Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بوڑھوں ، کمزوروں اور خواتین کا جہاد ، حج

’’ جس نے استطاعت کے باوجود حج نہ کیا اس پر غیر مسلموں سے لیا جانے والاجزیہ نافذ کیا جائے کیونکہ وہ مسلمان نہیں‘‘
* * * * محمد منیر قمر۔ الخبر** * *
نماز ، روزہ اورزکاۃ کی طرح ہی حج وعمرہ بھی ایک اہم عبادت ہے بلکہ ایک اعتبار سے تویہ دیگر عبادات سے بھی جلیل القدر ہے کیونکہ نماز اورروزہ صرف بدنی عبادات ہیں اورزکوٰۃ مالی عبادت ہے جبکہ حج وعمرہ مالی اوربدنی ہر قسم کی عبادات کامجموعہ ہے۔ دین ِ اسلام میں حج وعمرہ کی اس قدر اہمیت ہے کہ نبی اکرم نے اسے اسلام کے ارکانِ خمسہ میں سے ایک رکن قراردیا ہے جیساکہ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم نے ارشاد فرمایا’’اسلام کی بنیاد5 چیزوں پر ہے:
* اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں اورحضرت محمد()اللہ کے رسول()ہیں۔
*نماز قائم کرنا۔
* زکوٰۃ اداکرنا۔
* رمضان کے روزے رکھنا اور
*بیت اللہ شریف کاحج کرنا‘‘
ایسے ہی نبی اکرم نے حج کوافضل ترین اعمال میں سے ایک شمار فرمایا ہے چنانچہ صحیح بخاری ومسلم میں ہی حضرت ابو ہریرہؓسے مروی ہے کہ رسول اللہسے پوچھا گیا’’سب سے افضل عمل کون سا ہے ؟‘‘آپ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ اوراس کے رسول ()پر ایمان لانا‘‘کہاگیا کہ اس کے بعد ؟ تو ارشادہوا ’’اللہ کی راہ میں جہاد کرنا‘‘پھر پوچھا گیا کہ اس کے بعد ؟ توآپ نے فرمایا’’حجِ مقبول ‘‘ علمائے کرام نے ’’حجِ مبرور‘‘ کی شرح بیان کرتے ہوئے متعدد آراء کا اظہار کیاہے چنانچہ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ رحمانیؒ ’’القِری القاصد ام القُریٰ‘‘ کے حوالہ سے لکھتے ہیں ’’بعض کے نزدیک اس سے مراد وہ حج ہے جس کے دوران کسی گناہ کا ارتکاب نہ کیا گیا ہو ۔
بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ حج ہے جو عنداللہ مقبول ہوجائے۔ بعض کا کہنا ہے کہ اس سے وہ حج مراد ہے جس میں ریا وشہرت، فحاشی اورلڑائی جھگڑانہ کیا گیا ہو اورکچھ اہلِ علم کاکہنا ہے کہ حجِ مبرور کی علامت یہ ہے کہ اس سے آدمی پہلے کی بہ نسبت بہترہو کر لوٹے اورگناہ کی کوشش نہ کرے۔
حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ ایساحج جس کے بعد انسان دنیا سے بے رغبت اورآخرت کاطلب گار بن جائے جبکہ حقیقت تویہ ہے کہ حج کے مفہوم میںیہ سبھی امور شامل ہیں‘‘ (المرعاۃشرح المشکوٰۃ) کس قدر خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو فریضہ ٔ حج سے سبکدوش ہونے کی سعادت سے بہرہ ور ہوتے ہیں اورسابقہ گناہوں سے کلی طورپر پاک ہوکر لوٹتے ہیں جیسے کوئی نوزائیدہ بچہ جنم لیتے وقت اس دنیا میں گناہوں سے پاک آتا ہے جیساکہ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم نے ارشاد فرمایا’’جس نے حج کیا اوردورانِ حج اس سے نہ کوئی شہوانی فعل سرزد ہوا اورنہ ہی اس نے فسق وفجور (گناہ )کاارتکاب کیا۔ وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوکر لوٹا گویا آج ہی اس کی ماں نے اسے جنم دیا ہے ‘‘ صحیح مسلم وابن خذیمہ میں حضرت ابن شماسہؓ سے مروی ہے کہ معروف صحابیٔ رسول حضرت عَمرو بن عاصؓ پر موت کا عالم طاری ہواتو اس وقت ہم ان کے پاس موجود تھے ۔ وہ دیر تک خشیتِ الہٰی سے روتے رہے اورپھر اپنے قبولِ اسلام کا واقعہ سنانے لگے اور فرمایا ’’جب اللہ نے میرے دل میں قبولِ اسلام کا جذبہ پیدا فرمایا تو میں رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اورعرض کیا : اے اللہ کے رسول()! اپنا دستِ مبارک آگے بڑھائیے تاکہ میں بیعت کروں اورجب آپ()نے اپنا دستِ مبارک بڑھایا تو میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا،
آپ() نے فرمایا ’’عمرو! کیا بات ہے؟‘‘میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول () ! میںایک شرط پیش کرنا چاہتا ہوں ، فرمایا’’ وہ کیا؟‘‘میں نے عرض کیا : صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے بخش دے توآپ() نے فرمایا ’’ اے عمرو !کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اسلام قبول کرنا پہلے تمام گناہوں کو مٹادیتا ہے اور (دین کی خاطر) ہجرت کرناپہلے گناہوں کو ختم کردیتا ہے اورحج کرنا بھی سابقہ گناہوں کو ملیا میٹ کردیتا ہے ‘‘ حج وعمرہ سے حاصل ہونے والی سعادتوں، کامرانیوں اورفضائل وبرکات کا یہ عالَم ہے کہ تمام گناہوں کے کفارے کے ساتھ ساتھ جنت کی خوش خبریاں بھی کانوں میں رس گھولتی، دلوں میں ایمان جگاتی اورروح کو بالیدگی وتازگی بخشتی ہیں چنانچہ صحیح بخاری ومسلم کی ایک حدیث میں نبی آخر الزماں کاارشاد ِگرامی ہے’’ایک عمرہ دوسرے عمرے تک کے تمام گناہوں کاکفارہ ہے اورحجِ مبرور کا ثواب توجنت ہی ہے ‘‘ میدانِ کارزار میں کفار ومشرکین کوتہہِ تیغ کرنے والے غازیوں اورشہیدوں کو اللہ تعالیٰ جو مقام ومرتبہ عطافرماتا ہے وہ صرف انہی لوگوں کا حصہ ہے جو اپنی جانیں ہتھیلیوں پر لئے اورسروں پر کفن باندھے محاذِ جنگ پر دشمنوں کو للکارتے ہیں مگر وہ انسانی طبقے جو اس دل گردہ کے مالک نہیںہوتے کہ معرکۂ حق وباطل کو سر کریں ۔ انہیں جہاد کا ثواب عطاکرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے حج کو اس کا نعم البدل قراردیا ہے چنانچہ صحیح بخاری شریف اوربعض دیگر کتبِ حدیث میںام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ میں نے نبی اکرمسے عرض کیا ’’ہم جہاد کوافضل اعمال میں سے سمجھتے ہیں تو کیا ہم (عورتیں )بھی جہاد نہ کریں ؟‘‘اس پر نبی رحمۃ للعالمین نے ارشاد فرمایا ’’تمہارے لئے افضل جہاد ، حجِ مبرور ہے‘‘جبکہ صحیح بخاری کی ایک حدیث میں حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ میں نے آپ سے جہاد کی اجازت طلب کی توآپ نے فرمایا ’’تمہارا جہاد حج ہے‘‘جبکہ مسند احمد اورابن ماجہ کی ایک روایت کے الفاظ یوں ہیں کہ حضرت عائشہؓ نے پوچھا: کیا عورتوں پر بھی جہاد ہے ؟آپ نے فرمایا ’’ہاں! ان پر ایسا جہاد ہے جس میں کوئی قتال وجنگ نہیں اوروہ ہے حج وعمرہ ‘‘ اس حدیث کی سند کو محدثِ عصر علامہ محمد ناصر الدین البانی ؒنے صحیح قراردیا ہے جبکہ نسائی شریف کی ایک حسن سند والی حدیث میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ’’بوڑھوں ،ضعیفوں، کمزوروں اورعورتوں کا جہاد حج وعمرہ ہے‘‘ (حسنہ المنذری فی الترغیب والترہیب )
حجاجِ کرام کیلئے یہی شرف کیاکم ہے کہ عازمینِ حج وعمرہ کونبی اکرم کی بعض احادیث میں اللہ کے وفد ومہمان قراردیاگیاہے چنانچہ نسائی شریف کی ایک حدیث ہے جس کی سند کوعلامہ البانی ؒ نے’’ تحقیق المشکوٰۃ‘‘میں حسن قرار دیا ہے اوراسے امام بیہقیؒ نے بھی’’ شعب الایمان ‘‘میں روایت کیا ہے ، اس میں حضرت ابوہریرہؓ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم کو یہ فرماتے ہوئے سنا’’3 قسم کے لوگ اللہ کے وفد (مہمان )میں ہیں : جہاد ، حج اورعمرہ کرنے والے‘‘حاجی کو اللہ تعالیٰ نے اس قدر شرف وثواب سے نوازا ہے کہ اس کا جینا بھی قابلِ رشک ہے اوراس کی موت بھی قابلِ فخر واعزاز ۔صحیح بخاری ومسلم شریف میں ہے کہ میدانِ عرفات میں ایک شخص اونٹنی سے گرااورجانبر نہ ہوایعنی اس کی روح پرواز کرگئی جس پرنبی اکرم نے ارشاد فرمایا ’’اسے بیری کے پتوں والے پانی سے غسل دو اورانہی احرام کے کپڑوں میں کفن دے دو ۔ اس کے سر کو نہ ڈھانپو اورنہ ہی اسے خوشبو لگائو ‘‘ اورفرمایا ’’یہ قیامت کے دن اس طرح اٹھایا جائے گا کہ یہ لَبَّیْکَ اَللّٰھُمّ لَبَّیْکَ پکاررہا ہوگا‘‘ عموماًدیکھاجاتا ہے کہ صاحبِ استطاعت لوگ ماہِ رمضان المبارک میں اکثر عمرہ کیلئے جاتے ہیں ۔ اس کی وجہ دراصل یہی ہے کہ دیگر مہینوں کی بہ نسبت رمضان المبارک کے مہینہ میں عمرے کاثواب بہت زیادہ ہے۔ رمضان میںعمرہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے صحیح بخاری ومسلم میں نبی اکرم نے ارشاد فرمایا ہے’’رمضان المبارک میں عمرہ کرنا حج کے برابر ہے‘‘مگر یاد رہے کہ اس عمر ے سے اسلام کے رکن حج کی فرضیت ہرگز ساقط نہیں ہوگی بلکہ جب کسی پر فرضیتِ حج کی شرائط پوری ہوجائیں تو اس پر حج کرنا فرض ہوگا ۔
یہ تو اللہ تعالیٰ کا خاص احسان ہے کہ اس نے نبی اکرم کے ذریعے حج وعمرہ پر ان تمام فضائل وبرکات اورعظیم انعامات کی بشارت دی ہے جن کاذکر ہم نے سابقہ سطور میں کیا ہے ورنہ مسلمانوں کیلئے تو اس کی فرضیت کاحکم بھی تعمیلِ ارشاد کیلئے کافی ہے اوراس کی فرضیت قرآن وسنت اوراجماعِ امت سے ثابت ہے چنانچہ سورہ آل عمران ، آیت97میں ارشادِ الٰہی ہے ’’اورلوگوں پر اللہ تعالیٰ کا یہ حق (فرض )ہے کہ جو اس کے گھر ، (بیت اللہ شریف)تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں وہ اس کاحج کریں اورجو کوئی ا س کے حکم کی پیروی سے انکار کرے تو (اسے معلوم ہونا چاہئے کہ) اللہ تعالیٰ تمام دنیا والوں سے بے نیا زہے‘‘صحیح بخاری ومسلم میں ہے کہ نبی اکرم نے حج وعمرہ کو اسلام کے5 ارکان میں سے ایک رکن قراردیا ہے جبکہ صحیح مسلم شریف میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’اے لوگو!تم پر حج فرض کیا گیا ہے لہٰذا تم حج کرو‘‘امام نووی وحافظ ابن حجر عسقلانی ؒ سے نقل کرتے ہوئے امام شوکانیؒ لکھتے ہیں کہ اس بات پر پوری امت ِ اسلامیہ کا اجماع ہے کہ پوری زندگی میں صرف ایک مرتبہ ہی حج وعمرہ کرنافرض ہے (نیل الاوطار شرح منتقی الاخبار )
اگر کوئی شخص ایک سے زیادہ مرتبہ حج کرے تو وہ نفلی ہوگا کیونکہ صحیح مسلم ،نسائی اورمسند احمد میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے ہمیں خطبہ دیا اورارشاد فرمایا ’’اے لوگو!تم پر حج فرض کیاگیا ہے لہٰذا تم حج کرو‘‘ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول !کیا ہر سال حج کریں؟نبی اکرم خاموش رہے حتیٰ کہ اس شخص نے 3 مرتبہ یہی سوال دہرایا ‘‘ تب پھر نبی اکرم نے ارشاد فرمایا ’’اگر میں ہاں کہہ دیتا تو (ہر سال حج کرنا )واجب ہوجاتا اورتم اس کی طاقت نہ پاتے ‘‘نسائی، مسند احمد اوردارمی میں سوال کرنے والے اس شخص کانام بھی مذکور ہے جو کہ حضرت اقرع بن حابسؓ ہیں ۔اس ارشادِ رسالت مآب سے معلوم ہوا کہ حج وعمرہ زندگی میں صرف ایک ہی مرتبہ فرض ہے ۔
صحیح بخاری ومسلم میں مذکور حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ارشادِ نبوی ہے ’’ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک کے گناہوں کاکفارہ ہے اور حجِ مبرور کی جزاء توجنت ہی ہے‘‘اس حدیث کونقل کرتے ہوئے مفتی ٔ عالمِ اسلام سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز ؒ(سابق وائس چانسلر مدینہ یونیورسٹی وڈائریکٹر جنرل اداراتِ بحوثِ علمیہ ودارالافتاء ودعوت وارشاد ، سعودی عرب )نے لکھا ہے کہ نفلی حج وعمرہ میں کثرت مسنون ہے ۔ صحیح ابن حبان ،بیہقی ، مصنف عبدالرزاق ، مسند ابی یعلیٰ اورطبرانی اوسط میں حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ایک حدیثِ قدسی ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا’’اللہ تعالیٰ کہتا ہے: میں نے اپنے بندے کوجسمانی صحت اورمالی وسعت عطاکی مگر پھر بھی 5 سال گزرنے کے باوجود وہ میرے پاس (حج کیلئے )نہیں آتا، ایسا آدمی (فضائل وبرکات سے )محروم ہوتا ہے ‘‘ابودائود ونسائی، ابن ماجہ ومستدرک حاکم (وصححہٗ واقرہٗ الذہبی )
مسند احمد اوربیہقی میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ارشادِ نبوی ہے :’’فرض حج صرف ایک مرتبہ ہے جو زیادہ کرے وہ نفل ہے ‘‘ جب کوئی اتنی رقم ، حالات اوروسائل کامالک ہوجائے کہ وہ حج کرسکتا ہے تواسے حکم ہے کہ وہ فوراًاس فریضہ کی ادائیگی سے سبکدوش ہوجائے کیونکہ مسند احمد میں ارشادِ نبوی ہے ’’فریضۂ حج کی ادائیگی میں جلدی کرو اس لئے کہ تم میں سے کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ اسے کب کوئی بیماری یا شدید ضرورت اس سے روک لے‘‘اس اورایسی ہی دیگر احادیث کی بناء پر امام ابو حنیفہ ،ابو یوسف ،مالک اوراحمد بن حنبل نے قدرت واستطاعت حاصل ہوجانے پر فوراًحج کی ادائیگی کوواجب قراردیا ہے اورامام شافعی ،اوزاعی ،ثوری اورمحمد (صاحبِ ابی حنیفہ ) اوربقول ماوردی صحابہ میں سے حضرت عبداللہ بن عباس ، انس اورجابر ؓ اورتابعین میں سے امام عطاء وطائو س کے نزدیک وقتِ وجوب کے بعد جب چاہے حج کرسکتا ہے ۔جو شخص استطاعت کے باوجود اپنے دنیاوی مشاغل میں مصروف رہا اورجان بوجھ کر فریضۂ حج کی ادائیگی کو مؤخر کرتاجائے حتیٰ کہ اسی حالت میں اسے حج کئے بغیر ہی موت آجائے... اس کے بارے میں بڑی سخت وعید آئی ہے ۔ سنن سعید بن منصور میں حضرت عمرِ فاروق ؓ کاارشاد ہے’’میں نے ارادہ کیا کہ شہروں کی طرف اپنے آدمی بھیجوں کہ وہ ہر اس آدمی کا پتہ چلائیں جس نے طاقت واستطاعت کے باوجود حج نہ کیا ہو تو میرے آدمی ایسے لوگو ں پر غیر مسلموں سے لیا جانے والا ٹیکس (جزیہ )نافذ کردیں اورآخر میں فرمایا’’وہ مسلمان نہیں ، وہ مسلمان نہیں‘‘

شیئر: