Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حج ، ادائیگی عمر میں ایک بار ، اثرات تا عمر برقرار

اپنے ملکوں میں بھی حرمت والے مہینوں کو یاد رکھیں، ان کی حرمت یہاں پر بھی ہے اور جہاں آپ رہتے ہیں ،وہاں پر بھی ہے
* * * *ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ۔ مکہ مکرمہ* * * *
اسلام کا پانچواں رکن ’’ حج‘‘ جسے فریضہ عمر کہا جاتاہے شارع الحکیم نے صاحب استطاعت بندوں پر عمر بھرمیں صرف ایک بارفرض فرمایا ہے مگر اس فریضہ عمر کا تقاضا ہے کہ اس کے اثرات پوری عمربندہ مؤمن پر باقی رہیں اور اس کے انمٹ نقوش حاجی کی زندگی پر نمایاں نظر آتے رہیں ۔یہ کیسے ہوگا ؟اسی مقصد کے پیش نظر ہم نے یہ سطور ترتیب دیئے ہیں ۔ حج ایسا فریضہ ہے جو بدنی اور مالی عبادت کا مرکب ہے ۔ پھر حج میں مالِ کثیر بھی صرف ہوتاہے اور حج میں خاطر خواہ بدنی مشقت کا ہونا بھی امر مسلم ہے۔حج ہی وہ عمل ہے جس میں بندہ مؤمن بہت سے نظری ، فکری اور وجدانی امور کا مشاہدہ بھی کرتاہے ۔ بندہ مؤمن وہ مرد ہو یا عورت اللہ تعالیٰ کی آیات بینات کو اپنی آنکھوں سے دیکھتاہے ۔ وہ حرمت والے ان مقامات مقدسہ کا جن کی عظمت کا وہ قائل تھا، جن کے بارے میں اس نے بہت کچھ سنا تھا ۔ اب ظاہری نظر سے اس کا مشاہدہ کرلیتاہے ۔
پھر غور کریں کہ حج ہی وہ عمل ہے جس میں بندہ مؤمن مشاہدہ کرتا ہے کہ رنگ ونسل اور زمان وزمین کے تمام فروق مٹ جاتے ہیں ۔ اکنافِ عالم کے بنی نوع انسان اور امت مسلمہ کے حج پر آنے والے افراد اپنے لوگوں میں، نسلوں میں، عادات واطوار میں، تہذیب وتمدن اور ثقافتوں میں وہ کتنے ہی مختلف ہوں، اس کے باوجود حج کے موقع پر سبھی کی ایک بولی،سبھی کا ایک ورد، سبھی کا ایک شعار اور سبھی کا ایک لباس ہوتاہے ۔گویا حج نے افراد امت کے قلب وقالب کو بہت سی وحدتوں میں پروکر ایک امت کا اور امت واحدہ کا ایک حسین منظرپیش کردیا ۔حج امت واحدہ کی وحدت کا عظیم مظہر ہے جو اس کے علاوہ کسی اور نقطہ پر ممکن ہی نہیں ۔
اس عظیم موقع پر ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ برادرانِ حجاج کرام کی حج کے اس عظیم عمل سے حسن وفا اور پھر ما بعد الحج ان کی سیرت وکردار اور اللہ کی حدود کے دائرے میں رہنا، یہ تمام امور کس طرح ان کیلئے آسان ہوجائیں ؟ہماری نظر میں انہی اعمال میں کچھ غور وفکر اور کچھ علمی اور عملی اقدامات حجاج کرام کو جو کہ ضیوف الرحمن تھے تا عمر بندگان رحمان بناکر چھوڑنے والے ہیں ،ان کی زندگی میں اس کے انمٹ نقوش چھوڑتے ہیں ۔ اب حجاج کرام اپنے ان اعمال میں غور فرمائیں جو انہوں نے ادا کئے ہیں ۔انہی اعمال میں تدبرانہیں حج کے ساتھ حسنِ وفا سکھائے گا ۔رحمن کے مہمانان گرامی !آپ کو یہ یقین دلانا چاہئے کہ آپ کا یہ ایمان ہے کہ جس سرزمین سے آپ نے احرام سے حج کا عمل شروع کیا ہے، چاہے وہ بلاد اسلام کی ہو یا بلاد کفر ۔ اللہ کی جس دھرتی پر آپ نے اللہ اکبر سے اللہ کی تکبیر کہی ، الحمد للہ کہہ کر تحمید کہی، لا الہ الا اللہ سے تہلیل کہی، سبحان اللہ کہہ کر تسبیح کہی، پھر لبیک اللہم لبیک سے آپ نے تلبیہ پڑھاتو اس کے اثرات اللہ کی اس زمین پر نہ مٹنے والے نقوش ہیں ۔
اب جب آپ یہاں پر اور اس دھرتی سے دور ہیں تب بھی اس دھرتی پر آپ کے ان تمام کلمات کے اثر باقی ہیں۔ جب آپ واپس جائیں گے تو اس کے اثرات اس دھرتی پر تب بھی باقی رہیں گے ۔ جب تک آپ زندہ رہیں گے، اس دھرتی پر یہ اثرات باقی رہیں گے ۔جس دھرتی پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا اس پر ہمیشہ ہمیشہ اس کے اثرات باقی رہتے ہیں بلکہ جب آپ اس جہانِ فانی سے کوچ کرجائیں گے تو یہ دھرتی قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے سامنے آپ کیلئے شاہد وگواہ بنے گی کہ یا اللہ میرے اوپر تیرے اس بندے نے تیرا نام بلند کیا تھا ۔ اب یہیں سے آپ غور کریں کہ یہ زمین اگر حج کے احرام اور اس کے تلبیہ اور تسبیح وتقدیس کے نقوش کو اپنے لئے سمیٹے ہوئے ہے تو اسی مٹی سے تو ہم بھی بنے تھے ۔ہم کیسے حج کے بعد اس کے اثرات کو بھول جائیں اور کیسے ہماری سیرت وکردار سے اللہ کی اس تکبیر وتحمید اور تلبیہ کے اثرات غائب ہوجائیں ۔
یہ شعور،احساس اورتدبران شاء اللہ حج کے ساتھ ہمیں حسن وفا سکھانے والا ہے ۔اس موقع پر ہم اپنے حجاج کرام کے سامنے کچھ علمی گزارشات پیش کرنا چاہتے ہیں اور ان سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ ان علمی نکات کو بھی یاد رکھیں گے اور اور اس کی تعلیم آگے اپنے آئندہ آنے والے برادران کی خدمت میں بھی پیش کریںگے، اپنی نسلوں کو بھی سکھائیں گے اور ان کا یہ یاد رکھنا اور دیگر کو سکھانا یہ بھی ان کا حج کے ساتھ حسن وفا اور ان کا شرعی فریضہ بھی ہے ۔ حجاج کرام ! آپ جب اپنے گھر سے اللہ تعالیٰ کے مقدس ومعظم گھر کے ارادہ سے نکلے تو آپ نے یا تو صرف حج کا احرام باندھا جسے مفرد حج کہتے ہیں یا آپ نے عمرہ کا احرام باندھا اور جب مکہ مکرمہ پہنچے تو پھر 8 ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھا ۔اسے حج تمتع کہتے ہیں ۔
ایک سفر میں آپ نے حج اور عمرہ دونوں الگ الگ اداکئے یا پھر آپ نے حج اور عمرہ کا اکھٹے ہی احرام باندھا ، جسے قارن کہاجاتاہے ۔اب دیکھیں یہ ایک آسان اور عام فہم سی بات ہے ۔اگر آپ اسے یاد رکھیں گے اور ہر سال اپنے نئے حج پر آنے والے ساتھیوں کو یہ یاد کرائیں گے تو حج کے ساتھ کیسا آپ کا تعلق قائم رہا۔ حج میں آنے والا یا تو حج مفرد کرکے گیا یا حج تمتع کرکے گیا یا حج قران کرکے گیا ۔اگر اتنی سی بات آپ یاد رکھیں اور اپنی نسلوں کو سکھائیں اپنے رفقاء اور ساتھیوں کو سکھائیں تو اس طرح آپ نے اولا تو علمی طورپر ایک مسئلہ سیکھا اورآگے لوگوں کو سکھایا ۔اس علمی مسئلے کے سیکھنے سکھانے میں آپ کو اللہ تبارک وتعالی آپ کے کئی انفرادی اعمال سے زیادہ اجر وثواب عطافرمائے گا ۔دین کا ایک باب سیکھنا ہزار نفل رکعتوں سے زیادہ افضل ہے ۔ اس طرح حج سے بھی آپ کا تعلق رہا، یہی حسن وفا ہے۔ ہماری یہی خواہش ہے کہ ہمارے برادران حجاج کرام اپنے گھروں کو لوٹ کر اپنے اہل وعیال خاندان رشتہ دار اور آنے والی نسلوں کو اس عظیم فریضہ کے بارے میں تعلیم دیں ۔
یہ علم نافع ہے جو آپ کے دل میں نورپیدا کرنے والا ہے ۔ آج اس میں غفلت کے سبب بہت سے لوگ حج کے احرام کے باندھتے ہوئے انہیں یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ ہم کس لئے یہ احرام باندھ رہے ہیں ؟ یہی وہ قیمتی علم ہے جس سے ہمارے بعض حجاج کرام غافل رہتے ہیں ۔اس کا افصاح اور شعور کیسے آپ کے حافظے میں رہے گا کہ یہ قیمتی جواہر آپ یاد رکھیں اور دوسروں میں بھی اسے تقسیم کریں ۔ پھر ایک اور امر جو قابل تدبرہے، وہ یہ ہے کہ حج میں آپ حرمت والے مہینوں میں آئے ہیں ۔ ذوالقعدہ حرمت والا مہینہ ہے ۔ ذوالحجہ حرمت والا مہینہ ہے اور محرم بھی حرمت والا مہینہ ہے ۔
اب غور کریں کہ یہ حرمت والے مہینے آپ کے ملکوں، آپ کے شہروں،دنیا کے جس حصے میں بھی آپ رہائش پذیر ہیں ،یہ حرمت والے مہینے وہاں آتے ہیں، اس سال بھی آئے جبکہ آپ حج میں تھے اور مقام حرمت مسجد حرام اور بلد حرام مکہ مکرمہ میں تھے لیکن جب آپ اپنے ملکوں میں چلے جائیں گے تو ان مہینوں کی حرمت کا درس آپ کو وہاں یاد رکھنا ہوگا ۔ اگر آپ نے ان چیزوں کو یاد رکھا اور بھلا نہ دیا تو یہ بھی آپ کا حج کے ساتھ حسن وفا کہلائے گا ۔ اس کا آپ کے سیرت پر گہرے اثر اور نقوش ہوں گے ۔آپ اپنے اپنے ملکوں میں اللہ تعالی کے حکم سے اس کے احکام کی بھی پابندی کریں گے ۔یہ ضرور سوچیں گے کہ جب زمانہ جاہلیت میں اسلام کی روشنی سے دور وہ لوگ ان مقدس مہینوں کی حرمت کا خیال رکھتے تھے ۔ان میں قتل وقتال سے اجتناب کرتے، خون ریزی نہ کرتے، ظلم وزیادتی سے بچتے تو ہم تو مسلمان ہیں ۔ہمیں تو اللہ کے نبی نے یہ بتایا تھا کہ اے لوگو! تمہارے مال اور تمہاری جانیں اور تمہاری عزتیں اسی طرح تمہارے لئے حرام ہیں جس طرح حرمت والا یہ آج کا دن،حرمت والا یہ شہر اور حرمت والا مہینہ۔
حرمت والے مہینوں کی حرمت ہر شہر میں، دنیا کے ہر ملک اور سرزمین کے ہر کونے میں تاقیامت باقی ہے ۔اللہ تعالیٰ کاارشاد گرامی ہے : حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اللہ کے توشتے میں 12ہی ہے اوران میں سے 4مہینے حرام ہیں، یہی ٹھیک ضابطہ ہے ۔(التوبہ36)
پھر اپنے اپنے ملکوں میں بھی ہمیں ان حرمت والے مہینوں کو یاد رکھنا چاہئے ۔ ان کی حرمت یہاں پر بھی ہے اور جہاں جہاں آپ زندگی گزارتے ہیں ،وہاں پر بھی ہے ۔ یہ ایک دوسری علمی خدمت ہے جو آپ کے حج کے ساتھ تعلق کو قائم رکھے گی اور حسن وفا کو باقی رکھے گی۔محرم کا مہینہ اسلامی تاریخ میں قربانی کا مہینہ ہے ۔ اہل اسلام نے اپنے وطن کی قربانی دی،اللہ اور رسول کے خاطر مکہ مکرمہ جیسے مقدس شہر کو چھوڑا ، خود نبی کریمنے جب ہجرت کا ارادہ فرمایا تو حرم شریف کو مخاطب کرکے فرمایا : ’’اے سرزمین حرم ! تو اللہ کی زمین پر میرے لئے سب سے مقدس ٹکڑا ہے مگر کیا کروں کہ تیری قوم مجھے یہاں رہنے نہیں دے رہی، اگر ایسے حالات نہ ہوتے تو میں کبھی تم سے دور نہ جاتا ۔ ‘‘
تو گویا دین کی خاطر مقدس اور محبوب کوچھوڑنا اور ہجرت کرنا یہ اللہ کے رسول کی سب سے عظیم الشان قربانی ہے اور اسی طرح صحابہ کرام کی بھی ۔ ذرا غور کریں کہ یہ محرم الحرام کیسے ہمیں قربانی کا درس دے رہا ہے ۔ یہی محرم الحرام مدینہ منورہ میں پہلی اسلامی مملکت کی تاسیس کا وقت ہے کہ اللہ تبارک وتعالی نے حضور اکرم کے ہاتھوں جس مملکت کی بنیاد رکھی تھی ،اسی سے اس مہینہ اور اسلامی جنتری کا آغاز ہوا ۔
یہ یاد رکھیں کہ ان مہینوں کے نام پہلے موجود تھے مگر سن ہجری کا آغازاس لئے ہوا کہ اس مہینے میں مسلمانوں نے ہجرت کا عظیم الشان عمل سرانجام دیا ۔ اللہ تعالی کے ہاں ہجرت کی بہت بڑی فضیلت ہے کیونکہ ہجرت میں انسان اللہ اور اللہ کے رسول کے خاطر وطن کو چھوڑتاہے،یہ عمل انسان پر بہت شاق اور مشکل ہوتاہے،زمین سے انسان کو بہت محبت ہوتی ہے،وہ اپنی بستی تک اپنی مرضی سے چھوڑنے کیلئے راضی نہیں ہوتا تو وطن کو چھوڑنا بہت بڑی چیز ہے ۔ محرم الحرام میں مسلمانوں کیلئے سیکھنے کا اصل یہی درس ہے ۔اب اس مہینے کو کوئی شخص ماتم کا مہینہ بنائے،کوئی شخص کسی اور غرض سے بدعات کا مہینہ اسے قراردے اور خود بدعات اس کیلئے ایجاد کرتا رہے تو یقینا یہ حج اور اس فریضہ کے ساتھ بے وفائی ہے ۔

شیئر: