Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”مردانِ وطن“اور ”زنانِ پاکستان“کے نمائندگان

 
 ہدایات دینے والے نگرانی شروع کر دیں تو ایسا نامکمل منصوبہ کہیں نہ ملے
ابوغانیہ۔جدہ
دھنک کے صفحے پرلاہور شہر کی ایک تصویر”آپ بھی لکھئے “ کے زیر عنوان شائع ہوئی جس میں ایک 53سالہ مایوس مرد اور 42 سالہ خاتون دکھائی دے رہے ہیں۔ خاتون بہر حال خاصی حد تک پُر اُمیدنظر آ رہی ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ صاحب ”مردانِ وطن“ اور یہ خاتون ”زنانِ پاکستان“کی نمائندہ محسوس ہو رہی ہیں۔ ایسا کہنااس لئے درست ہے کیونکہ وطن عزیز میں مہنگائی، بے روزگاری، چوری چکاری، مارا ماری، سیاسی ہڑبونگ، بڑوں کے ڈھونگ، امن و امان کی صورتحال، اخلاقیات کے کال، رشوت و حرام کے جنجال اور شرک کے وبال نے عوام کی حالت ایسی ہی کر دی ہے ۔ وہ اپنے حال سے پریشان ہیں، مستقبل سے مایوس ہیں اور ماضی سے عبرت حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔تصویر میں”نامکمل ٹیوب ویل“کی شکستہ حال منڈیر پر ٹِکا ہوا یہ مرد، سوچ رہا ہے کہ میں نے اس ارضِ پاک کی فضاوں میں سانس لیتے 55برس گزار دیئے۔ اس عرصے میں کتنی ہی جمہوری اور غیر جمہوری حکومتیں آئیں اور گئیں، کتنی ہی حکومتیں بلائی اور بھیجی گئیں ، ان کے ادوار میں فرد یاچند افراد کاتو خوب بھلا ہوا، ان کی جیبیں بھری گئیں، مرادیں بر آئیں،مانگیں پوری ہوئیں، خواہشات کی تکمیل ہوئی، اندرون ملک تجوریاں بھریں، بیرون ملک بینکوں میں کھلوائے گئے کھاتے ”آباد“ ہوئے مگر ہم جیسے کروڑوں عوام برباد و بے مراد ہوئے۔ کسی نے ہمارے آنسو پونچھنے کی کوشش نہیں کی بلکہ جب چاہا ہمیں رُلا دیا۔ہر سال بجٹ کے موقع پر نئے ٹیکس لگا کر پہلے سے سسکتے بلکتے عوام کا جینا مزید دوبھر کر دیا جاتا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ اسے ”عوام دوست“ بجٹ قرار دیاجاتا ہے۔ عوام کو دلاسے دیئے جاتے ہیں کہ امسال انہیں ذرا مشکل برداشت کرنی پڑ رہی ہے، آئندہ برس حالات بہتر ہوجائیں گے مگر آئندہ برس عوام پر مزید بوجھ بڑھا دیاجاتا ہے۔ بجٹ میں سرکارکی جانب سے عوامی فلاح کے منصوبوں کے لئے بھی بھاری رقوم مختص کی جاتی ہیں، عوام بے چارے یہ سوچ کر صبر کر لیتے ہیں کہ ٹیکسوں میں اضافے سے حالت تو خراب ہوئی ہے مگر فلاحی منصوبہ مکمل ہو جانے کے بعد کچھ تو آنسو پونچھے جا سکیں گے مگر ان منصوبوں کا انجام ایسا ہوتا ہے جیسے زیر نظر تصویر میں ٹیوب ویل کا انجام دکھایاگیا ہے ۔
ہمارے ایک دوست نے یہ تصویر دیکھی تو وہ دور کی کوڑی لے آئے۔ حیرت یہ تھی کہ ان کی یہ کوڑی دورِ حاضر میں بھی انتہائی مقبول ثابت ہو رہی تھی۔انہوں نے فرمایا کہ تصویر میں نہ صرف ٹیوب ویل کی خستہ حالی عیاں ہو رہی ہے بلکہ بعض دیگر باتیں بھی ہیں جن پر اعتراض کیا جانا چاہئے مثال کے طور پر سنگ بنیاد پر تحریر ہے کہ یہ ٹیوب ویل وزیر اعظم کی خصوصی ہدایت پر نصب کیا جا رہا ہے۔ گویاعوام کی بہبود کا کوئی ایسا منصوبہ بھی ہے جو وزیر اعظم کی عمومی ہدایت پر شروع کیا گیا ہو؟دوسری بات یہ کہ اگر خصوصی ہدایات کے بعد شروع کئے جانے والے منصوبوں کاایسا عبرت ناک انجام ہوتا ہے تو اُن منصوبوں کا حشر کیا ہوتا ہوگا جن کے لئے خاص ہدایات نہ دی گئی ہوں یا جن کی روایتی تکمیل کے لئے کہا گیا ہو؟اس تحریر میں وزیر اعظم کے نام کے ساتھ قائد کا لفظ بھی لکھا ہے جو اس امر کا غماز ہے کہ تختی لگانے والے اور ٹیوب ویل تعمیر کرنے والے کو یہ ہدایات جس ہستی سے موصول ہوئی ہیں اور جن کے احکامات کی بجاآوری میں یہ منصوبہ مکمل کیا جا رہا ہے وہ اس تختی لگانے والے کے قائد ہیں مگر ٹیوب ویل کی حالت زار اس ا مر کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے کہ اس تعمیر کے ذمہ دار نے اپنے ”قائد“ کا کہنا بھی نہیں مانا جنہوں نے پیاسے عوام کو پینے کا صاف شفاف اور ”شاید“ ٹھنڈا پانی فراہم کرنے کی انتہائی خاص ہدایت کی تھی۔ ہمارے ہاں کے الہڑ نوجوان یہ تختی پڑھ کر کیا سوچیں گے، کیا اخذ کریں گے کہ ”قائد“ کی ہدایات اور وہ بھی خصوصی ہدایات کو اس انداز میں پس پشت ڈالا جاتا ہے ، اس طرح فراموش کیاجاتا ہے؟ 
تیسری بات یہ ہے کہ اس تختی پر لکھا ہے کہ نہ صرف وزیر اعظم نے خصوصی ہدایت دی تھی بلکہ خادم اعلیٰ پنجاب نے بھی اس ٹیوب ویل کی تعمیر جلد از جلد مکمل کرنے کے لئے کہا تھا مگر افسوس کہ ان ہدایات کو درخور اعتنا نہجانا گیا۔
چوتھی بات یہ ہے کہ ہم نے بچپن میں ماسٹر سے ہمیشہ مار کھائی کیونکہ ایک روز وہ ہمیں کام دیتے تھے کہ گھر سے کر کے لانا اور اگلے روز ہم بغیر کام کئے اسکول چلے جاتے۔ ماسٹر صاحب کہتے کہ کام لا کر چیک کراﺅ اور جب ہم کہتے کہ کام تو کیا ہی نہیں تو ہماری درگت بنتی۔ماسٹر صاحب ہمیں مرغا بنا دیتے اور کلاس میںموجود لڑکیاں ہمیں دیکھ کر ہنستیں۔ بعض نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ آپ مرغا بنے بہت اچھے لگتے ہیں۔ بہر حال ہمیں مار پڑتی تو اگلے روز ہم ان کا کام کر کے لے جاتے اور کسی دوسری استانی کا کام نہ کر پاتے چنانچہ ان سے مار پڑتی۔ یوں ہماری دھنائی کا سلسلہ تمام اسکولی حیات میں جاری رہا ۔ مار اس لئے پڑتی تھی کیونکہ ”نگرانی “ بہت سخت تھی۔روزانہ کام چیک کیاجاتا تھا۔ جس دن کام چیک نہ ہوتا، ہم مار سے بچ جاتے تھے ۔ اسی طرح ہمیں خیال آتا ہے کہ اگر ہدایات دینے والے نگرانی کرنا شروع کر دیں کہ ہم نے جو کام مکمل کرنے کے لئے دیا تھا وہ کہاں تک پہنچا تویقین جانئے ملک کے کسی چپے میں ایسا نامکمل منصوبہ تلاش کرنے سے بھی نہ مل سکتا۔ 
پانچویں بات یہ ہے کہ اس تختی پر افتتاح و معاونت کرنے والے کے نام کے ساتھ ”دستِ مبارک“کے ا لفاظ درج ہیں تو عرض ہے کہ ایسے نامکمل، بے کار اور خستہ حال منصوبے کے افتتاح کے لئے ”دستِ مبارک“لکھنا ہی غلط ہے کیونکہ جب کوئی شے مبارک ہو تو اس کا حشر ایسا نہیں ہوا کرتا ۔کاش ہمیں ایسے رہنما میسر آجائیں جو نہ صرف قوم کو خوشحالی کی راہ دکھا سکیں بلکہ وہ ملک، منصوبوں اور محکوموںکی نگرانی بھی اس انداز میں کریں کہ دنیا کے لئے مثال بن جائیں۔ 
 
 
 
 
 
 

شیئر: