Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈاکٹر خورشید رضوی کی خاکہ نگاری ”بازدید “

 
مصنف نے جن شخصیات سے تاثر قبول کیا ،اس کا اظہار خاکوں کی شکل میں بھی کیا 
محمد مجاہد سید
مشرق و مغرب میں موجودہ عہد میں خاکہ نگاری نے اپنی جڑیں مضبوطی سے جمالی ہیں۔ عموماً ادبی تقریبات میں خصوصاً کسی شخصیت کا جشن مناتے وقت تنقیدی و توصیفی مقالات اور کلمات کے ساتھ خاکہ بھی پڑھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی نے اپنی شعری و ادبی زندگی میں عوام و خواص سے متعلق جن شخصیات سے کوئی قلبی ، ذہنی یا روحانی تاثر قبول کیا ہے اس کا اظہار متعدد مواقع پر خاکوں کی شکل میں بھی کیا ہے۔لاہورکے ا یک طباعتی ادارے نے ان بکھرے ہوئے خاکوں کو " بازدید" کے عنوان سے یکجا کردیا ہے۔
خاکہ نگاری کا مقصد زیر گفتگو شخصیت کو اس طرح روشنی میں لانا ہوتا ہے کہ اس کی خوبیاں اور خامیاں قاری یا سامع کے سامنے فطری طور پر آجائیں اور وہ محسوس کرے کہ وہ شخصیت اس کے سامنے آکھڑی ہوئی ہے۔خاکہ نگاری کو مرقع نگاری اور قلمی تصویر بھی کہا جاتا ہے۔ انگریزی میں اسے پین پورٹریٹ کہتے ہیں۔ خاکہ نگاری میں خاکہ نگار کی مصورانہ صلاحیتوں کا امتحان ہوجاتا ہے ۔ خاکہ لکھنے کیلئے زیر بحث شخصیت سے شخصی واقفیت تو ضروری ہوتی ہے لیکن اسکے متعلق نہ تو تعریف کے پل باندھے جاسکتے ہیں اور نہ اس کی مذمت کی گنجائش ہوتی ہے۔ سوانح نگاری اور خاکہ نگاری میںبھی بڑا فرق ہے۔ سوانح نگاری مکمل حالات زندگی کا احاطہ کرتی ہے جبکہ خاکہ نگار اپنے موصوف کی کارگزاریوں کا جائزہ لطیف مزاح کے ساتھ لیتا ہے لیکن اس عمل میں اسے طنزیہ انداز اپنانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ فرمائشی خاکہ نگاری اس صنف کے زوال کا باعث ہوتی ہے۔ 
ہندوستان میں خاکہ نگاری کا ابتدائی عکس انشاءاللہ خاں انشاء کی تحریروں میں ملتا ہے ۔ خاکہ نگاری کی باقاعدہ ابتداءمحمد حسین آزاد سے ہوتی ہے۔ حالی کی” حیات جاوید“ میں خاکے سے زیادہ سوانحی عنصر ملتے ہیں۔ ڈپٹی نذیر احمد کی توبتہ النصوح میں ظاہر دار بیگ کا کردار خاکہ نگاری کی عمدہ مثال ہے۔ پنڈت رتن ناتھ سرشار نے ”فسانہ¿ آزاد“ میں خوجی کے کردار کی شکل تو پیش کی ہے لیکن ان کا زور سیرت نگاری پر ہے۔ فرحت اللہ بیگ نے ڈپٹی نذیر احمد کی کہانی میں نہایت دیانت داری اور مصور انہ شان سے ڈپٹی نذیر احمد کا خاکہ کھینچا ہے۔
خواجہ حسن نظامی ، مولوی عبدالحق، عبدالماجد دریا بادی، محمد علی جوہر، سعادت حسن منٹو اور رشید احمد صدیقی ہر لحاظ سے خاکہ نگاری کی صنف میں بڑے نام ہیں۔
ہندوستان کے بعد اگر پاکستان میں خاکہ نگاری کی تاریخ کا محتصر جائزہ لیا جائے تو کئی اہم نام ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ شاہد احمد دہلوی کی عمدہ حلیہ نگاری میں دہلی کی ٹکسالی زبان لطیف مزاح کے ساتھ نظر آتی ہے جبکہ شوکت تھانوی کے ہاں مزاح کا غلبہ ہے۔ میرزا ادیب کے خاکے بے ضرر ہیں تو احمد بشیر کا کشور ناہید کا خاکہ بقول شخصے شخصیت کا کوڑا باہر نکالتا نظر آتا ہے۔ پاکستان میں چھٹی اور ساتویں دہائی میں خاکہ نگاری میں خاص ترقی نظر آتی ہے۔ محمد طفیل کے 23 شخصیات کے خاکے چراغ حسن حسرت کی خاکہ نگاری، ممتاز مفتی، مسعود اشعر، ضمیر جعفری اور فارغ بخاری کے خاکے مختلف زاویوں سے اہمیت کے حامل ٹھہر چکے ہیں۔
ڈاکٹر اجمل نیازی، ڈاکٹر آفتاب احمد ، ڈاکٹر ابو الخیر کشفی، ڈاکٹر عبادت بریلوی، ابو الفضل صدیقی، ڈاکٹر اسلم فرخی، تابش دہلوی، جلیل قدوائی، رئیس احمد جعفری، امراو طارق، رحیم گل، لطیف الزماں خاں، منو بھائی، اے حمید، یونس جاوید کے ساتھ ساتھ عطاءالحق قاسمی، یونس بٹ اور احمد عقیل روبی اچھے خاکہ نگار کہے جاسکتے ہیں۔
ڈاکٹر خورشید رضوی کی تازہ ترین تصنیف " بازدید" 34 خاکوں پر مشتمل ہے۔ تمام خاکے 234 صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں۔ خاکہ نگاری کی تعریف و اجمالی تاریخ کی روشنی میں اس مختصر سے مضمون میں اس کتاب کی حیثیت کا تعین کرنا ناممکن نہیں تو دشوار ضرور ہے۔ ”بازدید“ میں شامل اکثر شخصیات کئی لحاظ سے یادگار ہیں جن میں ان کا عہد سانسیں لے رہا ہے لیکن اس مضمون میں صرف 15 شخصیات کے متعلق خاکوں کی خصوصیات کا سرسری جائزہ لیا گیاہے۔
اس کتاب میں پہلا خاکہ اصغر علی روحی کی شخصیت کی خیالی تصویر کہا جاسکتا ہے۔ خیالی ہونے کے باوجود پیکر تراشی اس کا خاص وصف ہے۔ اصغر روحی کے مضبوط کردار ، بے داغ و بے باک علمی شخصیت و سیرت کے ساتھ موصوف کی حس مزاح پر بھی اس خاکے میں بخوبی روشنی پڑ جاتی ہے۔ مارگولیتھ کی اسلامیہ کالج لاہور میں آمد کے موقع پر اصغر روحی کے طرز عمل سے اس زمانے کے بزرگوں کی عموماً اور خصوصاً روحی کے کردار کی بلندی کا ثبوت مل جاتا ہے۔
انتظار حسین کے متعلق شامل دو خاکوں سے انتظار حسین کی شخصیت پر اگر بھرپور روشنی نہیں پڑتی تو اس میں خورشید صاحب کا قصور نہیں کیونکہ انتظار حسین نے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اپنی شخصیت کی اصل فصیل سے پہلے قلعہ گولکنڈہ کی پہلی فصیل کی طرح ایک فصیل اٹھا رکھی تھی جس میں داخل ہوکر اصل فصیل سے پہلے ہی سیاح یا حملہ آور تھک کر لوٹ جائے۔ قرة العین حیدر شعور کی رو کے ساتھ مغز و مواد پرستی اور لفظ پرستی سے عبارت ہیں۔ تھامس ہارڈی جزئیات نگاری اور قسمت پرستی کا وصف رکھتا ہے لیکن اورہان پامک اور انتظار حسین تاریخ میں اپنی زندگی اور اپنے عہد کا تعین کرتے وقت سوچ سوچ کر بولتے نظر آتے ہیں۔ اسی وجہ سے اگر انتظار حسین خورشید رضوی سے یہ کہتے ہیں کہ بھئی ہمارے فن پر تو بہت لوگوں نے لکھا ہے مگر شخصیت پر کسی نے نہیں لکھا ۔ آپ کا کمال یہ ہے کہ آپ نے شخصیت پر لکھا جو ہے ہی نہیں۔ اس پر مجھے قطعاً حیرت نہیں ہوئی کیونکہ یہ دانشور انہ غرور دانشور کو ابریشم کے کوئے سے نکلنے نہیں دیتا ورنہ وہ تقریباً مر ہی جائے۔ خورشید صاحب ریشم کے کیڑے کے کوکون (ابر یشم کے کوئے) تک پہنچ گئے ۔ یہ بھی بڑی کامیابی ہے۔ ان دونوں مضامین سے انتظار حسین کی شخصیت اور پسند و ناپسند پر کسی حد تک روشنی پڑ جاتی ہے۔
احمد ندیم قاسمی کے خاکے سے ان کی ذہانت ، تخلیقیت ، محنت ، دیانت ، انسانیت، رواداری، دردمندی، ہمدردی ، بذلہ سنجی، رجائیت، وقت کی تنظیم، مصروف نظر آئے بغیر مصروف رہنے اور نہایت منظم و مہذب شخصیت ہونے کا ثبوت مل جاتا ہے۔
وزیر آغا کی شخصیت ، علم دوستی ، رجحان سازی اور ادبی اقدار کی ترویج میں ان کے کردار پر ان سے متعلق خاکہ بھی عمدہ ہے۔
علامہ عبدالعزیز میمن کی شخصیت و مزاح کا احاطہ کرنے میں ان کاخاکہ بھی نہایت کامیاب ہے۔ میمن صاحب کی جزرسی لیکن پنجاب یونیورسٹی کو اس زمانے میں ایک لاکھ تفویض کرنا، ان کی گفتگو کا آزاد تلازم ِخیال کے تحت ہونا اور اسے ترتیب میں لانا آسان نہ ہونا، اردو زبان پر اہل زبان کی طرح ان کے عبور کے باوجود نوکرانی کو نوکریانی اور پت جھڑ کو پت جھاڑ کہنا بھی دلچسپ ہیں۔ ذوق شعری پر شاعرانہ لطافت کے بجائے عالمانہ مہارت کے غلبے کے اندازے کے ساتھ مصنف کیلئے ملازمت کی پیشکش سے میمن صاحب کے اخلاص کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے۔
پروفیسر عبدالقیوم کے خاکے میں مصنف نے ان کی ذات کو اعلیٰ انسانی و اخلاقی اقدار کا مرقع، نیک دل ، پاکیزہ سرشت، متدین ، ہمدرد، بااخلاق، کشادہ دل اور نمایاں اہل علم کہا ہے۔
ڈاکٹر پیر محمد حسن پر لکھے گئے خاکے سے جادہ¿ تحقیق کے دشوار ہونے اور پیر صاحب کے استحضار علمی ، قوت حافظہ، متاثر کن اور مستقل مزاج شخصیت ہونے کا عکس قاری کے سامنے آجاتا ہے۔ خودمستی کے باوجود محبت و شفقت زبان پر قدرت، علمی احتیاط اور جفاکشی سے مملو یہ شخصیت قاری کے لئے نہایت متاثر کن ہے۔
ناصر کاظمی کا خاکہ بہت لطیف ہے ۔اس میں کلام میر میں ناصر کے استغراق، ازخودرفتگی، خود کلامی، عمیق شخصیت، ناصر کاظمی کے دوسرا میر ہونے کی بات کہہ کر کافی حد تک قاری کو اصل ناصر کاظمی تک پہنچا دیاگیا ہے۔ حقیقت کے بواطن و اسرار کی نقاب کشائی میں ناصر کاظمی کی حیرت انگیز وہیبت انگیز قدرت کی جانب بھی نہایت بلیغ اشارے کئے گئے ہیں۔ 
مجید احمد کی مثال دوردیس سے آئے ہوئے ایک اجنبی، خوفزدہ اور معصوم ہنس سے دی گئی ہے۔ مجید احمد کی شخصیت کو ابھارنے کیلئے انہیں ادھیڑ عمر ، کم گو، دھیمے لہجے میں بات کرنے والے مٹے ہوئے انسان، ایک ایسا انسان جو متانت و وقار کے باوجود مریضانہ سنجیدگی کا شکار نہیں تھا اور محافل میں حصہ لینے کے ساتھ دوستوں کو دستیاب بھی تھا ، کہہ کر کی گئی ہے۔ مجید امجد کے شعر پڑھنے کی بھی خوبصورت اور فطری انداز میں منظر کشی کی گئی ہے۔
بقول خورشید رضوی منیر نیازی مغرور نہیں ، سادہ وصاف گو انسان تھے جن کے ہاں ادب آداب اور مصلحت شناسی برائے نام بھی نہیں تھی۔ ان کی فقرے بازی بھی تخلیقی حیثیت کی حامل تھی۔ منیر نیازی کا خاکہ بھی ان کی شخصیت سے پردے اٹھاتا نظر آتا ہے۔ 
ایک ہی ملاقات پر مبنی تاثرکے لحاظ سے معروف ہندوستانی شاعر عرفان صدیقی کا تعارف خاکے کے علاوہ فی البدیہہ متاثر کن نظم سے کرایاگیاہے ۔ علاوہ ازیں عرصہ دراز تک اردو نیوز اور ریڈیو مکہ مکرمہ سے متعلق شاعر اور براڈ کاسٹر عبدالباری انجم کی عربی دانی و خوش اخلاقی کا واشگاف الفاظ میں اعتراف کیاگیاہے۔
اس کتاب میں مصنف نے اپنے دوستوں کی وفات پر لکھے ذاتی تاثرات بھی شامل اشاعت کئے ہیں جس سے مصنف کی دردمندی کا پتہ چلتا ہے۔ احمد عقیل روبی کی خاکہ نگاری کو خراج تحسین خاکے میں شامل نظم سے بھی پیش کیاگیاہے ۔ ہمدم دیرینہ جمیل یوسف کے خاکے کو ہر لحاظ سے فطری اور کامیاب ترین کہا جاسکتا ہے جس میں موصوف کی شخصیت کے حسن و قبح کو اس طرح اجاگر کیاگیاہے کہ قاری مسرت و بصیرت سے دوچار ہوتا ہے۔ اس سے ماخوذآخر ی اقتباس ملاحظہ ہو:
”لوگ عموماً تضاد سے خائف ہوتے ہیں۔ تضادات کا حل یا جواز تلاش کرنے میں ساری عمر بتا دیتے ہیں۔ جمیل صاحب کو اس معاملے میں نفس مطمئنہ حاصل ہے۔ خود جمیل ہیں، جمال پرستی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ مدتوں دیار حسن کی گرد اُڑاتی مگر ساری بے سمتیوں کے باوجود دل کی قبلہ نمائی میں فرق نہیں آیا۔ اندر سے کٹر مسلمان ہیں اور کٹر پاکستانی۔ جام شریعت اور مسندان عشق میں ان کے ہاں کوئی ٹکراو پیدا نہیں ہوا۔ اس صورتحال پر کوئی اور پریشان ہو تو ہو، ان کی جمعیت خاطر پر کوئی شکن نہیں آتی۔ معلوم نہیں انکے دل میں کوئی داغ ہے یا نہیں مگر داغِ ندامت کہیں نہیں۔“
زیر گفتگو کتاب کے بیشتر خاکے خاکہ نگاری کے معیار پر تو پورے اترتے ہی ہیں ساتھ دیدہ زیبی، رنگارنگی، شرافت نفسی، محسن شناسی اور مثبت قدروں کی آئینہ داری سے بھی یہ عبارت ہیں۔ 
اس کتاب کے مطالعے سے قاری کی ملاقات اصل خورشید رضوی سے ہوجاتی ہے خود جن کی ذات صفائے قلب اور محبت کا خوبصورت مجموعہ ہے۔ 
 
 
 
 
 
 

شیئر: