Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مونث کبھی اُلو نہیں ہو سکتی کیونکہ اُلو ہوتا ہے، ہوتی نہیں

 الّو کی شکل والے کو مینا ، بلبل یا فاختہ جیسا نام دے دیا جاتا تو کہاں جچتا
حرا زرین۔ جامعہ کراچی
پٹھے کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک انسانوں کے عضلاتی پٹھے ، دوسرے چوپایوں کے کھانے کے پٹھے اور تیسرے وہ جو اُلّو میں پائے جاتے ہیں۔ اگر اُلو کے ساتھ ان عضلاتی بافتوں کا نام لیا جائے توسننے والے کو اچانک غصہ آسکتا ہے ۔ ہمارے بزرگوں نے بھی کہاہے کہ اس پرندے کے نام کے ساتھ پٹھے یا ان کی جمع یعنی پٹھوں کا استعمال اخلاقی اعتبار سے درست نہیں۔ ہم نے بزرگوں کی نصائح کو پلے باندھ رکھا ہے ۔ اسی لئے ہماری حالت یہ ہے کہ ہم گائے بھینسوں کے سبز چارے کو پٹھے کہتے ہیں، کسی انسان کے بازو یا کمر میں بل پڑ جائے تو فوراً اسے بتادیتے ہیں کہ ”پریشانی والی بات نہیں، یہ پٹھا چڑھا ہے ، ٹھیک ہو جائے گاتاہم بازو یا ٹانگ کے پٹھوں کے تذکرے کے ساتھ ہم اُلو کے بارے میں کسی قسم کی گفتگو سے گریز کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔یہاں ہم ان دونوں کی گفتگو الگ الگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیںٹ
سناہے کہ الّومیں ایک اچھی بات بھی ہوتی ہے اور وہ یہ کہ ان میں کسی قسم کی بہتری با بدتری کی گنجائش نہیں ہوتی تاہم یہ بات بھی حقیقت ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ الّووں میں بھی تبدیلی آ چکی ہے ۔ اب پرانے الّووں کی جگہ نئے الوآ گئے ہیں مگر ہیں وہ بھی الّو کیونکہ وہ الووں کی ہی اولاد ہیں۔
الّو کو سمجھنے کے لئے انکی ذہنی سطح تک اترنا ضروری ہے مگرڈر یہ ہے کہ اسکے بعدانسان سوچنے سمجھنے کے قابل نہ رہے۔ مغرب میں الّو کو عقلمند تصور کیا جاتا ہے تاہم مشرق میں یہ خیال راسخ ہے کہ اگر الّو عقلمند ہوتا تو الّو کیوں ہوتا؟
الّو جتنے درختوں پر پائے جاتے ہیں اس سے کئی گنا زیادہ درختوں کے نیچے پائے جاتے ہیں۔ یہ الّو کی وہ قسم ہے جو دوسروں کو الّو بنا کر خوش ہوتی ہے جبکہ کوئی تیسرا انہیں الّو بنا کر خوش ہوتا ہے۔ اس طرح ”اُلو سازی“ کا یہ خوشیوں سے معمور چکر چلتا رہتا ہے۔
درختوں پر جو اُلو براجمان ہوتے ہیں وہ خوب سے خوب تر کی کوشش نہیں کرتے کیونکہ وہ سوچتے ہیں کہ ہم خواہ کتنی ہی کوشش کیوں نہ کر لیں، اُلو ہی رہیں گے البتہ درختوں کے نیچے بسنے والوں کو الّو بنایا جاتا ہے۔ بڑی تعداد میں الّو سیل کے نام پر بنائے جاتے ہیں ، جو یہاں الّو بننے سے بچ جائے وہ صنفِ مخالف سے محبت کے نام پر الّو بن جاتا ہے۔ بعدازاں سیاستدان ان سب کو مزید الّو بنا دیتے ہیں۔
الّو کے الّو ہونے کی سب سے بڑی دلیل تو یہ ہے کہ یہ ہوتا ہے ،ہوتی نہیں۔ بھلا مونث بھی کبھی الّو ہو سکتی ہے، ہرگز نہیں۔الّو کو یہ اعزازبھی حاصل ہے کہ اس پر بڑے بڑے ادیبوں نے طبع آزمائی کی ہے لیکن الّو کو اس اعزاز سے کوئی غرض نہیں۔ ہر ادیب نے اسے مزید الّو ہی ثابت کیا ہے۔ کسی ایک ادیب نے بھی روایت سے بغاوت کرتے ہوئے چالاک الّو پر مضمون نہیں لکھا۔ ویسے ادیبوں کا بھی قصور نہیں،چالاک الّو لکھ لیں یا ہوشیار الّو، بہر حال اُلو نے تو اُلو ہی رہنا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ الّو کے معاملے میں آخر قصوروار کون ہے؟ کیا وہ شخص جس نے اس پرندے کا نام الّو رکھا؟ لیکن خود سوچیں الّو کی شکل والے کو مینا ، بلبل یا فاختہ جیسا نام دے بھی دیا جاتا تو کہاں جچتا۔ یوں لگتا ہے کہ یہ نام بنا ہی الّو کے لئے ہے اور الّو بنا ہی اس نام کے لئے ہے۔
 
 
 
 
 
 

شیئر: