Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مال ، نعمت بھی ، نقمت بھی

دولت وثروت اللہ کی نعمت ہے، اس کی قدر کرنی چاہیے، اسے اللہ کی معصیت میں نہیں بلکہ اللہ کو راضی کرنے میں خرچ کرنا چاہیے
* * * مولانانثاراحمد حصیر القاسمی۔ حیدرآباد دکن***
منذر بن سعید تاریخ اسلام کے مشہور قاضی ہیں، اندلس کے فرمانروا شاہ ناصر کے زمانہ میں ان کے عدل اور حق گوئی کا ہر چہار جانب بڑا چرچا تھا۔ شاہ ناصر اپنی بیگمات میں سے ایک کو بہت چاہتا اور اس کی ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتا تھا۔شاہ نے اس کیلئے ایک نہایت خوبصورت محل بنوایا، پھر اسے اس کی توسیع اور اس کے باہر بالا خانوں کی تعمیر کا خیال پیدا ہوا۔ اس محل سے متصل ایک یتیم بچے کاگھر تھا، بادشاہ نے اس سے وہ گھر خریدنے کا ارادہ کیا اور اس کی قیمت کے طور پر کچھ مال کی پیش کش کی مگر اس یتیم کے وصی نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا اور اس گھر کو قاضی منذر کی اجازت کے بغیر فروخت کرنے سے انکار کردیا۔
بادشاہ نے قاضی کے پاس قاصد بھیج کر کہلوایا کہ اس معاملہ کو نافذ کرے۔ قاضی منذرنے قاصد کو بتایا کہ بادشاہ کی جانب سے پیشکش کی جانے والی قیمت نامناسب اور معقول قیمت سے کم ہے۔ اگر خلیفہ اس میں اضافہ کردیں تو وہ اس بیع کو نافذ کرسکتے ہیں۔خلیفہ نے قاضی کو بلوایا اور یتیم کے گھر کو منہدم کرنے کے بارے میں گفتگو کی تو منذر نے کہا کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی بنیاد پر اسے مہندم کردیا ہے کہ : "رہی کشتی تو چند مسکینوں کی تھی جو دریا میںکام کرتے تھے ، میں نے اس میں کچھ توڑ پھوڑ کرنے کا ارادہ کیا کیونکہ ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر ایک کشتی کو غصب (جبراً ضبط) کرلیتا تھا۔"(الکہف 79)۔ میں نے اسے منہدم کردیا کیونکہ آپ معقول قیمت نہیں دے رہے تھے مگر میں نے اس کے ملبوں کو آپ کی پیش کردہ قیمت سے زیادہ میںفروخت کردیا اور اب زمین اس یتیم کی باقی ہے ، بادشاہ نے معاملہ پر قدر غور کرنے کے بعد محسوس کیا کہ قاضی کی نیت سچی،اس کا عمل ناصحانہ اور حق کے معاملہ میں اس جیسی جرأت کسی کے اندر نہیں۔ خلیفہ نے کہا: میں انصاف کی پیروی کرنے کا زیادہ اہل وحقدار ہوں۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔
اسی طرح ان کا ایک دوسرا واقعہ بھی اہل سیر نے ذکر کیا ہے۔ خلیفہ عبدالرحمن ناصر تعمیرات کا دلدادہ اور خوبصورت سے خوبصورت عمارتیں بنانے کا شوقین تھا۔ اس شوق نے اسے اس حد تک پہنچادیا کہ جب اس نے زہراء نامی محل تعمیر کروایا تواس کے وسط میں موجودہال کے اوپر ایک گنبد بنوایا، اس گنبد کے اندرونی حصہ کی چھت مکمل سونے اور چاندی کی تھی، اس سونے اور چاندی سے مزین گنبد والے محل کی تعمیر پر اس نے بہت بڑی رقم صرف کردی۔محل واقعی عظمت اور شان وشوکت کا شاہکار تھا۔ اس کے افتتاح کے بعد خلیفہ پورے آب وتاب اور جاہ وجلال کے ساتھ اس میں داخل ہوا۔ گنبد کے نیچے تخت پر بڑے متکبرانہ انداز میں بیٹھا اور اپنی بنوائی ہوئی عمارت اور اس کی انفرادیت پر فخر کرتے ہوئے حاضرین سے بولا :کیا آپ لوگوں نے مجھ سے پہلے کسی بادشاہ کو دیکھا یا سنا ہے، جس نے وہ کارنامہ انجام دیا ہو جو میں نے انجام دیا ہے یا اس پر کسی کو قدرت ہوئی ہو۔ لوگوں نے کہا :امیر المومنین آپ اس معاملہ میں منفرد ہیں اور ویسے بھی سارے معاملات میں آپ کی انفرادیت مسلم ہے۔ اس طرح کی تعریفوں پر خلیفہ خوش تھا اور پھولے نہ سمارہا تھا کہ اس کے پاس قاضی منذر بن سعید آئے اور اپنی مختص نشست پر بیٹھ گئے۔
ان کے چہرے سے ناگواری عیاں تھی۔ خود خلیفہ ناصر نے اسے محسوس کیا اور اسے دور کرنے کیلئے ان سے سوال کیا: سونے وچاندی سے اس مزین گنبد کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ قاضی کا جواب ان پر بجلی بن کر گرا اور خوشی کی جگہ آنسوئوں نے اسے بے حال کردیا۔ قاضی نے جواب میں کہا: بخدا اے امیر المومنین میں گمان بھی نہیں کرسکا تھا کہ شیطان، اس پر اللہ کی لعنت ہو ، آپ پر اس حد تک حاوی ہوجائے گا اور نہ کبھی مجھے وہم ہوا تھا کہ آپ شیطان کو اپنے اوپر حاوی ہونے کا اتنا موقع دیںگے جبکہ اللہ نے آپ کو اپنا فضل، مال ودولت اور بے پناہ نعمتیں دے رکھی تھیں اور دنیا والوں پر آپ کو فوقیت بخش رکھا تھا۔ مجھے کبھی خیال نہیں آیا تھا کہ شیطان آپ کو کافروں کے مقام تک پہنچا دے گا۔ خلیفہ اس جواب کو سن کر برافروختہ اور ناراض ہوگیا اور غصے کی حالت میں پوچھا :ذرا سوچ سمجھ کر بولیں ، غور کریں کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں، آپ نے کس طرح مجھے کافروں کے مقام تک پہنچایا ہے۔ قاضی نے کہا جی ہاں! کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا: "کہہ دو کہ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ سارے انسان ایک ہی طریقہ پر ہوجائیںگے تو رحمن کے ساتھ کفر کرنے والوں کے گھروں کی چھتوں کو ہم چاندی کی بنا دیتے، سیڑھیوں کو بھی جن پر وہ چھڑھا کرتے اور ان کے گھروں کے دروازے اور تخت بھی جن پر وہ تکیہ لگا کر بیٹھتے ۔ "(الزخرف33،34)
اس آیت کو سنتے ہی خلیفہ کا چہرہ متغیر ہوگیا، اس نے سر جھکا لیا اور آہستہ آہستہ رونے لگا۔ اس پر گریہ طاری ہوگئی، پھر قاضی منذر کی طرف متوجہ ہوا اور بولا کہ اللہ آپکو جزائے خیر دے۔ آپ نے بالکل حق بات کہی ہے ، پھر خلیفہ نے اس عمارت کو ڈھا دینے کا حکم دے دیا۔ بلا شبہ مال ودولت اللہ کی نعمت ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اسے اپنا فضل قرار دیا اور اسے حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے تاکہ انسان اس دنیوی زندگی میں راحت وسکون ، عزت ووقعت اور خوشی ومسرت کے ساتھ زندگی بسر کرسکے مگر یہی مال جب اللہ کی معصیت اور نافرمانیوں میں استعمال کیا جانے لگے ،ا سراف وفضول خرچی روا رکھا جائے اور جہاں اسے خرچ کرنے کیلئے کہا گیا ہے وہاں خرچ کرنے کی بجائے جہاں خرچ کرنے سے منع کیا گیا ہے ،خرچ کیا جانے لگے تو یہی نعمت انسان کیلئے نقمت، وبال جان اور اللہ تعالیٰ کی گرفت وعذاب کا سبب بن جاتی ہے۔
کبھی انسان مال ودولت کے نشے اور عیش وعشرت میں پڑ کر اللہ کو فراموش کرجاتا ہے اور کبر وغرور میں پڑ کر ظلم وزیادتی کا مرتکب ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: پس کیوں نہ تم سے پہلے زمانے کے لوگوں میں سے ایسے اہل خیر ہوئے جو زمین میں فساد پھیلانے سے روکتے ، سوائے ان چند کے جنہیں ہم نے ان میں سے نجات دی تھی، ظالم لوگ تو اس عیش وعشرت کے پیچھے پڑ گئے جس میں انہیں آسودگی دی گئی تھی اور وہ گنہگار تھے، آپ کا رب ایسا نہیں کہ کسی بستی کو ظلم سے ہلاک کردے اور وہاں کے لوگ نیک وکار ہوں۔(ہود116،117)۔ زمین میں فساد وبگاڑ پیدا کرنا کفر کی علامت ہے۔اللہ سے غافل ہو کر عیش وعشرت میں زندگی بسر کرنے والے اگر معاصی کا بھی ارتکاب کرنے اور ظلم وزیادتی کا سہارا لینے لگیں تو وہ غضب الٰہی کے سبب عذاب وگرفت کے مستحق ہوجاتے ہیں،کوئی کافر ملک اگر عدل وانصاف سے کام لیتا ہو تو اللہ اسے چھوٹ دیتا اور اس کی حکومت واقتدار کو برقرار رکھتا ہے مگر ظلم ونا انصافی کرنے والے کو ڈھیل نہیں دیتا ، خواہ وہ مسلم وموحد ہی کیوں نہ ہو، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ظلم ونا انصافی کرنے والوں کو مجرم قرار دیا ہے اور مجرم ہونا لازمی طور پر اس کو عدالت میں پیش کیا جاتا اور اسے قرار واقعی سزا دی جاتی ہے۔ مالداروں کی دولت وثروت میں غریبوں کا بھی حق ہے اور یہ اس وجہ سے کہ سماج میں کوئی محروم نہ رہے اور کوئی دولت مند عیش وعشرت میں پڑ کر اللہ اور روز جزاء سے غافل ہو کر سماج میں بدبونہ پھیلائے ۔ اللہ نے یہ نظام اسی لئے قائم کیا ہے کہ بنی نوع انسانی کے تمام افراد کے درمیان اشتراک وتعاون اور معاشرہ ایک صالح بنیادوں پر قائم رہے جہاں نہ عیاشی واسراف کی بے اعتدالی ہو اور نہ فقرو افلاس کی مشکل صورتحال بلکہ دونوں طبقے ایک حد کے اندر رہیں اور ان کے درمیان عدل وانصاف جاری رہے۔ قرآن عیش وعشرت میں حد سے گزر جانے ، سامان زندگی کا انبار لگانے کو بری نگاہ سے دیکھتا اور اسے انسانی زندگی کیلئے چیلنج قرار دیتا ہے۔ قرآن لوگوں کو سعادت ، خوشحالی اور راحت وسکون کی برقراری کے لئے ایسے ممکنہ وسائل اختیار کرنے کی ہدایت دیتا ہے جو انسانوں کے اندر عیاشی ، دولت کی ریل پیل اور اللہ سے غافل کرنے والی فراوانی وانبار کو ایک حد میں رکھ سکے۔
عیش وعشرت میں پڑ کر جو اسراف وفضول خرچی ، جہالت ومعصیت اور ظلم وزیادتی کے خوگر ہوجاتے ہیں۔ ان کی عداوت ہر اصلاح کی کوشش سے ہوتی ہے، وہ حق کو قبول کرنے سے اعراض کرتے بلکہ ہر حق بات کو دبانے اور بھلائی کی تلقین کرنے والوں کو خاموش کرنے کی کوشش کرتے اور اس مقصد کیلئے وہ اپنی بے پناہ دولت کا سہارا لیتے ہیں۔ وہ اپنی دولت اور جاہ ومنصب کے سہارے گھٹیا سے گھٹیا عمل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے، وہ ہر ایسی آواز یا طاقت کو کچل دینا چاہتے ہیں جو ان کی پرتعیش زندگی میں رخنے ڈال سکتی ہو یا جسے وہ ااس زندگی کیلئے خطرہ محسوس کرتے ہوں۔ اللہ تعالیٰ اسی کی عکاسی کرتے ہوئے فرماتا ہے: اور ہم نے تو جس بستی میں جو بھی آگاہ کرنے والا بھیجا وہاں کے خوشحال وعیش عشرت میں پڑے لوگوں نے یہی کہا کہ جس چیز کیساتھ تم بھیجے گئے ہو ہم اس کا انکار کرنے والے ہیں۔ اور کہا کہ ہم مال واولاد میں بہت بڑھے ہوئے ہیں، یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم عذاب دیئے جائیں۔(الزخرف) ۔
رسول اللہ کی جب بعثت ہوئی تو دنیوی آسائشوں میں زندگی بسر کرنے والے خوش حال لوگوں نے رسول اللہ کی دعوت پر لبیک کہنے والے اور ایمان لانے والے کمزوروں کا مذاق اڑایا اور کہنا شروع کیا کہ اگر وہ ہم سے بہتر ہوتے تو اس دعوت کو قبول کرنے میں ہم پر سبقت نہیں لے جاتے ، یعنی وہ گمان کررہے تھے کہ گویا کہ وہ کسی مختلف مٹی کے بنے ہوئے اور ان کا گوشت پوست اور خون غریبوں کے خون اور گوشت پوست سے الگ ہے۔ان کی دولت وثروت اوران کی عیاشی وخوشحالی نے ان کے اندر کبرو غرور ، خود بینی وخود پسندی اور نخوت پیدا کردیا تھا اور یہی ہر زمانہ میں ہوتا ہے کہ دولت وثروت کا انبار انسان کے مزاج کو بگاڑ دیتا ہے وہ اترانے لگتا ہے، خاص طور پر جبکہ ناداری وغربت کے بعد آئے اور اس کی آمد میں بھی حلال وحرام کی تمیز نہ رہی ہو۔
اللہ سے غافل کردینے والی اس دولت وثروت اور مال وزر کے ریل پیل کا یہی مزاج ہے اور ہر زمانہ میں اسکا یہی مزاج رہا ہے جو روز اول سے آج تک میراث میں منتقل ہوتا رہا ہے۔اس میں مسلم وغیر مسلم کی قید نہیں۔ حد سے زیادہ دولت رکھنے والا یہ طبقہ جو اللہ کے حکم سے منہ موڑنے والا ہے، سماج میں فساد وبگاڑ کا سرچشمہ بنتا ، فتنہ وفساد کا ذریعہ ہوتا اور امت کے اندر مہلک بیماریوں کے وائرس کے پھیلنے کا سبب بنتا ہے۔دولت کا انبار اور عیش وعشرت کی زندگی اسے بزدل بنا دیتی ہے اس کے اندر سے جدوجہد کا مادہ ختم ہوجاتا ہے اور وہ اپنی عیاشی کو برقرار رکھنے کیلئے کسی سے بھی ہاتھ ملانے اور سودے بازی کرنے کیلئے تیار رہتا ہے۔ اسی لئے کسی بھی ملک کی تباہی وبربادی ، پچھڑے پن اور مغلوبیت کا بنیادی سبب یہی طبقہ ہوتا ہے: "اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرلیتے ہیں تو وہاں کے خوشحال لوگوں کو کچھ حکم دیتے ہیں اور وہ اس بستی میں کھلی نافرمانی کرنے لگتے ہیں تو ان پر عذاب کی بات ثابت ہوجاتی ہے، پھر ہم اسے تباہ وبرباد کردیتے ہیں۔"(بنی اسرائیل )۔
اس میں شبہ نہیں کہ دولت وثروت اللہ کی نعمت ہے، اس کی قدر کرنی چاہیے، اسے اللہ کی معصیت میں نہیں بلکہ اللہ کو راضی کرنے والے راستوں میں خرچ کرنا چاہیے، اسراف وفضول خرچی سے بچنا چاہیے اور غریبوں وناداروں کا خیال رکھنا چاہیے۔ اہل علم کو بھی چاہیے کہ وہ حکمت ودانائی کیساتھ اہل ثروت تک حق بات پہچانتے رہیں اور حق بات کہنے سے محض مالداروں کو خوش کرنے کیلئے خاموشی اختیار نہ کریں کہ بسا اوقات ان سے خلاف شر ع باتوں کا صدور نادانی وغفلت اور ناواقفیت ولاعلمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ان میں قبول حق کی صلاحیت موجود ہوتی ہے، اگر بھلے طریقے پر ناصحانہ انداز میں انہیں درست بات کہی جائے اور اس میں اخلاص ہو تویہ بات سنی جاتی اور اس پر اثر ہوتا ہے۔

شیئر: