Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خاندانی تنازعات کے حل میں حَکَم کا کردار

زوجین کو ایک دوسرے سے شکایتیں ہونا توفطری ہے مگر جب شکایت تنقیص کی صورت اختیار کر جائے تب مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں
* * * *محمد عباس انصاری۔ اورنگ آباد* * *
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ اسلام زندگی کے ہر پہلو کے متعلق رہنمائی کرتا ہے۔ یہ دین اسلام کی امتیازی صفت ہے۔ ضابطۂ حیات میں عقائد ، عبادات، خاندانی و معاشرتی نظام، معاشی ، سیاسی و عدالتی نظام شا مل ہیں۔ یہ سب باہم ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ ایک پہلو کے متاثر ہونے سے ایک مسلمان کی پوری زندگی متاثر ہو سکتی ہے۔ عقائد کی خرابی سے ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ اس طرح معاشرتی نظام بگڑجائے تو صحیح اسلامی معاشرہ تشکیل نہیں پاسکتا۔اس وقت ہندوستان کے مسلمان معاشرے سے عام طور پر میاں بیوی اور ساس بہو کے حوالے سے جھگڑے ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں۔ ان کی سنگینی کئی اعتبار سے ہے۔ یہ جھگڑے خاندان کے افراد کا ذہنی سکون برباد کردیتے ہیں۔جس تنازعات کے نتائج زندگی کے بہت سے معاملات پر اثر انداز ہوتے ہیں،بچوں پر مضر نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ اثرات تازِیست ان کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔
ایسے جھگڑوں کے نتیجے میں خاندان جدا ہوجاتے ہیں۔طلاق کے واقعات کا جائزہ لیا جائے تو اکثر واقعات غصہ، یا وقتی رنجش کی بنا پر پیش آتے ہیں۔ طلاق کے بعد تعلقات میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔بچوں کو زندگی میں ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور میاں بیوی بھی نقصان اٹھاتے ہیں۔میاں بیوی میں علیحدگی ہوتی ہے تو ہر متعلقہ شخص کی زندگی اس سے متاثر ہوتی ہے۔ صلح کے تعلق سے فرمان اِلٰہی ہے: ’’اور اگر تمہیں زوجین کے باہمی تعلقات بگڑ جانے کا خدشہ ہو تو ایک ثالث مرد کے خاندان سے اور ایک عورت کے خاندان سے مقرر کر لو ، اگر وہ دونوں صلح چاہتے ہوں تو اللہ تعالیٰ ان میں موافقت پیدا کردے گا، اللہ تعالیٰ یقیناسب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے‘‘۔(النساء35)۔
دونوں کی طرف سے مقرر کردہ حکم /پنچ میاں بیوی کے درمیاں صلح کی راہ تلاش کرنے بیٹھیں گے اور تحقیق کریں گے کہ ان کے درمیان لڑائی جھگڑے کے کیا اسباب ہیں اور جب گفتگو کے لئے بیٹھیں گے تو مندرجہ ذیل نکات پر توجہ رکھیں گے۔ سخت شروعات نہ کی جائے: ضروری ہے کہ فریقین کی گفتگو کی شروعات بد گوئی اور سخت کلامی سے نہ ہو۔ بدگوئی کا مفہوم یہ ہے کہ کسی کے منہ پر اسے برا بھلا بولنا یا کوئی ایسی بات کہنا جس سے اسے اذیت پہنچے۔ ایک فریق ، توہین آمیز جملے استعمال کرے تو یہ بات یقینی ہے کہ بحث کا اختتام ناکامی پر ہی ہوگا ۔اس کے بر خلاف اگر پہلا فریق گفتگو کی ابتداء نرمی سے کرے تو دوسرا فریق بھی نرمی سے جواب دے گا اور گفتگو کے مثبت نتائج ہوں گے۔
سچ بات یہی ہے کہ زبان کے غلط استعمال سے اچھا بھلا سنسار آتش کدہ بن جاتا ہے۔ حَکَم کا کام یہ ہے کہ گفتگو کا رخ نرمی کی طر ف لے جائے۔ ابن حبانؒ کہتے ہیں: ’’عقل مند پر واجب ہے کہ وہ تمام کاموں میں نرمی کو لازم اختیار کرے اور ان میں جلد بازی اور کم عقلی کو چھوڑ دے جبکہ اللہ تعالیٰ تمام کاموں میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔ جو نرمی سے محروم کردیا گیا وہ ہر بھلائی سے محروم کردیا گیا، جسے نرمی عطا کی گئی، اسے ہر بھلائی عطا کی گئی۔‘‘ جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا: ’’جو نرمی سے محروم کردیا جائے، وہ ہر بھلائی سے محروم کردیا جاتا ہے۔ ‘‘(رواہ مسلم)۔
تباہی کے درجِ ذیل 4 عوامل ہیں: تنقیص :سب سے پہلا اور مہلک عمل تنقیص ہے۔ زوجین کو ایک دوسرے سے شکایتیں ہونا توفطری ہے مگر جب شکایت تنقیص کی صورت اختیار کر جائے تب مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں۔ شکایت اور تنقیص کے فرق سے ہم واقف ہیں۔ جب تنقیص دوسرے فریق کی کردارکشی پر مرکوز ہوجاتی ہے تو بات اور بگڑ جاتی ہے لہٰذا حَکَم کا کام ہے کہ تنقیص کو روکے۔ توہین وتحقیر:تنقیص کے بعد توہین کا عمل شروع ہوتا ہے۔ اسکی مثال بد زبانی اور برے القاب کااستعمال ہے۔یہ بدترین عمل ہے جو دوسرے کو غصہ پر اکسا تا ہے۔ اسکے نتیجے میں تنازعہ بڑھتا ہے۔ یہ عمل ایک فریق کو دوسرے سے متنفر کردیتا ہے اور مسئلہ کے حل کو ناممکن بنادیتا ہے۔ ایک فریق توہین کرتا ہے تو دوسرا فریق اسکا جواب اپنے دفاع میں دیتا ہے پھر الزام تراشی شرع ہوجاتی ہے۔ اس سے تنازعہ مزید گہرا ہوتا جاتا ہے۔ سنن ابو دائود کی روایت ہے کہ حضرت سعید بن زیدؓسے رسول اللہ نے فرمایا کہ سب سے بڑا سود یہ ہے کہ مسلمان کی عزت وآبرو پر ناحق زبانِ طعن کو دراز کیا جائے (یعنی مسلمان کی تحقیر و تذلیل کی جائے۔ یہ بہت بڑا سود ہے جس طرح سود حرام ہے یہ بھی حرام ہے)۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمنے فرمایا: ’’ مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے، اس پر ظلم نہیں کرتا اسے بے یارو مددگار نہیں چھوڑتا ،اس کی تحقیر نہیں کرتا، کسی مسلمان کے شر کے لئے یہی بات کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔‘‘(مسند احمد)۔ ارشاد ربانی ہے: ٭ بڑی خرابی ہے ہر ایسے شخص کی جو عیب ٹٹولنے والا غیبت کرنے والاہو(الھمزہ 1)۔ ٭سورہ القلم،آیت11 میں بھی طعنہ دینے والے شخص کے لئے وعید آئی ہے مدافعت:ایک فریق توہین کرتا ہے،تو دوسرا فریق اپنا دفاع کرنے میں لگ جاتا ہے، اس طرح تیسراعمل (مدافعت) وجود میں آتا ہے۔ بہت سے لوگ اپنا دفاع کرتے ہیں جب ان پر تنقید کی جا تی ہے ، لیکن اس سے مسئلہ کو حل کرنے میں مدد نہیں ملتی۔
مدافعت کے معنیٰ عملاً دوسرے فریق پر الزام رکھنے کے ہوجاتے ہیں۔ گویا یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ میں بالکل بے گناہ ہوں ساری خرابیاں آپ میں ہیں مجھ میں نہیں ۔ اس طرح مسئلہ حل نہیں کیا جاسکتا اور تنازعہ مزید بڑھتا ہے۔ سرد مہری اور بات چیت میں تعاون نہ کرنا:درجِ بالا تینوں عوامل کے بعدچوتھے عمل (سرد مہری اور بات چیت میںعدم تعاون ) کی ابتداء ہوتی ہے۔ یہ علامت ہے تنازعہ کے بڑھنے کی، چوتھا عمل مردوں سے زیادہ عورتوں میں عام ہے۔ایک فریق دوسرے کو نظرانداز کرتا ہے۔
کسی بات کا جواب نہیں دیتا اْس سے پہلا فریق اور غصہ میں آجاتاہے۔ جذبات کی رو میں بہہ جانا: ایک فریق کارویہ جذبات کے تابع ہو جاتا ہے تو یہ اشارہ ہے کہ نکاح اب طلاق کے خطرے سے دوچار ہے۔ جذبات کے غلبے کا مطلب ہے دوسرے فریق کی تنقیص، توہین اور اس پرالزام تراشی۔ یہ رویہ دوسرے فریق کو مشتعل کرتاہے۔ بہت سے افراد جذبات کے غلبے کے تحت بات چیت سے دوری اختیا کرتے ہیں یا گفتگو سے الگ ہوجاتے ہیں ،جواب ہی نہیں دیتے، یہ جواب نہ دینا منفی رویے سے تو بچاتا ہے مگر یہ طلاق کی طرف لے جاسکتا ہے۔ جسمانی زبان: جسمانی زبان ، انسان کے اندر ہونے والی نفسیاتی تبدیلیوں اور جذبات سے منسلک ہے۔جیسے دل کی دھڑکن کا بڑھ جانا اور خون کے دباؤ میں اضافہ ، غصہ، بے چینی وغیرہ ۔یہ جسمانی تبدیلی گفتگو کو نا ممکن بنادیتی ہے۔ اس تبدیلی کی وجہ سے معلومات کو اخذ کرنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے، یہاں تک کہ معاملہ کو حل کرنے کی صلاحیت با قی نہیں رہتی۔ ایک فریق کے پاس عقلی دلیلیں ہیں مگر معاملہ حل نہیں ہوگا کیونکہ دوسرا فریق جذبات کی رو میں اپنا فیصلہ کرچکا۔جب ایک یا دونوں فریقوں کی جسمانی کیفیت نفسیاتی تبدیلیوں اور جذبات سے متغیرہو تو مسئلہ حل ہونا ،بڑا مشکل ہوجاتا ہے۔
اصلاح کی کوشش کی ناکامی: اصلاحی کوششوں کے ناکام ہونے کے معنیٰ یہ ہیں کہ اب آخر طلاق ہونا ہی ہے۔ اس کے باوجود دیکھا گیا ہے کہ میاں بیوی کی جانب سے اصلاح کی کوششوں سے اس مرحلے میں بھی مسئلہ کا حل نکل آتا ہے۔بعض اقدامات مؤثر ہوتے ہیں،جیسے معافی مانگنا ، معاف کرنا یا مسکرانا۔ اس طرح کی روش اصلاح کی کوشش کہلائے گی۔ سابقہ تناز عات ومعاملات کا ذکر کرنا: بسا اوقات فریقین ماضی کے منفی واقعات کو یاد دلاتے ہیں کہ فلاں وقت آپ نے ایسا کیا تھا فلاں وقت فلاں حرکت کی تھی۔ اس طرح کی گفتگو اس اندیشے کوجنم دیتی ہے کہ اب طلاق ناگزیر ہے ۔فریقین ماضی کے منفی واقعات دہراتے ہیں تو تعلقات کی ایک مسخ شدہ تصویر اْبھرتی ہے جو رشتوں کے مستقبل پر اثر انداز ہوتی ہے۔ حَکَم کا کام یہ ہے کہ ماضی کے ناخوش گوار معاملات وواقعات کا ذکر نہ ہونے دیا جائے۔ اسلام میاں بیوی کے اختلافات دور کرنے کی تاکید کرتا اور صلح کے لئے رہنمائی کرتا ہے۔
دین دونوں کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے ۔میاں بیوی کے درمیان صلح سے خاندان کا وجود کٹنے پھٹنے سے محفوظ رہتا ہے، خاندانی زندگی قائم رہتی ہے۔میاں بیوی کے تعلقات مضبوط ہوتے ہیں، تو اولاد کو پر امن اور مستحکم تربیت گاہ میسر ہوتی ہے۔ہر قسم کے انحراف سے محفوظ رہتے ہوئے والدین کی شفقت حاصل کرتے ہیں اور اچھی تربیت پاتے ہیں۔ خاندانی جھگڑوں کے اسباب تو ان گنت ہیں، مگر اصل سبب یہ ہوتا ہے کہ کوئی نہ کوئی فریق اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی کی بنیاد پر زندگی گزاررہا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں لوگوں کی تحقیر مذاق اڑانا، بدگمانی، تجسس، غیبت، چغل خوری اور بہتان تراشی جیسے عیوب عام ہیں۔یہ عادتیں برائیاں سمجھی ہی نہیں جاتیں۔ مرد ہوں یا خواتین باہمی گفتگو کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اکثر گفتگو انہی چیزوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ برائیاں دلوں میں نفرت اور نااتفاقی کا بیج بوتی ہیں۔ لوگوں میں جدائی ڈلواتی اور خاندانوں کو تباہ کرتی ہیں۔ حَکَم کو ذی علم ، دیانت دار اور نیک نیت ہونا چاہیے۔ وہ صدق دل سے چاہتے ہوں کہ زوجین میں اصلاح ہوجائے۔اس کیلئے اخلاص کے ساتھ کوشش بھی کریں۔ چاہیے کہ دونوں حَکَم میاں بیوی کے اختلاف کی وجہ تلاش کریں ، دونوں کو سمجھائیں بجھائیں اور اصلاح پر آمادہ کریں تو اللہ کی مدد بھی شامل حال ہو گی اور یہ دونوں اپنے مقصد میں کامیاب ہونگے ۔ ازدواجی زندگی کو خوشگوار اور پائدار بنانے کے لئے ایک سنہری اصول سیدنا ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا ہے۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ام درداء رضی اللہ عنہا سے کہا :’’ اگر مجھے غصہ آئے تو مجھے راضی کرنا اور اگر تمہیں غصہ آئے گا تو میں تمہیں منا لوں گا اور اگر ایسا نہ ہوا تو بہت جلد ہمارے درمیان جدائی ہو جائے گی۔ ‘‘( روضۃ العقلاء لابن حبان)۔

شیئر: