Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بزمِ اِدراک کی ”بے جان پیادہ“کیلئے تنقید ی نشست

ایوب صابر کے افسانے پر شرکاءکا اظہار خیال،اقبال احمد قمرنے صدارت کی
ادب ڈیسک۔ الخبر
   اردو ادب ایک سمندر ہے جس میں شاعری اور نثری تخلیقات شامل ہیں ۔ ادب کی ترویج اور معیار کی بلندی کے لئے اہل ِ فکرو دانش کسی ایک پلیٹ فارم پر بیٹھ کر ادب پاروں کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں تاکہ باریک بینی سے مثبت اور مدہم پہلوﺅوں کا تجزیہ کیا جائے۔ منطقہ شرقیہ سعودی عرب ،شعری اور تنقیدی نشستوں کے اہتمام میں اپنی ایک تاریخ رکھتاہے ۔ گزشتہ ربع صدی سے یہ سلسلہ جاری ہے جس سے ادب کے نئے مسافر قافلے کا حصہ بن کر اپنی منزل کا سراغ پاتے ہیں۔
بزمِ اِدراک سعودی عرب کے زیرِاہتمام تنقید ی و شعری نشست کا دہران کے ہوٹل میں اہتمام کیا گیا۔ نشست کی صدارت کہنہ مشق شاعر و خاکہ نگار اور اوورسیز پاکستانی رائٹرز فورم کے روحِ رواں شعری مجموعہ کلام ”شام کی زد میں “ کے خالق استاد شاعر اقبال احمد قمر نے کی۔ مہمانانِ خصوصی کی نشستوں پر بحرین سے تشریف آئے ہوئے ہردلعزیز و خلیجی ممالک کے مقبول شاعر اقبال طارق، منفرد لب و لہجے اور غیر معمولی صلاحیتوں سے مالامال شاعرہ سمن طارق، مترنم لہجے کے شاعر و بزم ِ اردو ادب الاحساءکے صدر حکیم اسلم قمر اور نامور ماہر تعلیم اور فارسی دان و جی سی یونیورسٹی لاہور کی پروفیسر اقصیٰ ساجد تشریف فرما تھے۔ نظامت کے فرائض نامور شاعر ،فکاہ نگار و افسانہ نگار محمد ایوب صابر نے اپنے انداز میں اد ا کئے۔ نشست دو حصوں پر مشتمل تھی ، پہلے حصے میں محمد ایوب صابر کا افسانہ ” بے جان پیادہ “ تنقید کے لئے پیش کیا جبکہ دوسرے حصے میں شاندار محفلِ مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا۔ 
   نشست کے آغاز میں ایوب صابر نے تمام شرکاءکا استقبال کیا اور اپنے استقبالیہ کلمات میں کہا کہ ادب ایک ندی کی طرح ہے ، یہ ندی بہتی رہے تو پیاسی کھیتیاں سیراب ہوتی رہیںگے۔ یہ نشستیں ادب کی ترویج کے لئے منعقد کی جاتی ہیں ۔اب محمدایوب صابر نے اپنا افسانہ ”بے جان پیادہ“ تنقید کے لیے پیش کیا جسے تمام شرکا نے انہماک سے سنا۔
افسانے پر اپنی رائے پیش کرتے ہوئے عامر عبداللہ نے کہا کہ مجھے یہ افسانہ سن کر وہی باتیں یاد آگئیں جومیرے والد صاحب تقسیم ہند کے وقت ہندوستانی پنجاب کے شہر لدھیانہ سے ہجرت کے تذکرے میںکرتے تھے ۔ اُن کی آخری وقت تک خواہش تھی کہ اپنا آبائی وطن دیکھیں۔ مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ افسانے میں میرے والد صاحب کی کہانی بیان ہو رہی ہے۔ 
اروج عامر نے کہا مجھے یہ افسانہ بہت پسند آیا ،یہ عام تحریروں سے مختلف لگا۔ دانش نذیر دانی نے کہا کہ مجھے اِس افسانے کی منظر نگاری نے متاثر کیا ۔ میں نے ایوب صابر کے افسانوی مجموعے”آنگن کی خوشبو“ سے تمام افسانے پڑھے ہیں ۔ یہ افسانہ پڑھتے ہوئے وہ مناظر میری نظروں کے سامنے گھوم رہے تھے جہاں سے لکھبیر سنگھ گزرا تھا۔ تقسیمِ ہند سے سب سے زیادہ متاثر پنجاب میں رہنے والے سکھ اور مسلمان ہوئے تھے۔ معراج الدین صدیقی نے کہا کہ افسانے کی منظر کشی قابلِ تعریف ہے جس طرح لکھبیر سنگھ اپنے آبائی وطن سے لگاﺅ اور اپنے دوست غلام مصطفےٰ سے ملتا ہے وہ ماحول بہترین پہلو تھا۔ وقار صدیقی نے کہا کہ افسانے کا موضوع بہت حساس تھا ۔ ویسے اس موضوع پر پہلے بھی اظہار ہو چکا ہے ۔ اس افسانے میںالفاظ کا چناﺅ اور منظر نگاری بہت اعلیٰ تھی۔ جذبا ت کے اظہار کے لئے منظر کشی بہت شاندار تھی ۔ مجھے ایسے لگا کہ ایوب صابر نے جالندھر سے واہگہ کا سفر خود بھی کیا ہے۔ مجھے یہ افسانہ ایک سفر نامہ لگا ۔ داﺅد اسلوبی نے کہاکہ یہ ایک بہترین افسانہ ہے۔ ملک تقسیم ہوا لیکن محبت تقسیم نہیں ہو سکتی۔ یہ انسان کی فطرت ہے کہ اپنے پیدائشی مقام سے بہت محبت کرتا ہے۔شیراز مہدی ضیاءنے کہا افسانے کا مرکزی کردار لکھبیر سنگھ ہے لیکن میری رائے میں اس کے دو مرکزی خیال ہیں ، ایک لکھبیر اور دوسرا لکیر۔افسانہ سنتے ہوئے پُر لطف کیفیت تھی۔ میرے خیال میں جب لکھبیر سنگھ ستر سال بعد اپنے آبائی گھر گیا اور بچپن کے دوست سے ملا تو اِس میں جذبات کا اظہار مزید کیا جا سکتا تھا۔ 
  ڈاکٹر عابد علی نے کہا کہ افسانے کی منظر کشی سے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے میں اسکرین پر فلم دیکھ رہا ہوں ۔ اس افسانے میں تاریخی پس منظر بھی بیان کیا گیا ہے۔ میں چار سال بعد منطقہ شرقیہ واپس آیا ہو تو یقین نہیں آ رہا کہ یہ وہی ایوب صابر ہیں جنہیں میں چار سال پہلے چھوڑ کر گیا تھا۔ افضل خان نے کہا کہ ایوب صابر نے پرانے موضوع کو جس طرح نئے انداز میں ڈھالا ہے ، میں افسانہ سنتے ہوئے اِس میں کھو گیا تھا اور لطف اندوز ہوا۔ یہ ایک متاثر کُن افسانہ ہے اور ایوب صابر کی نثر پر گرفت بہت مضبوط ہو گئی ہے۔ 
تنویر احمد تنویر نے کہا یہ دل کو چھو لینے والا افسانہ ہے۔ اپنی مٹی سے محبت انسانی فطرت ہے ۔ ہر شخص کے دل میں اپنی مٹی اور اپنی دھرتی سے پیار اور محبت قدرتی ہے۔ ایوب صابر نے ایک سچے واقعے کو جذبانی انداز میں پیش کیا ہے۔ میں نے ایک دفعہ ایوب صابر سے سوال کیا تھا کہ کیا آ پ نے جالندھر دیکھا ہے؟ کیونکہ آپ نے وہاں کی جو منظر نگاری کی ہے اُس کو بغیر دیکھے بیان کر مشکل ہے، تو انہوں نے کہا ” یہ سب میری تحقیق ہے“۔ 
پروفیسر اقصیٰ ساجد نے کہا کہ وطن سے محبت ایک فطری جذبہ ہے جس کو ایوب صابرنے اپنے انداز میں بیان کیا ہے ۔ اِس کے علاوہ منظر نگار ی اور جزئیات نگار ی اِس افسانے کا حُسن اور کمال ہے۔ ان کی تحقیق افسانے سے ظاہر ہو رہی ہے ۔ انہوں نے پنجاب کی ثقافت اور روایتی مہمان نوازی کا ذکر کیا ہے ۔لکھبیر سنگھ کے گھر سے سونے کا ہار ملا جسے لکھبیر سنگھ اور رانا نیاز ایک دوسرے کو دینا چاہتے تھے۔ یہ پنجاب کی ثقافت کا گہرا رنگ ہے۔ سمن طارق نے کہا کہ یہ موضوع بے شک پرانا ہے لیکن ہجرت کا احساس کبھی پرانا نہیں ہوتا اور انسان کے جذبات بھی پرانے نہیں ہوتے، جذبات کے انوکھے اظہار کی وجہ سے افسانے میں نیا پن محسوس ہوا۔ اس افسانے کی منظر نگاری مرکزی کردار کے جذبات کو بیان کر رہی ہے۔ لکھبیر سنگھ بس میں بیٹھ کر ماضی کی طرف کھو گیا تھا ۔ افسانے کا اختتامیہ بہت مضبوط تھا یہی وجہ ہے کہ تمام شرکاءمحفل محظوظ ہوئے۔ 
حکیم اسلم قمر نے کہا کہ میں ایوب صابر کا افسانہ سن کر حیران ہوا ۔ ایک دفعہ انہوں نے اپنے ایک افسانے کا نچوڑ مجھے سنایا تھا تو میں نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آپ شاعر ہیں یہ کہاں افسانے کے چکر میں پڑ گئے لیکن آج ان کا افسانوی سفرد یکھ کر اور جس جانفشانی سے انہوں نے سفر طے کیا ہے میں انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں اور افسانہ سنتے ہوئے ایسا لگ رہا تھا کہ ایوب صابر اور لکھبیرسنگھ ایک ساتھ سفر میں تھے۔ 
اقبال طارق نے کہا کہ اس افسانے میں سرحد ی لکیر کی بات کی گئی ہے اور میں کہنا چاہتا ہوں کہ جس طرح دکھ دائمی ہوتے ہیں اسی طرح کچھ موضوعات پرانے نہیں ہوتے۔ دکھ انسان کے اندر بسا رہتا ہے۔ایوب صابر نے لکھا ہے کہ لکھبیر سنگھ گرمجوشی سے پاکستان آیا اور مرنے کے بعد سرد خانے میں پہنچ گیا۔ یہ کمال کی منظر نگاری ہے۔ 
اقبال احمد قمر نے کہا میں نے اس افسانے کی بنیاد بننے والا سچا واقعہ اخبار میں پڑھا تھا لیکن اس واقعے کو افسانے میں تبدیل کرنا کمال ہے۔ ہم واقعات کو دیکھتے ہیں اور بیان بھی کرتے ہیں لیکن واقعہ صرف واقعہ ہی رہتاہے، ایوب صابر نے اُسے افسانہ بنایا ہے۔ اس افسانے میں باقاعدہ تحقیق نظر آ رہی ہے اور بے پناہ منظر نگاری ہے ۔ میں ایوب صابر کو افسانہ لکھنے اور ”آنگن کی خوشبو“ کی اشاعت پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اقبال احمد قمر نے صدارتی کلمات میں تنقیدی نشست کے اہتمام کو سراہتے ہوئے کہا کہ ان نشستوں میں جہاں ادب پروان چڑھتا ہے، وہیں یہ احباب کے درمیان ملاقاتوں کا بہانہ ہوتی ہیں۔ یہ سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی تنقیدی نشست کا دور ختم ہوا اور محفلِ مشاعرہ کا آغاز ہو گیا۔
شعری نشست میں شعرا ءنے اپنے تازہ کلام سنانے کی تیاری کر لی تھی۔ شعرا اپنی شعری زنبیل سے اشعار کے موتی محفل میں نچھاور کررہے تھے اور ہر طرف وا ہ واہ ،مکرر اشاد کی آوازوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ہر شعر داد کی شکل میں اپنا خراج وصول کر رہا تھا۔ اس نشست میں اسٹیج کے علاوہ کوئی تقدیم و تاخیر نہیں ہوتی۔ ہر شاعر جس ترتیب سے بیٹھا ہوتا ہے اُسی ترتیب سے اپنا کلام پیش کرتا ہے۔اِس نشست میں شعر کو انہماک سے سنا جاتا ہے اور دل کھول کر داد دی جاتی ہے، یہی اس نشست کی روایت ہے۔ عامر عبداللہ ، معراج الدین صدیقی، دانش نذیر دانی، داﺅد اسلوبی، ڈاکٹر عابد علی، وقار صدیقی، شیراز مہدی ضیا، محمد ایوب صابر، افضل خان، تنویر احمد تنویر، سمن طارق، حکیم اسلم قمر، اقبال طارق اور اقبال احمد قمر نے اپنا کلام پیش کیا۔ اس طرح یہ یادگار اور شاندار نشست اختتام پذیر ہوئی۔ قارئین کے ادبی ذوق کی تسکین کےلئے شعرا کے کلام سے نمونے کے طور پر اشعار پیش ہیں:
٭٭عامر عبداللہ:
خلش دل میں ایسی کہ جاتی نہیں ہے
تری یاد اب کیوں ستاتی نہیں ہے
اگر سچ ہے جو کچھ بھی اُس نے کہا ہے
کیوں آنکھوں سے آنکھیں ملاتی نہیں ہے
٭٭معراج الدین صدیقی:
 جو چہرے پہ چہرہ وہ ڈالے ہوئے ہیں
یہ سانپ آستینوں کے پالے ہوئے ہیں
ملے گھر میں شوہر کو نوکر کا درجہ
سمجھ لو کہ سالے سنبھالے ہوئے ہیں
٭٭دانش نذیر دانی:
تیری بلا سے گھر میرا آباد ہو نہ ہو
جا تجھ کو اختیار ہے آزاد ہو نہ ہو
٭٭داﺅد اسلوبی:
کہیں بھی مجھ کو مرا گھر نظر نہیں آتا
خیال و خواب کا منظر نظر نہیں آتا
دلوں کے بیچ ہے اک فاصلہ سا نفرت کا
خلوص و پیار کا ساگر نظر نہیں آتا
٭٭وقار صدیقی:
حُسن ِ تما م و عشق مکمل بنے ہوئے
 پھر سانحاتِ زندگی دہرا رہے ہو تم
٭٭شیراز مہدی ضیا:
ایسا لگتا ہے اِس جہان میں گر ایک تُو نہ ہو
رنگ اور بُو کے ہوتے ہوئے رنگ و بُو نہ ہو
٭٭ڈاکٹر عابد علی:
سفر کا اس طرح آغاز کرنا
پروں کو باندھ کر پرواز کرنا
زمانہ پیٹ کا ہلکا ہے عابد
کسی کو مت یہاں ہمراز کرنا
٭٭محمدایوب صابر:
بدلتے موسموں کا اب تو ہم تاوان دیتے ہیں
ہمارے شہر میں آب و ہوا نیلام ہوتی ہے
نیا فرمان ہے کہ زندگی کو مفت مت سمجھو
میں کیسے سانس لوں بادِ صبا نیلام ہو تی ہے
٭٭افضل خان:
وہ کہیں دستک نہیں دے گا گزر بھی جائے گا      
ہم گلی کی کھڑکیوں سے جھانکتے رہ جائیں گے
دل ہی ٹوٹے گا قیامت تو نہیں آ جائے گی
قربتوں کے درمیاں بس فاصلے رہ جائیں گے      
٭٭تنویر احمد تنویر:
اپنی تھی دوستی کبھی فولاد کی طرح
اب بن گئی ہے دوستو افتاد کی طرح
تُو نے قدم قدم پہ نئے غم دیئے ہمےں
 رکھے ہےں سب سنبھال کے اولاد کی طرح 
٭٭سمن طارق:
 زیست کے اندھیروں میں یہ دیے ضروری تھے
تم سے آشنائی کے سلسلے ضروری تھے
خونِ دل جو ٹپکایا تب غزل کہیں مہکی
آپ نے تو سمجھا بس قافیے ضروری تھے
٭٭حکیم اسلم قمر:
رہنا بھی تیرے شہر میں دشوار بہت ہے
جینا بھی ترے شہر میں دشوار بہت ہے
رکنا بھی اگر چاہیں تھکے ماندے مسافر
رکنا بھی ترے شہر میںدشوار بہت ہے
٭٭اقبال طارق:
خواہشوں کی کتاب تھے جب تھے
زندگی کا نصاب تھے جب تھے
اپنی انگلی پکڑ کے چلتے تھے
خود کو ہم دستیاب تھے جب تھے
٭٭اقبال احمد قمر:
کھیلتے تھے کبھی ہم مٹی سے
اب ملاقات ہے کم مٹی سے
چاند پر جانا کہاں مشکل ہے
گر چھڑا پائیں قدم مٹی سے
 
 
 
 
 
 

شیئر: