Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جرمنی : پارلیمانی انتخابات کے نتائج ، مسلم شہری فکر مند

 
یورپ  میں مسلمانوں  کی صورتحال پر جرمنی کے نتائج گہرا تاثر رکھتے ہیں
 عشرت معین سیما۔ برلن، جرمنی
مسلمان اس وقت دنیا میں مذہبی و قومی تعصب کی بنیاد پر خود کو بے حد غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں۔ شام ، فلسطین ، کشمیر ، برما اور ہندوستان کے ساتھ ساتھ دنیا کی سپر طاقت اور اختیارات رکھنے والے ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کوآج چاروں جانب سے دہشت گردی اور انتہا پسند ہونے کے الزام کا سامنا ہے۔ جرمنی میں بھی مسلمان ان ہی مسائل سے دوچار ہیں۔ خوش قسمتی یہ ہے کہ اس ملک میں ایک بڑا طبقہ اس مذہبی اور قومی تعصب کے خلاف ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جرمنی کے حالیہ انتخابات میں کئی پارٹیوں اور یورپی ممالک کی مخالفت کے باوجود بھی انجیلا میرکل نے چوتھی بار جرمنی کی چانسلر بننے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ ڈاکٹر انجیلا میرکل نے مصیبت زدہ انسانوں کے تحفظ و خانہ جنگی کا شکارمعاشرے میں امن و استحکام کی جو غیرمتعصبانہ عملی کوششیں کی ہیں وہ قابل ستائش ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امن پسند جرمن ،جرمنی میں آباد اقلیتوں اور بالخصوص مسلمان طبقے کے افراد مستقبل میں بھی انجیلا میرکل کو ہی ملک کا سربراہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ یاد رہے کہ انجیلا میرکل اپنے اس اقدام کی وجہ سے نہ صرف یورپی یونین بلکہ اپنے ملک کی سیاسی جماعتوں اور خود اپنی سیاسی جماعت کی جانب سے بھی تنقید کا شکار رہی ہیں۔
شامی پناہ گزینوں کی آمد کے بعد جرمنی میں سیاسی ، سماجی اور معاشی سطح پر کافی تبدیلیاں آئی ہیں۔ ایف ڈی پی جیسی دائیں بازو کی جماعت نے ملک کی سیاست میں اپنا مقام مضبوط کرکے ملک میں نسلی و مذہبی تعصب کی فضا کو پروان چڑھانے کی کوشش کی ہے۔ جرمنی میں یہ اسلام مخالف اور مہاجروں کے خلاف ابھرنے والی سیاسی جماعت یہاں کے کئی صوبوں میں حیران کن حد تک کامیاب رہی ہے۔
جرمنی میں 24 ستمبر 2017ءکوپارلیمنٹ کی 631نشستوں کے لئے پارلیمانی انتخابات منعقد ہوئے جس میں جرمنی کی برسراقتدار کرسٹ ڈیموکریٹک یونین اور حزب مخالف سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ ساتھ کئی سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا۔ جس میں دائیں بازو کی جماعت ایف ڈی پی ، گرین پارٹی اور اے ایف ڈی بڑی سیاسی قیادت کے طور پر سامنے آئیں۔اس انتخاب میں اے ایف ڈی نے بھر پور کامیابی حاصل کر کے ملک کی تیسری بڑی سیاسی قوت کے طور پر خود کو منوا لیا ۔ اس پارٹی کا ایجنڈا اسلام کی مقبولیت اورجرمنی میں مہاجروں بڑھتی ہوئی تعداد کو روکنا ہے۔ انتخابات سے قبل چلائی گئی تحریک میں انہوں نے کھلم کھلا حکومت اور اداروں سے مطالبہ شروع کر دیا تھا کہ جرمنی میں آنے والے پناہ گزینوں کی مسترد کردہ درخواستوں پہ جلد از جلد کارروائی مکمل کرکے انہیں ان کے ملک واپس بھیجا جائے اور مستقبل میں یورپ کی سرحدوں کو مکمل بند کرتے ہوئے ان سے غیر قانونی طور پر داخل ہونے والوں کو سخت سزا دی جائے۔
گزشتہ برس شام میں جاری خانہ جنگی کے بعد شامی پناہ گزینوں کے ساتھ ساتھ ترکی، پاکستان اور افغانستان کے پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد نے 2015ءمیں بلقان ممالک کے راستے جرمنی کا رخ کیاتھا۔ان پناہ گزینوں میں شامی پناہ گزینوںکے علاوہ دیگر ممالک کے90 فی صد معاشی پناہ گزین تھے جن کو رفتہ رفتہ ان کے ممالک اور جہاں انہوں نے اپنی پہلی پناہ کی درخواست دی تھی، وہاں واپس بھیجا جارہا ہے۔ برسر اقتدار سیاسی جماعت سی ڈی یو اور حکومت نے ان پناہ گزینوں کی آمد کے اس بحران کے نتیجے میں سیاسی طور پر کئی مقامات پر جواں مردی کے ساتھ مقابلہ کیا۔ ملک کو سماجی اورمعاشی مسائل سے نکالنے کے لئے قابل دادمنصوبوں پہ نہایت فراخدلی کے ساتھ کام کیا۔ 
سیاسی سطح پر حزب اختلاف سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے بھی جرمنی میں سماجی طور پر پناہ گزینوں کے لئے کئی اہم پراجیکٹس شروع کئے ہیںجن کی وجہ سے مارٹن شولز جو کہ مخالف پارٹی کے چانسلر کے عہدے کے امیدوارتھے، اس انتخاب کے غیر متوقع نتائج سے بہت فکر مند ہیں۔ انہوں نے اے ایف ڈی کو اپوزیشن میں مستحکم پوزیشن بنانے سے روکنے لئے فوری طور پر اپنی پارٹی کو اپوزیشن کی بنیادی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ ساتھ ملک کی دیگر سیاسی جماعتیں بھی اے ایف ڈی کی اس مضبوط پوزیشن میں کامیابی حاصل کرنے پر فکر مند ہیں۔ گزشتہ حکومت کی جانب سے پناہ گزینوں کے لئے ان کے جاری کردہ پروگرام میں بہت سی سماجی مراعات کے ساتھ ساتھ زبان سیکھنے اور صحت و تعلیم حاصل کے لئے بھی کئی کئی منصوبے شروع کر رکھے تھے۔ 
گرین پارٹی ماحولیات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ عوام کی سہولتوں کے لیے بھی انتخابی مہم میں کئی پروگرام متعارف کروا رہی ہے۔ حالیہ انتخابات میں بر سر اقتدار پارٹی کے ساتھ ساتھ تمام سیاسی جماعتوں نے عوام سے پر زور درخواست کی تھی کہ وہ اے ایف ڈی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو رد کرنے کے لئے بھی اپنے ووٹ کا حق استعمال کریں اور ووٹ ضرور ڈالیں۔ 2013 ءکے انتخابات میں71 فی صد ووٹ ڈالے گئے تھے جبکہ اس سال ووٹوں کی تعداد پچھلے انتخابات سے زیادہ رہی ۔تقریباً83 فیصد شہریوں نے انتخاب میں حصہ لیا لیکن اس کے باوجود ان اضافی ووٹوں کا فائدہ اے ایف ڈی کو حاصل ہوا۔
جرمنی میں اس وقت 3.1 ملین تارکین وطن آباد ہیں اوران میں ترک مسلمان بہت بڑی تعداد میں پہلے سے موجود ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق امسال 7 لاکھ30 ہزار ترک مسلمانوں نے یہاں انتخاب میں حق رائے دہی استعمال کیا ہے۔مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث جہاں مسلمانوں کے مثبت تشخص کی تصدیق ہو رہی ہے وہیں تعصب پسند اورمسلمان مخالف طبقے میں نفرت اور انتشار کی فضا بھی پروان چڑھا رہی ہے۔
آج جرمنی میں منعقد ہونے والے انتخابات صرف جرمنوں کے لئے ہی نہیں بلکہ یہاں بسنے والے مسلمانوں اور اقلیتوں کے لئے بھی بہت اہم ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ یورپ کا سب سے مستحکم ملک جرمنی اپنے نئے انتخابات کے بعد یورپ میں مسلمانوں کی صورتحال سے متعلق اپنی خارجہ پالیسی کیا مرتب کرتا ہے اور اس کے اثرات کس طرح یہاں کے معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں۔اس سے قبل یورپ میں فرانس اور برطانیہ میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں جو مرکزی قیادتیں سامنے آئی ہیں، وہ کسی بھی طور اسلام دوست نہیں۔ اس حوالے سے جرمنی کے انتخابی نتائج یورپ میں مسلمانوں کی مجموعی صورتحال پراپنا گہرا تاثر رکھتے ہیں۔
 
 
 
 
 

شیئر: