Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بے پھل کے درخت لگانا اجتماعی نا سمجھی ہے، راحیلہ منہاس

 
 سڑکوں کے اطراف پھلدار درخت لگائے جائیں، ہوا کے دوش پرگفتگو 
زینت شکیل۔جدہ
    خالق کائنات نے دو عالم کو لفظ ”کن“ سے پیدا فرماکر اس کے ذرے ذرے میں راز ہائے سربستہ کی ایک دنیا چھپادی اور اس میں امکانات کا ایک لامتناہی خزانہ پوشیدہ فرمادیا۔ وہ بات جو منشائے قدرت کے پس منظر میں تھی، آدم علیہ السلام کی تخلیق فرما کر کائنات کے ذرے ذرے کا علم اس کے امکانات کی دنیا میں منتقل فرما دیا۔ اس طلسم کائنات کے سر بستہ رازوں کی عقدہ کشائی اور پھر ان پوشیدہ خزانوں کا استعمال، ان سے اسی کائنات کی آرائش و زیبائش ،یہ انسان کا عمل ہے۔ 
کائنات کی ہر چیز توازن میں قائم ہے اور انسان کی زندگی میں بھی اسی وقت توازن پیدا ہوتا ہے جب ریاست میں توازن ہو اور وہ 
اسی صورت ممکن ہے جب معاشرے میں موجود ہر طبقہ اپنی ذمہ داری پوری کرے۔  ایک فرد اپنے ارد گرد کے ماحول سے الگ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
  محترمہ راحیلہ منہاس کا کہنا ہے کہ کسی بھی قوم کی ترقی میں زراعت کا شعبہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جب انسان کی بنیادی ضروتیں پوری ہو رہی ہوں تو وہ ذہنی یکسوئی سے معاشرے کی بھلائی کا کام بہتر طور پر سر انجام دے سکتا ہے۔ 
زراعت کا شعبہ ریاست کے لئے سب سے اہم ہوتا ہے کیونکہ ہرانسان صنعت وحرفت میں اپنی ذہانت استعمال کرتا ہے لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب ایک صحت مند جسم میں اعلیٰ دماغ موجود ہو اور اس کے لئے اچھی آب وہوا کے ساتھ بہترین خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام ترقی یافتہ ممالک اپنی ریاست کے افراد کے لئے خوراک کا انتظام خود کرتے ہیں اور اپنے گاﺅں دیہات کو آباد کرتے ہیں، انہیں سہولتیں بہم پہنچاتے ہیں۔
 راحیلہ منہاس صاحبہ نے ہائی اسکول مکمل کرتے ہی مختلف یونیورسٹی کے مختلف کورسز میں داخلہ لے لیا۔ اس طرح انہوں نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، ہمدرد یونیورسٹی سے ہوم اکنامکس اور ہومیوپیتھی کا کورس کیا جبکہ جدید یعنی نیو ٹیکنالوجی ایگریکلچرل شعبے میں ڈپلومہ بھی حا صل کیا۔ اس سلسلے میں انکا کہنا ہے کہ زراعت میں نئے رجحانات کے تحت ترقی اسی وقت ممکن ہے جب یہ سب علم ان کاشتکاروں کو مہیا کیا جائے جو جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی زمین میںاناج اور دیگر فصلیں بوئیں۔ اس ضمن میں نئی تکنیک اختیار کریں۔ جو ریسرچ ورک ہوا ہے یا ہو چکا ہے اس کو ان کاشتکاروں تک پہنچانا بھی ایک مرحلہ ہے ۔اس کے لئے ان کی مقامی زبان میں شائع شدہ پمفلٹس ان تک پہنچیں۔ اس کے علاوہ مختلف سیمینار زاور ورک شاپس کے ذریعے ان کو اس جدید ٹیکنالوجی سے آگاہی دی جاسکتی ہےٹ
 راحیلہ منہاس سرکاری شعبہ¿ زراعت میں آفس اسسٹنٹ ہیں ۔ انہوں نے باغبانی پر ایک کتاب بھی لکھی ہے جس میں آگاہی دی گئی ہے کہ کس طرح کم جگہ ،مٹی اور پانی میں پودے اگائے جاسکتے ہیں۔ 
کسی مفکر کا قول ہے کہ ”وہ قوم سرعت سے ترقی کی منازل طے کرتی ہے جو کفایت شعاری اپناتی ہے اور سستی وکاہلی سے دور رہتی ہے۔“ 
گھر پر بھی بہت کام ہوتے ہیں، اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں لیکن مہینے میں کم از کم 2ویک اینڈز اس کام کےلئے مختص کریں کہ اپنے گھر کے لان میں یا گیٹ کے باہر پھولوں کی کیاری کی دیکھ بھال خود کریں گے۔کوئی پھل دار درخت ضرور لگائیں گے، کم ازکم 3 فٹ کی کیاری کو سبزی اور پھل کے لئے استعمال میں لائیں گے۔ اپاٹمنٹ میں رہنے والوں کے لئے مناسب ہوگا کہ وہ گیلری جہاں دھوپ آتی ہو، وہاں مستطیل گملے میں موسمی سبزیاں لگائیں۔ کچھ اور نہیں تو ہرا دھنیا،پودینہ، ہری مرچ اور کھیرا ، ٹماٹر تو ضرور اُگائے جاسکتے ہیں۔ آپکا یہ کچن گارڈن دوسر ے رشتہ دار احباب اور محلے والوں کو ایک صحتمند اور فائدہ مند مشغلہ کی طرف راغب کرے گا اور پھر اس طور سے گھر کے بزرگوں سے باغبانی بچے بھی شوق سے سیکھیں گے ۔
 راحیلہ منہاس صاحبہ نے اس اہم مسئلے کی بھی نشاندہی کی کہ روزمرہ کے کاموں کی انجام دہی کے لئے جب لوگ باہر جاتے ہیں تو ٹریفک کی وجہ سے تناﺅ کا اتنا شکار رہتے ہیں کہ اکثر منزل مقصود تک پہنچنے تک موڈ خراب ہو چکا ہوتا ہے۔ کبھی ہم نے اس بات پر غور کیا کہ آجکل لوگ،بے حد ذہنی کوفت میں رہتے ہیں ۔آخر اس ذہنی تناﺅ کی اصل وجہ کیاہے؟ کیا چھوٹے کیا بڑے، سبھی شہروں میں ہر سہولت موجود ہے پھر بھی یہ تناو کس لئے، اس کا جواب یہی ہے کہ اس کی وجہ ملک میں موجود وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہے جس کے باعث امیر، 
امیر ترین ہو گیا اور غریب، غربت کی آخری سطح تک جا پہنچا ہے ۔
  ہمیں بڑے بڑے منصوبوں کی طرف بعد میں متوجہ ہونا ہے ابھی تو فقط چھوٹے چھوٹے ہدف بنانے اور اس کو انجام تک پہچانے کی ضرورت ہے ۔ راحیلہ منہاس کا کہنا ہے کہ جنگلات کاٹنے سے ماحول کی حدت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ اتنی ہی تعداد میں نئے درخت لگائے جائیں۔
ٹریفک کا دھواں اور دھوپ کی تپش اور اس پرطرہ سڑک پر گاڑیوں کا رش ۔ ایسے میں اگر کسی کی گاڑی ذرا سی ٹکرا گئی تو ماحولیات کی حدت دونوں ڈرائیوروں کے تندوتیز لفظی مجادلہ سے ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہے ۔  راحیلہ منہاس صاحبہ کا مشورہ ہے کہ ٹریفک کے دھوئیں سے بچنے کے لئے سڑک کے دونوں اطراف پھل دار درخت لگائے جائیں۔ آجکل جو بغیر پھل والے درخت لگائے جا رہے ہیں ان کے اونچے لمبے پتلے سے تنے پر معمولی تعداد میں پتے نمودار ہوتے ہیں اور ہم اس کو خوبصورتی کے لئے لگاتے ہیں۔بھلا بتائیے ایسے درخت سے نہ تو مسافروں کو سایہ میسر آ سکے گا اور نہ ہی اس میں پرندوں کےلئے گھونسلے بنانے کی جگہ ہو گی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم اجتماعی طور پر ناسمجھی کا ثبوت دے رہے ہیں ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سڑکوں کے دونوں اطراف پھل دار درخت لگائے جائیں جیسے کہ آم، بیر اور امرود ، جامن وغیرہ۔ اس سے ٹریفک سے پیدا ہونے والا دھواں ختم ہو گا اور صحت بھی اچھی رہے گی ۔مسافروں کو سایہ اور پرندوں کو گھونسلے بنانے کی جگہ میسر آئے گی۔ 
محترمہ راحیلہ ہر جگہ نیم کے درخت لگانے کا مشورہ دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نیم چونکہ یہ اینٹی سیپٹک ہے اس سے بیماریوں میں کمی واقع ہوتی ہے ۔ نیم کا درخت جہاں جہاں ہوتا ہے ،وہاں دور دور تک ہوا میں جراثیم نہیں ہوتے۔ اس میں پانی کم استعمال ہوتاہے اور اس سے نمونیہ کا علاج بھی ہوتا ہے۔ 
محترم اسلم اختر اپنی ملازمت کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ شجر کاری مہم میں بھی بھرپور حصہ لیتے ہیں ۔ انکے تمام گھر والوں نے اپنی مدد آپ کے تحت کئی سال سے پھل دار درخت لگانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے ۔
اسلم اخترکے ساتھ ان کے صاحب زادے محمد امتصال اور محمد خیشام کے ساتھ صاحب زادی غزل بھی شجرکاری مہم میں پوری خوشی سے پیش پیش رہتی ہیں۔ بچوں نے اپنے گھر اور اسکول کے راستے میں کئی درخت لگائے ہیں جنہیں وہ باقاعدگی سے روزانہ پانی دیتے ہیں اور یہ ”خدمت“ فراموش نہیں کرتے۔ وہ گھر سے نکلتے وقت اپنے ساتھ پانی کی بوتل لے جاتے ہیں تاکہ درختوں میں پانی دے سکیں۔ تینوں بچے اپنی سالگرہ والے دن نیا درخت ضرور لگاتے ہیں ۔
اسلم اختر صاحب معاشرے کی بہتری کے لئے کئے جانے والے ہر اقدام میں بھر پور ساتھ دیتے ہیں، تعاون کرتے ہیں۔ اسی سلسلے میں ہر اسکول انتظامیہ کے لئے انکابہترین مشورہ ہے کہ ہر بچے کو اس کی سالگرہ یادرلانے کے لئے اور اس موقع پر خوشی منانے کے لئے ان سے اس دن ایک پھل دار درخت انکے گھر سے اسکول کے راستے میں لگوایا جائے۔ یہ طلبہ وطالبات کے لئے کافی اہم اور پرجوش دن ہوگا ۔وہ بڑے ہوکر یاد کریں گے کہ فلاں جگہ پر فلاں پھل کا درخت ہم لوگوں نے لگایا تھا۔ یقینی طور پر ہر ایک کو معلوم ہے کہ درخت لگانا صدقہ¿ جاریہ ہے۔
راحیلہ منہاس صاحبہ میڈیا کو آرڈینیٹر کی ذمہ داری بھی ادا کر رہی ہیں اور اس میں گاوں دیہات جہاں بھی ورکشاپ یا کانفرنس یا این جی اوز کے ہمراہ کام کرنا ہو، انکے شوہر بھرپور سپورٹ کرتے ہیں ۔
باغبانی پر راحیلہ صاحبہ کی لکھی ہوئی کتاب بہت کارآمد ہے۔معروف این جی او کے ساتھ ملکرجتنے تحقیقاتی کام کئے وہ سب کامیاب ہوئے ۔انکا کہنا ہے کہ عوام کا سب سے زیادہ پسندیدہ پھل ”آم“ شمار ہوتا ہے ۔ لوگوں کو یہ پھل ضرور کھانا چاہئے لیکن اسکی گٹھلیوں کو منہ نہ لگائیں کیونکہ وہ گٹھلیاں جن سے منہ لگا لیا گیا ہو، ان سے بہترین درخت کی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔ 
محترمہ راحیلہ منہاس اور انکے شوہر اسلم اختردونوں کو مزاح نگار کی حیثیت سے انور مقصود بے حد پسند ہیں۔ اس حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ انور مقصود کے پرانے تمام پروگرام آج بھی انہیںنئے معلوم ہوتے ہیں۔ معین اختر جیسے افسانوی شہرت کے حامل اداکار ، فنکار کی کمی بے انتہاءمحسوس ہوتی ہے ۔ معین اختر کے دنیا سے چلے جانے کے بعد تو یوں لگتا ہے کہ مزاح کی دنیا میں خلا پیدا ہو گیا ہے جو شاید اب کبھی پُر نہیں ہو سکے گا۔
ڈراموں کے مصنف اشفاق احمد اور آپابانو قدسیہ بھی انہیں بہت پسند ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہم دونوں کو فیض احمد فیض کی شاعری اچھی لگتی ہے جبکہ پروین شاکر کی شاعری تو دل موہ لیتی ہے۔ 
راحیلہ منہاس صاحبہ نے بتایا کہ ہماری والدہ جمیلہ خاتون نے ہماری شخصیت میں اس بات کی اہمیت سب سے زیادہ بتائی کہ صبر کے ساتھ محنت کرتے رہو، یوںکامیابی ضرور ملے گی۔ والد ضیاءالدین منہاس نے ہمیں اس امر کی طرف متوجہ کیا کہ کسی سے کوئی وعدہ کرو تو اپنے اوپر لازم کرلو کہ اپنا کہا ہر حال میں پورا کرنا ہے۔اگر آپ کویہ علم بھی ہو کہ وہ شخص جس سے آپ نے وعدہ کیا تھا وہ آپ سے کوئی سوال نہیں کرے گا پھر بھی آپ کواپنی زبان کا پاس کرنا چاہئے ۔ اسی لئے جو لوگ اپنے کہے ہوئے الفاظ پر قائم رہتے ہیں اور اسے پورا کرتے ہیں، وہ دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ۔
 
 
 
 
 
 

شیئر: