Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وقت کی گرد بیٹھے گی توحقیقی منظر واضح ہو گا

 
 کتنے ہی سادہ لوح ایسے ہیں جو بھلائی کرنے کی کوشش میںبرا کر بیٹھتے ہیں
اُم مزمل۔جدہ
وہ سکتے کی حالت میں تھی ،رونا نہیں چاہتی تھی لیکن آنکھوں سے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ تینوں بھائی کھیل کر آئے تو میچ جیتنے کی خوشی میں خوب شور مچاتے زوردار آواز میں لاونج کا دروازہ کھولتے اندر داخل ہوئے اور اس کی حالت دیکھ کر یکدم خاموش ہوگئے۔ وہ آگے بڑھے اور ٹی وی پر ایک اشتہار کے چلنے پر کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ کس بات پر اتنا سخت رد عمل ظاہر ہوا ہے ۔
دوسرا بھائی پانی کا گلاس لایا اوربہن کو پلایا، تیسرے نے آگے بڑھ کر ٹی وی کی آواز بند کر دی ۔ چھوٹے بھائی نے لان میں موجود دادی جان کو ساری صورتحال بتائی اور انہیں اندر لاﺅنج میں لے آیا۔کچھ دیرکے بعد وہ بات کرنے کے قابل ہوئی تو سوالوں کی بوچھاڑ کر دی کہ آپ بتائیں دادی جان ، کوئی قوم اپنے ساتھ ایسی دشمنی کرتی ہے کیا؟ایک ہزار سال سے اغیار اندلس کی تاریخ کو مٹانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن آج تک کامیاب نہیں ہو سکے مگر ہمارے لوگوں کی حالت یہ ہے کہ چند ارب کی ریز گاری کے عوض اپنے لوگوں کی بے عزتی کرتے ہیں ۔انکی عزت نفس کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔ چند بے مایہ چیزوں کے لئے جو وہ انعام کہہ کر دیتے ہیں۔اس سے پہلے ان کی خودی کوضرب لگا لگا کر چور چور کر دیتے ہیں جس قوم نے ایک پرچم تلے جمع ہو کر ایسا ملک حاصل کیا تھا جس میںاپنے اسلامی شعائر کے مطابق زندگی گزارسکیں۔ علامہ اقبال، قائد اعظم اور ان کے رفقا نے کتنی محنت سے مسلمان نوجوانوں میں خودی کی جوت جگائی تھی، آج اسی خودی کو ریزہ ریزہ کیا جا رہا ہے ۔
ٹی وی ا یک ایسا بن بلایا فرد بن کر گھروں میں داخل ہو گیا ہے ۔ چاہے ان چاہے اسے کھول لیا جاتا ہے لیکن اسکا فائدہ اغیار نے یوں اٹھایا کہ چند اچھی باتوں کے بدلے ہزار وں نازیبا حرکتیں اور گفتگو شامل زندگی کر دیں۔ دادی جان نے اسکی تمام باتین سن کر کہاکہ واقعی ہم سب کو سوچنے کی ضرورت ہے چند بیکار چیزوں کے بدلے لوگوںکو بے توقیر کیا جا تا ہے ۔ ان لوگوں نے بتایا کہ جہاں میچ کھیلنے گئے تھے وہاں کے بارے میںمعلوم ہوا تھا کہ ٹیوب ویل لگایا گیا ہے لیکن جب وہاں گئے توہماری طرح اور لوگ بھی پریشان ہوئے ۔کہیں کچھ لوگ احتجاج کر رہے تھے۔ وہ حکومتکو باور کرانا چاہتے تھے کہ علاقے میں بارش تو ہوتی ہے لیکن تمام پانی دریا سے گزرکر سمندر میںجا گرتا ہے۔ اسے ذخیرہ کرنے کی خاطرہمارے لئے تالاب یا ڈیم بنا دیجئے لیکن ہوا کچھ یوں کہ طباعت کی غلطی ہوگئی اور وہ کہنا تو چاہتے تھے کہ بارش کاپانی ہمارے لئے اسی صورت میں کام آسکتا ہے کہ جب اسے ہم بڑے بڑے تالابوںیا ڈیم میںجمع کر لیں چنانچہ ہمارے لئے ڈیم بنائے جائیںمگرلکھا یوں گیا کہ جس کا مفہوم یہی تھا کہ ہمارے لئے ڈیم نہ بنائے جائیں۔
دادی کے بڑے پوتے نے کہا کہ اتنے بڑے پوسٹرکوہاتھ میں اٹھانے سے پہلے ایک بار پڑھ تو لینا چاہئے تھا۔ وہ بھی بول پڑی کہ ہمارے کالج کا چوکیدار اپنے آپ کو پڑھا لکھا ثابت کرنے کیلئے اخبار پڑھتا رہتا ہے ۔کالج کے گیٹ سے داخل ہوتے ہوئے نظر پڑ جائے تو پتا چلتا ہے کہ موصوف نے اخبار تو الٹا پکڑا ہوا ہے۔ اس کے چھوٹے بھائی نے چوکیدار کی ہمدردی میں کہا کہ اس صفحے پر کوئی تصویر نہیں ہوگی ورنہ اسے سیدھا دیکھنے میں اخبارسیدھا رہتا ۔
تیسرے پوتے کو وہ وڈیو یاد آئی جس میں ایک بوڑھی عورت بینر اٹھائے ہوئے تھی چونکہ اسکے ساتھ بچے بھی تھے تو وہاں موجود 
لوگوں نے پوچھاکہ کیابات ہے تو وہ بولی کہ میں فلاں پارٹی کے خلاف آواز اٹھانے گاوں سے شہر آئی ہوںکہ ہماری مشکل حل کی جائے۔اسی دوران وہاں چند منچلے جمع ہوگئے۔کسی نے وڈیوبھی بنالی کہ وہ عورت بڑی دردمندی سے اپنا مسئلہ بیان کر رہی تھی کہ جس کی حکومت ہے ، اسے معلوم ہونا چاہئے کہ اس ہوشربا مہنگائی میں روٹی اور ترکاری کی طلب کس حد تک ناممکن ہو کر رہ گئی ہے ۔
ان سے کسی نے دوبارہ پوچھا کہ کیا آ پ فلاں فلاں سیاست دانوں کے حق میں آواز اٹھا رہی ہیںتو وہ عورت بول پڑی کہ میں تو انکے خلاف ہوں، اس نے تو ہمارا بالکل بھی خیال نہیں کیا۔ یہ سن کر لوگوں نے حیرت سے کہا کہ اماں آپ نے احتجاج کے نام پر اسی کے حق میں تو بینر اٹھا رکھا ہے جس سے آپ کو کو شکایت ہے ۔ یہ سن کر اس خاتون نے اس بینر کو اس انداز میں زمین پر دے مارا جیسے وہ انجانے میں سانپ پکڑبیٹھی ہوں۔لوگوں نے کہا کہ ا ماں آپ کو چاہئے تھا کہ یہ بینرفضا میں بلند کرنے سے پہلے کسی خواندہ سے دریافت کر لیتیں کہ اس پر کیا لکھا ہے ۔ 
انہیں دیکھ کر ہمیں خیال آتا ہے کہ ہمارے وطن عزیز میں کتنے ہی سادہ لوح ایسے ہیں جو انجانے میںاپنے تئیں بھلائی کرنے کی کوشش کر تے ہیں اور برا کر بیٹھتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ انسان ابھی ناسمجھی کر رہا ہے ۔جب وقت کی اڑتی گرد بیٹھ جائے گی توحقیقی منظر واضح ہوجائے گا۔
 
 

شیئر: