Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اب کے برس ہے تنہائی اور اُس کی یاد کا سایہ ہے

 
حرا زریں۔ کراچی
دل پر ویرانی کے پہرے اور غموں کا سایہ ہے
اب کے برس یہ شہر میں میرے کیسا موسم آیا ہے
بیچ سمندر ڈوبتی ناو¿ ، صحراو¿ں میں اڑتی خاک
میرے دل کی ویرانی کو یہ منظر بھی بھایا ہے
آدھی رات کو سرد ہوائیںدل پر دستک دیتی ہیں
بند کواڑوں کے پیچھے یہ کس کا درد چھپایا ہے؟
پچھلے برس وہ ساتھ تھا میرے اور فلک پہ تارے تھے
اب کے برس ہے تنہائی اوراُس کی یاد کا سایہ ہے
جانے والے تو ہی بتا کیوں مجھ کو تو نے چھوڑ دیا
اپنے بنا کیا تو نے مجھ کو جینا بھی سکھلایا ہے؟
مست ہوائیں قریہ قریہ شور مچاتی پھرتی ہیں
لگتا ہے اس شہر میں کوئی دل والا پھر آیا ہے
دیوانے سے کہہ دو زریں واپس آئے رستے سے
ان رستوں پر چل کر آخر کیا کھویا، کیا پایا ہے
 
 
 

شیئر: