Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لمحہ فکریہ

امریکہ اور یہود وہنو دمسلمان طلبہ کوجدید تعلیم سے دور کر رہے ہیں ، اگر مسلمان اپنی مذہبی تعلیم بھی حاصل نہ کر سکیں تو وہ کیا کریں؟
* * * محمد مبشر انوار* * *
سانحہ 9/11کے بعد دنیا بھر میں آنی والی تبدیلیوں میں ایک واضح تبدیلی یہود و نصاریٰ کی طرف سے اسلامی شعائر اور عقائد کے حوالے سے تھی ،جسے وہ بتدریج عالم اسلام پر نافذ کرنا چاہتے تھے۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف اُس وقت فرنٹ لائن ا سٹیٹ کا کردار اداکر رہا تھا اور امریکہ نے 2003میں انتہا پسندی کا ذمہ دار دینی مدارس کو قرار دیتے ہوئے ،ان مدارس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا،جبکہ دوسری طرف مسلم طلبہ کیلئے جدید و اعلیٰ نصاب کی تعلیم کے دروازے بند کر دئیے گئے تھے اور غیر مسلم طلبہ (بالخصوص ہندوستانی)کو نہ صرف ان مضامین میں کھلے داخلے دئیے گئے بلکہ ان کے لئے ویزہ میں نرمی کے علاوہ فیسیں بھی معاف کی گئیں۔
دین اسلام میں تحریف کی کوششیں آج سے نہیں بلکہ اول روز سے ہی شروع ہیں اور سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور میں علمائے یہود و نصاریٰ پسماندہ علاقوں میں اپنی ان گھناؤنی حرکتوں میں مصروف رہے ہیں،جبکہ ڈیڑھ، دو صدی قبل تک برطانیہ جیسی ریاست (مختلف سوشل میڈیا پر وائرل اطلاعات)میں ایسے ادارے قائم رہے ہیں،جن کا مقصد ہی ایسے مسلم علماء کی تیاری رہی جو عام زندگی میں مسلم عوام کو گمراہ کر سکیں۔ قارئین کرام! 2004کے بعد ہندوستان میں قائم ان مدرسوں میں بھی ایسا ہی لائحہ عمل اپنایا گیا ہے جہاں علمائے کرام کے ہاتھوں فارغ التحصیل ہونے والوں میں صرف مسلم طلبہ ہی شامل نہیں بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ملازمین بھی شامل ہیں، جنہیں مسلم عوام کو گمراہ کرنے اور اسلامی تعلیمات میں تحریف کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ہو یہ رہا ہے کہ ایک مستند دینی ادارے کا فارغ التحصیل ، اپنا(حکومتی زیر سر پرستی)مدرسہ قائم کر کے اس میں جو چاہے کچے مسلم ذہنوں میں منتقل کر دے جس کے بعد اس کچے ذہن سے کوئی بھی کام ،کسی بھی وقت اور کسی بھی مقام بر لیا جا سکتا ہے۔ اگر بغور دیکھیں تو یہی وہ نسل ہے جس کے کچے ذہنوں پر ایسے دوغلے کرداروں نے قبضہ کر رکھا ہے اور انہیں مسلسل استعمال کرتے ہوئے نہ صرف انہیں گمراہ کر رہے ہیں بلکہ اسلام کا تشخص بری طرح بگاڑ رہے ہیں۔اس حوالے سے اکتوبر 2004میں لکھی گئی تحریر قارئین کی نذر کر رہا ہوں : جدوجہد آزادی کے دوران حضرت علامہ اقبال نے جس اسلامی فلاحی ریاست کا خواب دیکھا تھا اور جس کی تعبیر کے لئے بابائے قوم نے انتھک محنت سے کام کیا آج اس اسلامی ریاست کے اندر اسلام اور اسلامی شعائر کے ساتھ جو مذاق ہو رہا ہے وہ یقینابرصغیر کے ان دو عظیم رہنماؤں کی روحوں کو اذیت پہنچاتا ہوگا ۔ حضرت علامہ اقبال کے خوابوں میں جس اسلامی ریاست کا تصور تھا اور بابائے قوم کی سو چ کے مطابق اس خطۂ سر زمین کو اسلام کی عملی تجربہ گاہ بننا تھا یقیناپاکستان اس سے کوسوں دور ہے مگر افسوس کہ اسلام کے نظریے پر بننے والا یہ خطہ نہ تو اسلامی ہی بن سکا اورنہ ہی جمہوری اور نہ ہی سیکولر۔ جہاں تک آخر الذکر کا تعلق ہے تو یہ تو کبھی بھی مسلم رہنماؤں کا مطمح نظر نہ تھا اور وہ پاکستان کو حقیقتاً ایک اسلامی جمہوری ریاست بنانا چاہتے تھے۔آج کی صورتحال کے مطابق یہ خطۂ سر زمین، جسے اسلام کے نام پر بننے کا شرف حاصل ہے اور جو اسلام کا قلعہ کہلاتا ہے، اس خطے کے اندر دینی مدارس کی حالت انتہائی نا گفتہ بہ ہو رہی ہے۔
پاکستان میں قائم دینی مدارس بلا شبہ 11ستمبر سے قبل تک ساری دنیا کے مسلمانوں کے لئے اپنے در وا کئے ہوئے تھے اور مسلم ممالک سے دینی علوم کی پیاس بجھانے کے لئے طالبعلم پاکستان کا رخ کیا کرتے تھے اور یہ دینی مدارس ان طالبعلموں کی تشنگی دور کررہے تھے مگر 11 ستمبر کے حادثے کے بعد ساری دنیا میں دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے جن ٹھکانوں کی نشاندہی امریکہ نے کی ان میں یہی دینی مدارس تھے جہاں سے امریکہ کو دہشت گرد اور انتہا پسندملے لہذا ان مدارس اور ان میں پڑھنے والے طالبعلم امریکی نظروں میں کھٹکنے لگے اور حیلے بہانے ان مدارس کے گرد گھیرا تنگ کیا جانے لگا خصوصاً پاکستان کے دینی مدارس اس کی زد میں آئے ۔ غیر مسلم دنیا نے ان مدارس کو مسلم انتہا پسند پیدا کرنے کا قصور وار ٹھہرایا ۔ قطع نظر اس حقیقت کے کہ ان مدارس میں کتنے فیصدی ایسے مدارس ہیں جو انتہا پسندی کا سبق دیتے ہیں ۔تمام مدارس کو ایک ہی نظر سے دیکھا جا رہا ہے اور حکومت پاکستان پر زور دیا گیاہے کہ وہ ان مدارس کو کام کرنے سے روکے جس کے لئے وقتاً فوقتاً پاکستان میں امریکی مفادات کے نگہبانوں نے مختلف لائحہ عمل اختیار کرتے ہوئے ان مدارس کے دائرہ عمل کو محدود کرنا شروع کردیا۔ جب ان تمام بندشوں کے باوجود ان مدارس کو اپنی مرضی کی مذہبی تعلیم دینے کا پابند نہ کر سکے تو انہوں نے آخری حربے کے طور پر ان مدارس میں زیر تعلیم طلبہ کو (جائز و نا جائز) دہشت گردی اور انتہا پسندی کے شبہ میں حراست میں لینا شروع کر دیاجس کا مقصد ان مدارس میں خوف و ہراس ، غیر یقینی اور غیر محفوظ فضا پیدا کرنا تھا تا کہ ان مدارس کو اپنا تابع بنایا جا سکے۔
امریکہ اپنے ان مقاصد میں کلی طور پر تو کامیاب نہیں ہو سکا مگر ساری دنیا سے دینی تعلیم کے حصول کی خاطر پاکستان کا رخ کرنے والے طلبہ اب پاکستان کو اسلام کا قلعہ اور اپنا دوسرا گھر تصور کرنے کی بجائے اپنے لئے ایک چوہے دان تصور کرتے ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ 25ہزار طلبہ نے دینی علوم کے حصول کی خاطر ہندوستان کا رخ کر لیا ہے جبکہ10 ہزار طلبہ کو ہم نے ملک بدر کر دیا ۔ ممکن ہے ہندمیں ان طالبعلموں کی تشنگی ختم ہو سکے اور ہند پاکستان دشمنی میں دوسرے ممالک کے طلبہ کو بہتر ماحول فراہم کر کے عالمی برادری میں اپنے سیکولر ہونے کے امیج کو سچ ثابت کرے اور گجرات اور کشمیر میں اپنے انتہا پسند اقدامات پر پردہ ڈال سکے۔ مزید برآں ان مسلم ممالک سے اپنے روابط مزید بہتر بنائے اور جس طرح آج پاکستان ایران اور افغانستان جیسے ہمسایہ ممالک کی حمایت سے محروم ہے ویسے ہی اسے باقی مسلم ممالک میں تنہا کیا جا سکے کیونکہ پاکستان کے ان اقدامات سے پاکستان کے ان ممالک سے تعلقات میں لازماًتبدیلی یا سرد مہری آئیگی جس کا فائدہ ہند ہر صورت اٹھانے کی کوشش کر ے گا۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کو اس طرح امریکی احکامات کی تعمیل سے کیا ملا ہے اور کیا ملے گا؟جبکہ ہندوستان نے 11 ستمبر کے بعد سے اب تک جو بھی حکمت عملی اختیار کی ہے، اُس کا فائدہ وہ نقد اٹھا رہا ہے جو یکجہتی نہیں بلکہ ہمہ جہتی ہے۔اسلام کے قلعے میں دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ اگر انتہا پسند ہیں تو کیا ہندوستان میں مذہبی تعلیم حاصل کرنے والے انتہا پسند نہیں ہو ں گے؟ یا دارِالکفر میں مذہبی تعلیم حاصل کرنے والے جدید دور (امریکی خواہشات )کے عین مطابق اپنی مذہبی تعلیم حاصل کریں گے اور اگر وہی طلبہ کسی آزاد اسلامی ریاست میں اپنی مذہبی تعلیم حاصل کریں تو وہ انتہا پسند؟اس سوال کو اس زاویے سے دیکھیں تو کیادار الکفر میں دی جانے والی تعلیم نا مکمل ہو گی لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ دار الکفر میں بسنے والے علماء کم علم ہیں یا وہ مذہب سے پوری آگہی نہیں رکھتے مگر یہ تو ہو سکتا ہے کہ وہ حکومت کے پابند ہوں اور جتنا ان کو پڑھانے کی اجازت ہو وہ صرف وہی پڑھائیں اور جس کی اجازت نہ ہو اس سے صرف ِنظر کریں۔
موجودہ حالات میں غیر مسلم پر ناگوار گزرنے والی بنیادی تعلیم میں جہاد کا سبق ایساہے جو ایک اسلامی ریاست میں تو پوری آزادی کے ساتھ پڑھایا جا سکتا ہے لیکن ایک غیر مسلم حکومت میں اپنے اس بنیادی عقیدے سے متعلق علماء اس کی تعلیم کما حقہ دے سکیں گے؟ یہ سوال جواب طلب ہے اور اگر واقعتادارالکفرمیں جذبۂ جہادکی تعلیم اس کی صحیح اور پوری روح کے ساتھ پڑھائی جاتی ہے تو کیا امریکہ ہندوستان کے ان مدارس کو بھی بنیاد پرست پیدا کرنے کا ذمہ دار ٹھہراکر اس کے خلاف بھی کوئی کارروائی کرے گا؟ اس کے علاوہ ایک اور اہم بات یہ کہ جس طرح امریکہ اور یہود وہنو دمسلمان طلبہ کوجدید تعلیم سے دور کر رہے ہیں اس میں اگر مسلمان اپنی مذہبی تعلیم بھی حاصل نہ کر سکیں تو وہ کیا کریں؟ امریکہ کے حالیہ اقدامات اس تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ وہ مسلم طلبہ کے لئے تو اپنی تعلیمی پالیسیوں کو سخت کر رہا ہے جبکہ غیر مسلم اور ہندوستانی طلبہ کے لئے ویزہ فیس بھی ختم کی جا رہی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف فرنٹ ا سٹیٹ کا کردار تو پاکستان ادا کرے، مسلمانوں کے خلاف سامراج کو کندھے اپنے پیش کرے لیکن فوائدسارے پاکستان کے ازلی دشمن کو ملیں، یہ کیسی دوستی اور کیسا اتحاد ہے؟ ان حالات کے پیش نظر مسلم ممالک کے حکمرانوں کو اس دو عملی کا ادراک کرنا چاہئے کہ کس طرح مسلم دشمن طاقتیں مسلمانوں کو جدید علوم کے ساتھ ساتھ ان کے بنیادی عقائد سے دور کر رہی ہیں۔ کم ازکم اپنی مذہبی تعلیم کے معاملے میں تو مسلمانوں کو کسی غیر کی ڈکٹیشن لینے اور ان کے آلۂ کار بننے سے گریز کرنا چاہئے۔

شیئر: