Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جغرافیہ سے نابلد اینکر پرسن

اب ان اینکر دانشورو ں سے استفسار کیا جا ئے کہ کیا چین بھی کا نفرنس میں بیٹھے بیٹھے تنہا ہو گیا تھا؟
* * * سید شکیل احمد* * * *
پشاور کسی زمانے میں پھولوں اور پھلو ں کا شہر ہوا کر تا تھا ۔آغا زِ گرمی میں پشاور کے مشہور بازاروں خاص کر کا بلی دروازہ ، گھنٹہ گھر کے چوراہو ں پر پھلیا رے پھول اور غنچہ لٹکا ئے اورموتیا کے ہا ر آوازیں لگا کر بیچا کر تے تھے۔ پشاوری ثقافت کی اتنی دھوم تھی کہ ایک جہا ں میں سیر وتفریح اور خوش دلی کو دل پشاوری کا نا م دے دیا گیا تھا۔ اب وہ پشاور ماحولیاتی آلو دگی اور گندگی کے ڈلا ؤ میں سرفہر ست ہے۔ علا وہ ازیں پشاور میں متعد د تاریخی یا د گار یں ہنو ز موجو د ہیں۔ اگر پشاور کے تاریخی مقامات پر نظر دوڑائیں تو یہ بات کھل جاتی ہے کہ یہا ں90فی صد یا د گا ریں یا تعمیر ات مسلمانو ں کے دور کی پائی جاتی ہیں۔اکا دکا یا دگار یں غیر مسلموںکی ہیں جن میں زیا دہ تر سکھ دور کی ہیں ، انھی تاریخی عمارت میں ایک مسجد’’ طور قل بائے‘‘ ہے ۔
جب کا بلی چوک سے لیڈی ریڈنگ اسپتال کے مشرقی دروازے سے داخل ہو ں تو بائیں ہا تھ یہ تاریخی مسجد ہے لیکن کمیشن خوروں اور اپنی کا رستانی کر نے والو ں نے اس مسجد کا بھی وہ حسن وجلا ل بگاڑ دیا ہے جو پر انی تعمیر میں عیا ں تھا۔ اب نئی عما رت بنا دی ہے ۔ اس مسجد میں2قبریں بھی ہیں۔ ایک طورقل بائے جنہو ں نے مسجد تعمیر کر ائی تھی اور دوسرے اس مسجد کے ممتاز اور بے بدل خطیب قاری عبدالسلا م کی ہے۔ ان کی آواز میں کیا اثر تھا کہ لوگ میلو ں دور اُن کی قرأت سننے اوران کی امامت میں نما ز پڑ ھنے چلے آتے تھے ۔ اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ طورقل بائے اور قاری عبدالسلام دونو ں کا تعلق ترکستان سے تھا۔ قاری عبدالسلام کا خاندان اب بھی پشاور میں آبا د ہے ۔
پشاور میں قیا م پاکستان سے قبل کئی تر ک خاندان آبا د تھے جو چین اور روس کے کمیونسٹ انقلا ب کی وجہ سے آکر پشاور میںآباد ہو گئے تھے۔ ان میں سے کئی خاندان بعدا زاں نقل مکا نی کر کے افغانستان کے شمالی صوبو ں اور بعض ترکی منتقل ہوگئے تھے اور کچھ سوویت یو نین کا شیر ازہ بکھر جانے سے برسوں بعد اپنے وطن کو لو ٹ گئے ہیں۔ یہ پشاور میں بخاری کہلو اتے ہیں ۔ ان میں وسطی ایشیا کی مسلم ریا ستو ں کے باشندو ں کے علا وہ وہ تر ک بھی ہیں جن کو چینی ترکستانی کہا جاتا ہے ۔ مد عا یہ ہے کہ جب سے برکس کا نفرنس کی دہشتگر دی کے بار ے میں قرار داد منظر عام پر آئی ہے تو پا کستان پر تبّر ہ پڑ ھنے والوں کی دکا ند اری لگ گئی ہے اور انھو ں نے رٹا ہو ا راگ الا پنا شر وع کر دیا ہے کہ اس قرار د اد سے پاکستان کو دہشت گر د ملک قرار دیدیا گیاہے۔ ٹاک شو کے ذریعے امریکی اور ہندوستانی مفادات کی وکالت کر نیوالو ں کی دکا نداری لگ گئی ہے کہ پاکستان تنہا رہ گیا ہے ۔ پاکستان کی خاصی بدنا می ہو گئی ہے ۔پاکستان کو دنیا میں دہشتگر د کے طورپر پیش کر دیا گیا ہے ۔ہند کی یہ بہت بڑی کا میا بی ہے وغیر ہ وغیرہ ۔ یہ اینکر پر سن جو خود کو پاکستان ہی نہیں بلکہ ایشیا کا سب سے عظیم دانشور تصور کر تے ہیں ان کی ایسے ہی دعوؤں سے قلعی کھل جا تی ہے کہ جغرافیہ اور تاریخ کا ایک ادنیٰ طالب علم بھی برکس کا نفرنس کے مضمو ن کے نفس کو جا نتا ہے ۔ قر ار داد میں مبینہ دہشتگر د تنظیمو ں کا نا م لیا گیا ہے ۔کسی ملک کو براہ راست نہ تو ملو ث کیا گیا ہے اور نہ ہی اس کا نا م لیا گیا ہے۔
اگر لشکر طیبہ اور جیش محمد کے نا م کے حوالو ں سے پاکستان کی جانب فکر جا تی ہے تو اس قر ار دا د میں ایسٹ تر کستان تحریک کانام بھی شامل ہے ۔ بھلا ان بے تکے دانشورو ں کو کون سمجھا ئے کہ ایسٹ ترکستان کالعد م سوویٹ یونین کی ریاستو ں میں سے کسی ریا ست کا نا م نہیں اور نہ یہ کوئی الگ سے ملک ہے بلکہ ایسٹ ترکستان چین کا وہی صوبہ ہے جس کو اہل پشاور چینی ترکستان کا نا م دیتے ہیں اور اس صوبے کو سنکیا نگ کے نا م سے بھی جانا جاتا ہے۔اسے جغرافیہ کے حوالے سے ایسٹ ترکستان کہا جا تا ہے ۔ حیر ت کی بات یہ ہے کہ بعض اینکر پرسن نے تویہ تک کہہ دیا کہ ایسٹ تر کستان مو ومنٹ ترکی میں کا م کر رہی ہے۔ یہ حال ہے پاکستان کے باخبر برقی میڈیا کا۔ پاکستان تو برکس کا ممبر بھی نہیں۔ بقول ان دانشورو ں کے پاکستان کیخلا ف یہ قرا ر داد ہے تو اس تک بندی سے تو یہ چین کیخلاف بھی ہوئی جو نہ صرف برکس کا نفر نس کا ممبر بھی ہے اور میزبان بھی تھا کیو نکہ کا نفرنس چین میں منعقد ہوئی تھی ۔ جس تحریک کا قر ار داد میں ذکر ہو ا ہے وہ چین کے صوبے سنکیا نگ میں سر گرم ہے جس کو ایسٹ ترکستان بھی کہا جا تا ہے۔
سنکیا نگ یا ایسٹ ترکستان 100 فیصد مسلما ن آبادی کا حصہ تھا اور اس میں یغور نسل کے مسلما نو ں کی اکثریت تھی۔ چین نے اس پر غلبہ حاصل کیا اور اس کی ہیئت بدلنے کی سعی بھی کی ۔ یغور نسل کے مسلما نو ں کے علا وہ یہا ں قازن نسل کے بھی مسلمان آبا دہیں جن کو وسطی ایشیا میں قازقستانی بھی کہا جا تا ہے ،جبکہ چینی نسل کے باشندوں کی آبا دی تھی جو ایک فیصد سے بھی کم تھی مگر چین نے جب سنکیا نگ پر غلبہ پا یا تو اس کے بعد سے مسلم آبا دی کو اقلیت میں تبدیل کر نے کی غرض سے چینیو ں کو آبا دکر ناشروع کیا اور مسلمانو ں کو دور دراز علا قو ں میں منتقل کر نے کی سعی بھی کی تاہم اس وقت یغور مسلمانو ں کی آبادی 46 فی صد رہ گئی ہے اور چینی آبادی42 فی صد ہو گئی ہے تاہم6 فیصد قازن نسل کے مسلما ن اب بھی آباد ہیں ۔اس طرح اس علا قے میں آج بھی مسلمان اکثریت میں ہیں ، اس طرح دونو ں مسلما ن نسلو ں کی مل کر آبادی 52فیصد بنتی ہے ۔
ایسٹ ترکستان تحریک اس علا قے میں چین کے غلبہ سے نجا ت کیلئے تحریک چلا رہی ہے ۔پہلے یہ لوگ چین سے بچنے کی غرض سے پاکستان بھی آجا یا کرتے تھے مگر حکومت پاکستان نے اس تحریک سے وابستہ افرا دکو پکڑ کر چین کے حوالے کیا جس کے بعد سے ان کی آمد تھم گئی ہے ۔ سنکیانگ کی آبادی اس وقت لگ بھگ ڈھائی کروڑ ہے تاہم اندازہ ہے کہ آئند ہ10 سالو ں میں چینیوں کی مسلسل آباد کا ری سے جہا ں آبادی میں اضافہ ہو گا وہا ںمسلما نو ں کی آبادی اقلیت میں تبدیل ہو جا ئے گی ۔ یہ صوبہ چین کے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ چین کے تما م تجا رتی راستے اسی سے گزر تے ہیں۔ سی پیک بھی یہا ں سے ہی گزرے گا۔ ایران کو بھی راستہ اسی صوبے سے جا تا ہے۔ یورپ کی بیلٹ بھی ادھر سے ہی نکلتی ہے ، چنا نچہ چین کی چاہت ہے کہ اس صوبے کی مسلم آبا دی کو اقلیت میں بدل دیا جا ئے تاکہ تما م ممکنہ خطر و ں سے بچ جا ئیں چنا نچہ مسلم نسل کو چین کے دور درازپہا ڑی علا قوں میں آبا د کیا جا رہا ہے۔ اب ان اینکر دانشورو ں سے استفسار کیا جا ئے کہ کیا چین بھی کا نفرنس میں بیٹھے بیٹھے تنہا ہو گیا تھا؟ کیا اس نے اپنے خلا ف خود قرا ر داد منظور کر ائی۔ یہ کیسی حما قت زدہ باتیں کی جا تی ہیں ۔عوام کے ذہنوں میںزہر بھر اجا تا ہے ۔کم از کم دکاند اری کرنے سے پہلے سودا بیچنے کا ڈھنگ تو آنا چاہیے

شیئر: