Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تاج محل غائب

تاریخ اور تہذیب کو ملیا میٹ کرنے کا یہ سلسلہ کہاں جاکرختم ہو گا کسی کو نہیں معلوم
* * * معصوم مرادآبادی* * *
سابق امریکی صدر باراک اوبامہ نے تاج محل کے بے پناہ حسن سے متاثر ہوکر کہاتھا کہ’’ دنیا میں دو طرح کے لوگ ہیں، ایک وہ جنہوں نے تاج محل دیکھا ہے اور دوسرے وہ جنہوں نے تاج محل نہیں دیکھا۔‘‘ ایک انتہائی حسین وجمیل برطانوی اداکارہ نے تاج محل دیکھ کر انتہائی جذباتی انداز میں کہاتھا کہ’’ اگر کوئی اس بات کی ضمانت دے کہ مجھے مرنے کے بعد یہاں دفن کردیاجائیگا تو میں ابھی اپنی جان دینے کو تیار ہوں۔ ‘‘ یہ ہے محبت کی وہ شہرۂ آفاق نشانی تاج محل جسے ہرروز ڈیڑھ لاکھ سیاح دیکھتے ہیں اور جو ہندوستان میں ٹورزم صنعت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ آج کل یہی تاج محل اخبارات کی شہ سرخیوں میں ہے کیونکہ اس تاج محل کو اترپردیش کے محکمہ سیاحت نے اپنی گائیڈ بک سے غائب کردیا ہے۔ ایسا اس لئے کیاگیا ہے کہ یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ تاج محل کو پسند نہیں کرتے اور وہ اسے حملہ آوروں کی نشانی قرار دیتے ہیں۔ جب سے اترپردیش میں یوگی سرکار قائم ہوئی ہے تب سے تاج محل کے خلاف وزیراعلیٰ کے کئی بیانات سامنے آچکے ہیں اور تاج محل مسلسل ان کے نشانے پر ہے۔
تاج محل کیخلاف نفرت کے سوداگروں کی مہم کافی پرانی ہے۔ ہندو راشٹر کا خواب دیکھنے والے ایک نام نہاد مؤرخ پی این اوک نے اسے بہت پہلے ایک ہندو راجہ کا محل قرار دیا تھا اور اس کا نام’’ تیجو مہالیہ‘‘ درج کیا تھا۔ بعض لوگ اسے شیو مندر بھی قرار دیتے ہیں لیکن یہ بات پوری دنیا جانتی ہے کہ تاج محل مغل حکمراں شاہ جہاں کی تعمیر کردہ ایک لاثانی عمارت ہے جو اس نے اپنی چہیتی بیگم ممتاز محل کی یاد میں1648 تعمیر کرائی تھی۔ شاہ جہاں اور ممتاز دونوں کی قبریں اسی تاج محل کے زیریں حصے میں واقع ہیں۔ تاج محل کو پوری دنیا میں مسلم فن تعمیرکا شاہکار تصور کیا جاتا ہے ۔ یوگی سرکار نے یہ سوچ کر تاج محل کو اپنی فہرست سے خارج کیا ہے کہ شاید اب دنیا اس کو نظرانداز کردے گی لیکن اترپردیش سرکار کو یہ حرکت خاصی مہنگی پڑگئی ہے کیونکہ اس اوچھی حرکت کا ردعمل پوری دنیا میںہوا ہے۔ یہاں تک کہ امریکہ کے سب سے بڑے اخبار’ واشنگٹن پوسٹ‘ نے یوگی سرکار کی مذمت کرتے ہوئے لکھاکہ’’ تاج محل سے نفرت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسے مسلمانوں نے تعمیر کرایا تھا۔‘‘ تاج محل صرف ہندوستانی تاریخ اور تہذیب کا لافانی شاہکار ہی نہیں بلکہ یہ عالمی وراثت کا حصہ بھی ہے۔
یونیسکونے 1982میں اسے عالمی ورثے کی فہرست میں شامل کیا تھا اور فی الوقت اسے دنیا کے7 عجوبوں میں شمار کیا جاتاہے لیکن خود ہمارے ملک کے فرقہ پرستوں کی نگاہ میں تاج محل کی حیثیت کیا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پچھلے دنوں مرکزی وزارت سیاحت نے ایک آرٹی آئی کے ذریعے سینٹرل انفارمیشن کمیشن سے دریافت کیا تھا کہ تاج محل ایک مقبرہ ہے یا شیو مندر؟ کمیشن نے اپنے جواب میں اسے مقبرہ ہی تسلیم کیا تھا کیونکہ اس کے پاس تاج محل کے شیو مندر ہونے کا کوئی ثبوت نہیں تھا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق یوپی سرکار نے اپنے 6ماہ مکمل ہونے کی خوشی میں سیاحوں کیلئے جو کتابچہ جاری کیا ہے، اس میں تاج محل کا کوئی ذکر نہیں بلکہ اس کی جگہ اس میں گورکھ ناتھ مندر کو جگہ دی گئی ہے کیونکہ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اسی مندر کے سربراہ ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ ان کے ذہن میں یہ خواب ہو کہ اس طرح وہ تاج محل کی جگہ گورکھ ناتھ مندر کو عالمی سیاحوں کا مرکز بنادیں گے۔ اس کتابچہ میں گورکھپور کے دیوی پاٹن شکتی پیٹھ کو بھی جگہ دی گئی ہے اور پورے 2صفحات گورکھ دھام مندر کیلئے وقف کئے گئے ہیں۔ اس میں گورکھ دھام مندر کی تصویر، اس کی تاریخ اور اس کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ کتابچے کے پہلے صفحے پر وارانسی کی گنگا آرتی کی تصویر ہے۔ اس کتابچے کو دیکھ کر یہ تاثر ملتا ہے کہ ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش محض مندروں اور پوجا پاٹھ کی زمین ہے اور یہاں تاج محل جیسی کوئی شہرۂ آفاق عمارت واقع نہیں ۔ یوگی سرکار کی طرف سے تاج محل کو نظرانداز کرنے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ۔ گزشتہ جولائی میں صوبائی حکومت نے جو سالانہ بجٹ پیش کیا تھا اس میں مذہبی اور ثقافتی شہروں کو فروغ دینے کیلئے’’ہماری تہذیبی وراثت‘‘کے عنوان سے ایک خطیر رقم مہیا کرائی گئی تھی لیکن اس میں تاج محل کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ یوپی سرکار نے اپنے بجٹ میں ایودھیا ، وارانسی ، متھرااور چترکوٹ جیسے ہندودھرم کے اہم مراکز کی ترقی کیلئے کئی منصوبوں کا اعلان کیا تھا جبکہ اس بجٹ میں تاج محل اور دیگر عمارتوں اور مقبروں کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ حکومت نے ایودھیا ، وارانسی اور متھرا میں تہذیبی مراکز اور شہری ڈھانچے میں بہتری ک لئے 2ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم منظور کی تھی۔تاج محل سے بے رخی اور نفرت کی اصل وجہ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا یہ خیال ہے کہ یہ عمارت ہندوستانی تہذیب کی نمائندگی نہیں کرتی کیونکہ اسے حملہ آوروں نے تعمیر کرایا تھا۔ وزیراعلیٰ نے گزشتہ جون میں بہار کے دربھنگہ شہر میں ایک ریلی کے دوران کہا تھا کہ تاج محل ایک عمارت کے سوا کچھ نہیں ۔یوگی آدتیہ ناتھ ماضی میں بھی کئی مرتبہ تاج محل سے اپنی نفرت کا اظہار کرچکے ہیں۔
پچھلے دنوں انہوں نے کہاتھا کہ جب جب کسی ملک کے سربراہ ہندوستان کے دورے پر آتے ہیں تو انہیں تاج محل کا ماڈل تحفے میں دیا جاتا ہے جبکہ تاج محل غیر ہندوستانی ہے اور وہ ہندوستان کی نمائندگی نہیں کرتا۔ یوگی آدتیہ ناتھ کی بنیادی سوچ یہ ہے کہ ہندوستان صرف انگریزوں کے زمانے میں ہی غلام نہیں تھا بلکہ ہندو یہاں ایک ہزار سال سے یعنی مسلم بادشاہوں کے دور سے غلام ہیں۔وہ افغانستان، ایران اور وسط ایشیاسے آنے والے بادشاہوں کو لٹیرا اور حملہ آور مانتے ہیں اور صدیوں تک اس ملک میں رہنے اور یہاں کی تہذیب اور مٹی میں رچ بس جانے کے باوجود انہیں ہندوستانی تسلیم نہیں کرتے۔
تاج محل کے معمار شاہ جہاں کے آبائواجداد ان سے100برس پہلے ہندوستان آئے تھے۔ اس عرصہ میں ان کی کئی نسلیں ہندوستان میں پروان چڑھیں ۔ شاہ جہاں ایک ہندوستانی بادشاہ تھا ، جس نے کئی بہترین عمارتیں تعمیر کروائیں لیکن اسے کیا کہاجائے کہ بی جے پی سرکاریں تاریخ سے مسلم بادشاہوں کا نام ونشان مٹانے پرکمربستہ ہیں۔ پچھلے دنوں مہاراشٹر تعلیمی بورڈ نے ساتویں اور نویں کی تاریخ کی کتابوں سے تاج محل، قطب مینار اور لال قلعہ جیسی تاریخی یادگاروں کو غائب کردیاتھا۔ ان کتابوں سے رضیہ سلطان اور تغلق کے باب بھی نکال دیئے گئے ہیں۔ مسلم بادشاہوں سے منسوب شاہراہوں اور اسٹیشنوں کے نام بھی تبدیل کئے جارہے ہیں۔ اورنگ زیب روڈ کا نام بدلنے کے بعد مغل سرائے ریلوے اسٹیشن کا نام بھی تبدیل کردیاگیا ہے۔ پچھلے دنوں دہلی کے اکبرروڈ کے نام پر شدت پسند ہندوؤں نے سیاہی پھیر دی تھی۔ نصابی کتابوں میں اکبر کی جگہ رانا پرتاپ کو’ عظیم‘ قرار دیا جارہا ہے۔ تاریخ اور تہذیب کو ملیا میٹ کرنے کا یہ سلسلہ کہاں جاکرختم ہو گا کسی کو نہیں معلوم البتہ ان حرکتوں سے پوری دنیا میں ہندوستان کی شبیہ داغ دار ہورہی ہے۔

شیئر: