کسی کو چھوڑتے ہیں۔ ویسے بھی لڑکیاں تو کھلتی کلیاںہوتی ہیں، انہیں بھلا سجنے سنورنے اور سنگھار کرنے کی کیا ضرورت ؟ خواہ مخواہ ہی سب کی نگاہیں ان کی جانب اٹھتی ہیں۔
رمشا اپنی والدہ کی ساری باتیں سنتی رہتی۔ وہ اپنی ماںکے ایسے نادر خیالات سنتے سنتے ہی بڑی ہوئی تھی۔اگر کوئی ہستی اس کی امی کے سامنے زبان کھول دیتی تو سمجھ لیجئے کہ گھر میں طوفان بپا ہوجاتا تھا البتہ وہ حکم جاری کرتیں اور گھر کے تمام افراد اسے بجا لاتے تو ماحول سکون آشنا رہتا۔
وقت یونہی پر لگا کر اڑتا رہا ،دیکھتے ہی دیکھتے رمشا اسکول سے کالج پہنچ گئی۔اب امی کو اس کی شادی کی فکر ستانے لگی۔ ہر آئے گئے سے کہلواتیں کہ رمشا کے لئے کوئی مناسب سا رشتہ دیکھیں۔اسی سوچ میں ان کی راتوں کی نیندیں اڑنے لگیں۔ اتفاق سے ایک دن اس کی امی کی کزن ملنے کے لئے آئیں تو انہوں نے ان سے بھی یہی تذکرہ کر ڈالا۔ یہ سننا تھا کہ انہوں نے اپنے پرس سے اپنے بیٹے کی تصویر نکال کر دکھا دی۔ بس پھر کیا تھا، اس کی امی کی تو باچھیں کھل گئیں ۔ انہیں لڑکا بہت پسند آیا کیونکہ گھرمیں صرف اس کی امی کا ہی حکم چلتا تھا ۔اس لئے کسی میں اعتراض کرنے کی ہمت ہی نہیں تھی۔ پھر یوں ہوا کہ چند دنو ںکے بعد شادی کی تاریخ طے ہو گئی۔ 
رمشا کو اس سے کوئی سروکار نہیں تھا کہ گھر میں کیا ہو رہا ہے، کیوں ہو رہا ہے ۔ اس کوکسی بات سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، اسے خوشی تھی تو صرف اس بات کی کہ وہ شادی کے بعد اپنی مرضی سے سارے کام کر سکے گی چنانچہ وہ منتظر تھی کہ جلد از جلد شادی ہو جائے اوروہ میاں جی کے گھر رخصت ہو کر چلی جائے۔ اسے اپنی وہ تمام آرزوئیںاور خواہشات یاد آنے لگیں جن کی وہ تمنا رکھتی تھی۔ جن کے بارے میں اس کی امی ہمیشہ کہتی تھیں کہ یہ سب کام شادی کے بعد کرنا۔ وہ اپنے تصور میں سوچتی کہ میں ایسے کپڑے پہنوں گی اور ایسے اسٹائل کے بال بناوں گی۔ وہ رات دن انہی سوچوں میں گم رہتی ۔ اس نے شادی کے دن بھی انگلیوں پر گننا شروع کر دیئے پھر بالآخر وہ دن بھی آگیا جب وہ کسی کی ہو کر اسی کے گھرمنتقل ہو گئی۔ گھر کے سب لوگوںنے اس کے شوہر کو بہت پسند کیا۔ ہر کسی نے اس کی امی کی پسند کو سراہا۔ سب لوگ رمشا کی قسمت پر رشک کر رہے تھے مگر رمشا کو شدید صدمہ ہوا کیونکہ اس کا شوہر بھی اس کی امی کی طرح رعب دار شخصیت کا مالک تھا۔ اس نے سوچا کہ کیا یہ ہوتی ہے شادی کہ ایک انسان کے دبدبے سے نکل کر دوسرے کے رعب میں گرفتار ہو جاﺅ۔
اس نے حیرت سے آئینے میںاپنے چہرے پر ایک نگاہ ڈالی اور اس بیگ کو حسرت سے دیکھا جو وہ اپنے گھر سے رخصت ہوتے وقت ساتھ لے کر آئی تھی۔ اس میں وہ تمام چیزیں تھیں جو وہ نجانے کب سے جمع کر رہی تھی۔ رنگ برنگے ہیئر کلپس، لپ اسٹکس، ٹی شرٹس اور تنگ جینز، یہ وہ چیزیں تھیں جو اس کی امی اس کو شادی کے بعد استعمال کرنے کیلئے کہتی تھیں اورانجام کار وہ اس بیگ میں منتقل ہو جاتی تھیں۔ 
ولیمے کے بعد دعوتوں کا سلسلہ شروع ہوا تو اسے اپنی تشنہ آرزوئیں پوری کرنے کا موقع ملا۔ وہ گھر سے نکلنے سے پہلے خوب دل لگا کر تیار ہوئی اور جب وہ اپنے شوہر کے سامنے گئی تووہ تعریف کرنے کی بجائے اسے تیاردیکھ کر حیرت میں ڈوب گئے اور کچھ دیر تک خاموشی سے دیکھنے کے بعد درشت لہجے میں گویا ہوئے کہ تمہیں میک اپ کرنے کی تمیز نہیں ؟ہمیں ظہرانے پر مدعو کیاگیا ہے اور باہر اتنا گرم موسم ہو رہا ہے ۔اس پر تم نے یہ ریشمی جوڑا زیب تن کیا ہوا ہے۔ اس کے شوہر کا لہجہ اتنا طنزیہ تھا کہ رمشا کا سارا وجود جھلس کر رہ گیا۔شوہر نے چلا کر کہا کہ آج کے بعد سے تم میری منتخب کی ہوئی چیزیںہی استعمال کیا کرو گی۔ جا کر منہ دھو اور کوئی ہلکے رنگ کا سوٹ پہنو ۔رمشا شکستہ قدموں کے ساتھ واش بیسن کی طرف گئی، اس نے تمام میک اپ دھو ڈالا۔ اپنی معصوم خواہشوں اور تشنہ آرزوﺅں کویوں پانی میں بہتے دیکھ کر ا س کا دل رونے لگا۔
وقت گزرتا گیا۔ ابھی اس کی شادی کو سال ہی ہوا تھا کہ اس کے ہاں ننھی منی سی گڑیانے آنکھ کھولی ۔ کچھ کم عمری اورکچھ ناتجربہ کاری کے باعث جب کبھی اس کا کوئی کام نہ بن پاتا تو وہ جھنجلاہٹ کا شکار ہو جاتی اور رونے لگتی۔کچھ عرصے کے بعد جب اس کی بیٹی ذرا بڑی ہوئی تو دوسری بیٹی نے اس کی گود میں پناہ لے لی۔ وقت کا پہیہ گھومتا رہا پھرجب دونوں بیٹیاں ذرا بڑی ہوئیں تو اس کی جان میں جان آئی ۔ اب اسے ایک بار پھر اپنی تشنہ خواہشوں کو پورا کرنے کا موقع مل رہاتھا۔ 
ایک روز رمشا کی بڑی بیٹی کی سالگرہ تھی۔ وہ بہت دل لگاکر تیار ہوئی لیکن اس کے شوہر کو اتنا میک اپ کرنا پسند نہ آیا چنانچہ اس نے فوراً کہا کہ میک اپ کرنا ہر کسی کو نہیں بھاتا ۔2 بیٹیوں کی ماں بن گئی ہواب ”اسکول گرل“ جیسی حرکتیں تمہیں زیبا نہیں۔اس کا شوہر بڑی ناگوار ی سے تبصرہ کر رہاتھا۔ وہ تھوڑی دیر تک حیرت و استعجاب سے اپنے شوہر کا منہ تکتی رہی۔ منہ سے کچھ نہ بول سکی کیونکہ اس نے ماں سے یہی تربیت پائی تھی ۔وہ چپ چاپ اٹھی اور اپنے بناو سنگھار کی ساری اشیاءکو کوڑے دان کی نذر کر دیا۔ایسا کرتے ہوئے اس کے آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ اسے خیال آ رہا تھا کہ انسان کی کچھ آرزوئیں ہمیشہ تشنہ ہی رہتی ہیں۔ اس کے ساتھ رمشا نے اپنے آپ سے عہد کیا کہ وہ اپنی بیٹیوں کی کسی معصوم آرزو کوتشنہ نہیں رہنے دے گی۔خواہ اس کے لئے اسے اپنے شوہر کی مخالفت ہی مول کیوں نہ لینی پڑے۔

شیئر: