Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دوست 2 مل گئے تو بہت،، 3 مل ہی نہیں سکتے

 
جس کا کوئی مطلب نہیں ہوتاوہی دوست ہے ، جہاں مطلب ہو وہاں دوست نہیں ہوتا
ڈاکٹر عابد علی۔ الخبر
ایک تاجر اپنے گزشتہ واقعات سنا رہاتھا کہ وہ ایک غریب اور نادار شخص کس طرح آج کے اس مقام تک پہنچا ہے ۔ ایک شخص نے جو اس کی باتیں سن رہا تھا، پوچھا جب آپ غریب تھے تو اس وقت آپ کے کتنے دوست تھے؟ تاجر نے جواب دیا جب میں مفلوک الحا ل تھا،اس وقت میرا کوئی دوست نہیں تھا۔
ایک مرتبہ میں نے اور میرے دوست نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم آپس میں ایک دوسرے کی غلطیوں کی نشاندہی کریں گے کیونکہ ایسا کرنے سے دوستی گہری ہوجائے گی۔ پھر یہ ہوا کہ ہمیں ایک دوسرے کی شکل دیکھے ہوئے 5 برس ہوچکے ہیں۔
ایک امیر مغرور شخص سے اس کا غریب دوست برسوں بعد ملا تو اس نے امیر دوست سے پوچھا، کیا تم نے مجھے نہیں پہچانا؟ مغرور دوست نے جواب دیا میں گدھوں کو نہیں پہچانتا۔ اس پر غریب دوست نے برجستہ جواب دیا لیکن میں پہچانتا ہوں۔ دوست اور دوستی کے بارے میں اقوال زریں ملاحظہ فرمائیں:
۰۰جو دشمن بنانے سے خوفزدہ ہے، اسے کبھی سچے دوست نہیں ملیں گے۔
۰۰ زندگی میں ایک دوست مل جائے تو بہت ہے، 2 مل گئے تو بہت زیادہ، 3 مل ہی نہیں سکتے۔
۰۰سچی محبت نایاب ہے اور دوستی اس سے بھی زیادہ نایاب۔
۰۰نادان دوست سے دانا دشمن اچھا ہوتا ہے۔
  اردو شعراءنے دوست اور دوستی پر جم کر شاعری کی ہے، ملاحظہ ہو:
مری زندگی میں شامل کئی اور دکھ بھی ہوں گے
مگر ان دکھوں سے بڑھ کر تری دوستی کے ہوں گے
٭٭٭
ہوئے تم دوست جن کے
دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
٭٭شوکت جمال:
تھے محلے میں ہی بس دوچار دوست
ان گنت ہیں اب سمندر پار دوست
فیس بک کی ہیں کرم فرمائیاں
ساری دنیا میں ہیں واقف کار دوست
ان میں کچھ نادار، کچھ خوشحال ہیں
کچھ ہیں دنیادار، کچھ دیں دار دوست
صاحبِ کردار ہیں ان میں کئی
ہیں مگر وہ بھی جو ہیں فنکار دوست
فیس بک سے ہی مجھے حاصل ہوئے
جب ہوئے، جتنے ہوئے، درکار دوست
دوستوں کی متعدد اقسام پائی جاتی ہیں جن میں اہمیت کی حامل اقسام چند ہیں جن کی بابت مختصر بیان کیا جا رہا ہے، توجہ فرمائیے:
٭٭ زبانی کلامی دوست: ایسے دوست جب آپ سے ملتے ہیں تو اس قدر تپاک سے ملتے ہیں کہ بے اختیار آنکھوں سے آنسو لانے کوجی چاہنے لگتا ہے ۔ دوستوں کی یہ قسم آپ کے سامنے ہی آپ کی تعریفوں کے پل باندھ دے گی اور آپ خود کو ہوا¶ں میں اڑتا ہوا محسوس کریں گے لیکن مصیبت کے وقت یہ دوست ایسے غائب ہونگے کہ جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
٭٭پیٹو دوست: دوستوں کی یہ قسم بھی کافی زیادہ نایاب ہے ۔ یہ دوست ہمیشہ کھانے کے وقت ہی ٹپکتے ہیں ۔ ہمیشہ آپ کے کاروبار میں برکت کی بھاری بھرکم دعائیں کرتے نظر آتے ہیں۔ کبھی بھولے سے بھی کھانے کیلئے انکار نہیں کرتے۔ کھاتے وقت بہت زیادہ باتیں کرتے ہیں جن میں زیادہ تر آپ کے سخی پن کی تعریف ہوتی ہے ۔ ان کا ایک ہی نعرہ ہوتا ہے کہ” جن کے گھر دانے ،زندگی انہیں کے سرہانے“، جیسے ہی دانے ختم ہوئے، ان کے آنے ختم ۔ 
٭٭حقیقی دوست: دوستوں کی یہ قسم ہمیشہ سے ناپسندیدہ رہی ہے۔ یہ نہ تو خوشامد پسند ہوتے ہیں ، نہ ہی یہ آپ کی غلطیوں کو نظرانداز کرتے ہیں۔ پتہ نہیں انہیں کس قسم کی کھجلی ہوتی ہے کہ اکثر ہمیں برائیوں سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں۔ مصیبت کے وقت بھی ساتھ نہیں چھوڑتے اور اگر مدد کرتے ہیں تو اس طرح کہ ان کا نام بھی سامنے نہ آئے اور ہمیںکسی قسم کا احساس شرمندگی بھی نہ ہو۔ اپنا وعدہ بھی وہ نجانے کیوںپورا کردیتے ہیں پھر بھی ان کا نام ہماری ”گڈ لسٹ“ میںنہیں ہوتا۔ شاید اس لئے کہ ہم خود ایک اچھے دوست نہیں۔ شاید اسی کانام فطرت ہے۔ میرے ایک دوست شاعر اقبال پیرزادہ کہتے ہیںکہ:
نہ چھیڑ قصہ¿ غمہائے دوستی مرے دوست
یہ ایک تلخ فسانہ ہے ،پھر کبھی میرے دوست
زمانہ کیسے کرے گا مجھے نظرانداز
گلی گلی مرے دشمن ،گلی گلی مرے دوست
برنگ لطف مرا دل دکھانے آتے ہیں
کبھی کبھی مرے دشمن، کبھی کبھی مرے دوست
٭٭٭
دیکھا جو تیر کھاکے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی
٭٭٭
٭٭ طارق محمود طارق:
دشمنوں کا ظلم تو کچھ اور تھا
دوستوں کی مہربانی اور تھی
جو مسلط تھی رگِ احساس پر
وہ بلائے ناگہانی اور تھی
٭٭احمد ندیم قاسمی:
کسی دشمن نے یہ عزت مجھے اب تک نہیں بحشی
ہمیشہ دوست ہی کا ہاتھ پہنچا ہے گریباں تک
٭٭٭
یوں تو حد نظراوج پہ تھی شعلہ زنی
جس نے اس گھر کو جلایا وہ شرر اپنا تھا
٭٭حبیب جالب:
تمہیں تو ناز بہت دوستوں پہ تھا جالب
الگ تھلگ سے ہو کیا بات ہوگئی پیارے
٭٭٭
جن کی خاطر شہر بھی چھوڑا جن کیلئے بدنام ہوئے
آج وہی ہم سے بیگانے بیگانے سے رہتے ہیں
٭٭پروین شاکر:
سفر میں رات جو آئی تو ساتھ چھوڑ گئے
جنہوں نے ہاتھ بڑھایا تھا رہنما ئی کا
٭٭٭
اجنبی بن کے جو گزارا ہے ابھی
تھا کسی وقت میں اپنا لوگو
٭٭قتیل شفائی:
ان کے ہاتھوں میں قتیل اک دن چھری دیکھو گے تم
وہ منافق جو گلے لگ کرتمہیں اکثر ملیں
رسوائیوں کا آپ کو آیا ہے اب خیال
ہم نے تو اپنے دوست بھی دشمن بنالئے
٭٭احسان دانش:
دوستوں سے اور وفا کی آرزو اے بے خبر
تیری امیدوں کے پیچھے کاروان یاس ہے
ایک دوست نے دوسرے سے پوچھاکہ عورت سکون کیلئے میکے چلی جاتی ہے اور اگر مرد سکون چاہے تو ؟ دوسرے دوست نے کہا کہ آپ کیا سمجھتے ہیں، لاکھوں لوگ جو بیرون ملک کا م کرنے گئے ہیں وہ وہاں صرف کام کرنے گئے ہیں؟
ایک دوست اپنی پریشانی کا سبب بتاتے ہوئے کہنے لگا یا ر ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی، شادی کی بات کرتے وقت لڑکے والے لڑکی کے ماں باپ سے لڑکی کا ہاتھ کیو ں مانگتے ہیں؟ آخر لڑکی کے پا¶ں بھی تو ہوتے ہیں؟ دوسرا دوست اسے سمجھاتے ہوئے کہنے لگا، ابے گدھے !لڑکی کے ہاتھ میں سونے کی چوڑیاں اور انگلیو ں میں سونے کی انگوٹھیاں ہوتی ہیں اس لئے اس کا ہاتھ مانگا جاتا ہے جبکہ پیروں میں تو ہیل اور سینڈل ہوتے ہیں۔
جدید تعلیم سے فارغ ہونے والے دو دوستوں کو ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب مل گئی ۔ باس نے کھانے کی دعوت کے دوران ایک سے پوچھا آپ کو ادب سے شوق ہے؟ اس نے کہا ہاں ۔ باس نے پوچھا عمر خیام کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ جواب میں اس نے کہا کہ اچھی جگہ ہے لیکن ذاتی طور پر میں کے ایف سی جانا پسند کرتا ہوں ۔ باس جواب سن کر خاموش ہوگیا ۔ واپسی پر دوسرے دوست نے اپنے دوست کو ڈانٹا ، ابے بے وقوف جب تجھے عمر خیام کے بارے میں نہیں معلوم تھا تو بات بدل دیتا ، احمقانہ جواب تو نہ دیتا۔ تمہیں یہ بھی نہیںمعلوم کہ عمر خیام کسی ریسٹورنٹ کا نام نہیں پرفیوم کا نام ہے۔
ایک دوست نے اپنے دوست سے کہا، دوست کا مطلب کیا ہوتا ہے؟
دوست نے مسکرا کر کہا پاگل ایک دوست ہی تو ہے جس کا کوئی مطلب نہیں ہوتا ، جہاں مطلب ہو وہاں دوست نہیں ہوتالیکن شعراء حضرا ت دوستوں کے بارے میں مندرجہ ذیل رائے رکھتے ہیں:
٭٭مقرب آفندی:
دوستوں کی سرد مہری کی شکایت چھوڑیئے
مصلحت اندیشیاں ہیں باپ بیٹے میںابھی
٭٭احمد ظفر:
دوستی میں ایک ایسا موڑ بھی آیا جہاں
آشنانا آشنا تھا اور پھر کچھ بھی نہ تھا
٭٭مصطفی زیدی:
ایک اک شکل کو دیکھا ہے بڑی حیرت سے
اجنبی کون ہے اور کون شناسا، نہ کھلا
٭٭کلیم عثمانی:
دوستوں کی دوستی کے تجربے ایسے ہوئے 
سب حقائق زندگی کے مجھ کو افسانے لگے
٭٭خاطر غزنوی:
گو ذرا سی بات پہ برسوں کے یارنے گئے
لیکن اتناتو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
٭٭آل احمد سرور:
یہ جیسے لوگ ہیں ویسے نظر نہیں آتے
رفاقتوں میں چھپی ہیں عداوتیں کیا کیا
٭٭فطرت:
عجب ہیں جلتی ہوئی لکڑیاں یہ رشتے دار
الگ کرو تو دھواں دیں، ملیں تو جل اٹھیں
٭٭عقیل:
اس دور میں ڈھونڈو بھی تو اخلاص کہاں ہے
سمجھے ہو جسے دوست وہی دشمن جاں ہے
٭٭اقبال عظیم آبادی:
گھر کی آگ بجھی تو کچھ سامان بچا تھا جلنے سے
وہ بھی ان کے ہاتھ لگا جو آگ بجھانے آئے تھے 
 
 
 
 
 
 

شیئر: