Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیکی پر استقامت ، عمل کی قبولیت کی علامت

17 رکعتیں ہر مسلمان مرد وعورت پر فرض ہیں: فجر کی 2 ، ظہر کی 4 ، عصر کی 4 ، مغرب کی3 اور عشاء کی 4 رکعت
* * * *ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی۔ ریاض** *
عمل کی قبولیت کی جو علامتیں علمائے کرام نے قرآن وحدیث کی روشنی میں تحریر فرمائی ہیں ان میں سے ایک اہم علامت عمل صالح کے بعد دیگر اعمال صالحہ کی توفیق اور دوسری علامت اطاعت کے بعد نافرمانی کی طرف عدم رجوع ہے۔ نیز ایک اہم علامت نیک عمل پر قائم رہنا ہے۔ حضور اکرم کا ارشاد ہے: ’’اللہ تعالیٰ کو محبوب عمل وہ ہے جس میں مداومت (یعنی پابندی) ہوخواہ مقدار میں کم ہی کیوں نہ ہو۔‘‘(بخاری ومسلم) ۔ حضرت عائشہ ؓسے حضور اکرم کے عمل کے متعلق سوال کیا گیا کہ کیا آپ ایام کو کسی خاص عمل کیلئے مخصوص فرمایا کرتے تھے؟ حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ آپ اپنے عمل میں مداومت (پابندی) فرماتے تھے، اگر کوئی ایسا کرسکتا ہے تو ضرور کرے (مسلم) ۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم نے ان سے ارشاد فرمایا : ’’اے عبداللہ! فلاں شخص کی طرح مت بنوجو راتوں کو قیام کرتا تھا لیکن اب چھوڑدیا ۔‘‘(بخاری ومسلم)۔
لہذا حج کے اعمال کے ختم ہونے کے بعد بھی ہمیں برائیوں سے اجتناب اور نیک اعمال کا سلسلہ باقی رکھنا چاہئے کیونکہ اسی میں ہماری دونوں جہاں کی کامیابی وکامرانی مضمر ہے۔ چند اعمال پیش ہیں، دیگر اعمال صالحہ کے ساتھ ان کا بھی خاص اہتمام رکھیں۔ فرض نماز کی پابندی : نماز، ایمان کے بعد دینِ اسلام کا سب سے اہم اور بنیادی رکن ہے جس کی ادائیگی ہر عاقل وبالغ مسلمان پر فرض ہے لیکن انتہائی تشویش وفکر کی بات ہے کہ مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد اِس اہم فریضہ سے بے پرواہ ہے۔ رمضان کے مبارک ماہ میں تو نماز کا اہتمام کرلیتے ہیں مگر رمضان کے بعد پھر کوتاہی اور سستی کرنے لگتے ہیں حالانکہ قرآن وحدیث میں اِس فریضہ کی بہت زیادہ اہمیت اور تاکید وارد ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر وقت نماز کا پابند بنائے،آمین۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’یقینا نماز مومنوں پر مقررہ وقتوں پر فرض ہے۔‘‘( النساء103) ۔
دن رات میں کل 17 رکعتیں ہر مسلمان مرد وعورت پر فرض ہیں: فجر کی 2 رکعت، ظہر کی 4 رکعت، عصر کی 4 رکعت، مغرب کی3 رکعت اور عشاء کی 4 رکعت۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے دن آدمی کے اعمال میں سب سے پہلے فرض نماز کا حساب لیا جائے گا، اگر نماز درست ہوئی تو وہ کامیاب وکامران ہوگا اور اگر نماز درست نہ ہوئی تو وہ ناکام اور خسارہ میں ہوگا۔‘‘ (ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، ابوداؤد ، مسند احمد)۔ حضرت عبادہ بن صامتؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: ’’ اللہ تعالیٰ نے بندوں پر 5 نمازیں فرض فرمائی ہیں، جو اِن نمازوں کو اس طرح لے کر آئے کہ ان میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کی ہو تو حق تعالیٰ شانہ کا عہد ہے کہ اس کو جنت میں ضرور داخل فرمائے گااور جو شخص ایسا نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کا کوئی عہد اس سے نہیں، چاہے اسکو عذاب دے چاہے جنت میں داخل کردے۔‘‘(موطا مالک،ابن ماجہ،ابوداؤد،مسند احمد)۔
حضرت ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ نے آخری وصیت یہ ارشاد فرمائی: نماز، نماز (یعنی نماز کا اہتمام کرو) ،جس وقت آپ نے یہ وصیت فرمائی آپ کی زبانِ مبارک سے پورے لفظ نہیں نکل رہے تھے (مسند احمد)۔ حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے گورنروں کو یہ حکم جاری فرمایا کہ میرے نزدیک تمہارے امور میں سب سے زیادہ اہمیت نماز کی ہے۔ جس نے نماز کی پابندی کرکے اسکی حفاظت کی اس نے پورے دین کی حفاظت کی اور جس نے نماز کو ضائع کیا وہ نماز کے علاوہ دین کے دیگر ارکان کو زیادہ ضائع کرنے والا ہوگا (موطا مالک)۔ نمازِ وتر کی پابندی : رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: ’’ یقینا اللہ تعالیٰ نے تم پر ایک ایسی نماز کا اضافہ کیا ہے جو تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہے اور وہ وتر کی نماز ہے جس کا وقت عشاء کی نماز سے طلوعِ فجر تک ہے۔‘‘ (ابن ماجہ، ترمذی، ابوداؤد)۔
حدیث کی تقریباً ہر مشہور ومعروف کتاب میں نبی اکرم کا امت مسلمہ کو نمازِ وتر پڑھنے کا حکم موجود ہے جو عموماً وجوب کیلئے ہو تا ہے لہذا ہمیں بعد نمازِ عشاء یا اذانِ فجرسے قبل وتر پڑھنے کی پابندی کرنی چاہئے۔احادیث کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ نماز وتر کی وقت پر ادائیگی نہ کرنے پر دوسرے دن طلوع آفتاب کے بعد کسی بھی وقت قضا کرلینی چاہئے۔ سنن مؤکدہ کا اہتمام : حضرت ام حبیبہؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’جس شخص نے دن اور رات میں 12 رکعتیں (فرض کے علاوہ) پڑھیں، اُس کیلئے جنت میں ایک گھر بنادیا گیا۔‘‘ (مسلم) ۔
ترمذی میں یہ حدیث وضاحت کیساتھ وارد ہوئی ہے۔ حضرت ام حبیبہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: ’’جو شخص دن رات میں مندرجہ ذیل12 رکعتیں پڑھے گا اُس کیلئے جنت میںگھر بنایاجائیگا:4 ظہر سے پہلے،2 ظہر کے بعد، 2 مغرب کے بعد، 2 عشاء کے بعد اور2 فجر سے پہلے۔ ان سنن مؤکدہ کے علاوہ دیگر سنن غیر مؤکدہ، نماز تہجد، نماز اشراق، نماز چاشت، تحیۃ الوضوء اور تحیۃ المسجد کا بھی اہتمام فرمائیں۔ قرآن کی تلاوت کا اہتمام : تلاوتِ قرآن کا روزانہ اہتمام کریں خواہ مقدار میں کم ہی کیوں نہ ہو۔ علمائے کرام کی سرپرستی میں قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کریں۔ قرآن کریم میں وارد احکام ومسائل کو سمجھ کر اُن پر عمل کریںاور دوسروں کو پہنچائیں۔ یہ میری ، آپ کی اور ہر شخص کی ذمہ داری ہے۔
اگر ہم قرآن کریم کے معنی ومفہوم نہیں سمجھ پا رہے، تب بھی ہمیں تلاوت کرنی چاہئے کیونکہ قرآن کی تلاوت بھی مطلوب ہے۔ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا : ’’جو شخص ایک حرف قرآن کریم کا پڑھے اس کیلئے اس حرف کے عوض ایک نیکی ہے اور ایک نیکی کا اجر10 نیکی کے برابر ملتا ہے ،میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف،لام ایک حرف اور میم ایک حرف ہے۔‘‘ (ترمذی)۔ حلال رزق پر اکتفا : حرام رزق کے تمام وسائل سے بچ کر صرف حلال رزق پر اکتفا کریں خواہ مقدار میں بظاہر کم ہی کیوں نہ ہو کیونکہ نبی اکرم نے ارشاد فرمایا: ’’کل قیامت کے دن کسی انسان کا قدم اللہ تعالیٰ کے سامنے سے ہٹ نہیں سکتا یہاں تک کہ وہ 5 سوالوں کے جواب دیدے، ان 5 سوالات میں سے 2 سوال مال کے متعلق ہیں کہ مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟‘‘ اسلئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ صرف حلال وسائل پر ہی اکتفا کرے، جیساکہ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا: ’’حرام مال سے جسم کی بڑھوتری نہ کرو کیونکہ اس سے بہتر آگ ہے۔‘‘ (ترمذی)۔ اسی طرح حضور اکرم نے ارشاد فرمایا: ’’وہ انسان جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کی پرورش حرام مال سے ہوئی ہو، ایسے شخص کا ٹھکانہ جہنم ہے۔‘‘ (مسند احمد) ۔
نیز نبی اکرم کا فرمان ہے: ’’حرام کھانے، پینے اور حرام پہننے والوں کی دعائیں کہاں سے قبول ہوں ۔‘‘ ( مسلم )۔ عصر حاضر میں بعض ناجائز چیزیں مختلف ناموں سے رائج ہوگئی ہیں، ان سے بچنا چاہئے کیونکہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: ’’حلال واضح ہے، حرام واضح ہے اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں جن کو بہت سارے لوگ نہیں جانتے، جس شخص نے شبہ والی چیزوں سے اپنے آپ کو بچالیا اُس نے اپنے دین اور عزت کی حفاظت کی اور جو شخص مشتبہ چیزوں میں پڑے گا وہ حرام چیزوں میں پڑ جائیگااُس چرواہے کی طرح جو دوسرے کی چراگاہ کے قریب بکریاں چراتا ہے کیونکہ بہت ممکن ہے کہ چرواہے کی تھوڑی سی غفلت کی وجہ سے وہ بکریاں دوسرے کی چراگاہ سے کچھ کھالیں۔‘‘ (بخاری ومسلم) ۔
بچوں کی دینی تعلیم وتربیت : ہماری یہ کوشش وفکر ہونی چاہئے کہ ہماری اولاد اہم وضروری مسائلِ شرعیہ سے واقف ہوکر دنیاوی زندگی گزارے اور اخروی امتحان میں کامیاب ہوجائے کیونکہ اخروی امتحان میں ناکامی کی صورت میں دردناک عذاب ہے جس کی تلافی مرنے کے بعد ممکن نہیں۔ مرنے کے بعد آنسو کے سمندر بلکہ خون کے آنسو بہانے سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ یاد رکھیں کہ اگر ہم اخروی زندگی کو سامنے رکھ کر دنیاوی زندگی گزاریں گے تو ہمارا بچوں کی تعلیم میں مشغول ہونا، انکی تعلیم پر پیسہ خرچ کرنا اور ہر عمل ان شاء اللہ دنیا وآخرت دونوں جہاں کی کامیابی دلانے والا بنے گا لیکن آج عصری تعلیم کو اسقدر فوقیت واہمیت دی جارہی ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کو بالغ ہونے کے باوجود نماز وروزہ کا اہتمام نہیں کرایا جاتاکیونکہ ان کو اسکول جانا ہے، ہوم ورک کرنا ہے، پروجیکٹ تیار کرنا ہے، امتحانات کی تیاری کرنی ہے وغیرہ ،یعنی دنیاوی زندگی کی تعلیم کیلئے ہر طرح کی جان ومال اوروقت کی قربانی دینا آسان ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے میں دشواری محسوس ہوتی ہے۔ ٹی وی اور انٹرنیٹ کا غلط استعمال : معاشرہ کی بے شمار برائیاں ٹی وی اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے پھیل رہی ہیں لہذا فحش وعریانیت وبے حیائی کے پروگرام دیکھنے سے اپنے آپ کو بھی دور رکھیں اور اپنی اولاد وگھر والوں کی خاص نگرانی رکھیں تاکہ یہ جدید وسائل آپ کے ماتحتوں کی آخرت میں ناکامی کا سبب نہ بنیں کیونکہ آپ سے ماتحتوں کے متعلق بھی سوال کیا جائیگا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کواُس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔‘‘(التحریم 6) ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے تمام اعمالِ صالحہ کو قبول کرے اور ہمارے لئے جہنم سے چھٹکارہ کا فیصلہ فرمائے،آمین، ثم آمین۔

شیئر: