Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”غم سے پتھر ہو گیا لیکن کبھی رویا نہیں“

ہما بھابی سے گو یا ہو ئی میں اسکے ہاتھ کا کھا نا ہرگز نہیں کھا ﺅ ں گی
تسنیم امجد ۔ریا ض
وہ ایک ٹھنڈی سانس لے کر بو لی کہ میرا آپ سب کو یہ مشورہ ہے کہ جب آپ ما ں باپ ،بہن بھا ئیو ں اور دوسرے اعزہ کے ساتھ بیٹھیں تو” الحمد للہ“ ضرور کہیں کیو نکہ کچھ لوگ ان لمحات کو تر ستے ہیں ۔وقت کے ساتھ تنہا ئیا ں ڈستی ہیں ۔یا دیں تڑ پا تی ہیں ،رلا تی ہیںلیکن ہاتھ ملنے کے سواکچھ نہیں کیا جا سکتا ۔آج افرا تفری کے دور میںمشتر کہ خا ندا نی نظام کسی نعمت سے کم نہیں ۔
آج خیال آتا ہے کہ وہ دن کتنے خو بصو رت تھے جب ہمارا چو لھاایک تھا ۔صبح ہی نا شتے کے بعد نصرت بھا بی سب سے پو چھ لیتیں کہ ڈ نر میں کیا پکا یا جا ئے۔کام پر جانے وا لے اپنے اپنے کام پرچلے جاتے اور کچھ یو نیور سٹی کا لج کی راہ لیتے ۔سسرال کھا تا پیتا تھا ۔کا رو بار خا صا وسیع تھا ۔سو چتی ہو ں، واقعی اد دور کا ہر دن عید اور رات شب برات ہوا کرتی تھی۔میں بھی کالج میں لیکچرر تھی ۔نصرت میری جٹھا نی تھیں اس کے باوجود ہمارے مابین روایتی مسابقت بالکل نہیں تھی۔ وہ مجھ سے بہنو ں کی طر ح سلوک کر تیں۔ان کے حسنِ سلوک نے مجھے ان کی کنیز بنا دیا تھا ۔فا رغ اوقات میں ہماری گپ شپ خوب رہتی۔میں انہیں کا لج میں گز را دن چٹخارے لے لے کر سناتی تو وہ بہت خوش ہو تیں۔اکثر ان کے لئے کالج کی کنٹین سے سمو سہ چاٹ لے آ تی ۔میرے حسنِ سلوک کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مجھے ان کے ما ضی کی سو جھ بوجھ تھی ۔
بھا بی نے بچپن سے ہی مشکل حالات کا سا منا کیا تھا ۔ان کے والد نے دوسری شادی کر لی تھی اور ان کی امی کو طلاق دے دی تھی۔یہاس وقت صرف 2 برس کی تھیں ۔پھو پھی نے انہیں گود لیکر ان کی امی کی بھی دوسری شادی کرا دی ۔یہ خا ندان وا لو ں کا مشتر کہ فیصلہ تھا کہ جوان عورت زندگی کیسے گزا رے گی ۔پھو پھی نے ان سے محبت تو بہت کی لیکن تعلیم سے بہت دور رکھا ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کو گرہستی میں اس قدر مصروف کر دیا گیا کہ سبھی ان پر انحصار کرنے لگے ۔ننھے ننھے ہا تھو ں سے وہ صبح سے شام تک کام کرتیں۔4برس کی عمر میں وہ بڑی لڑ کیو ں کی طرح کام کرنے لگی تھیں۔پھو پھی کی دو نو ں بیٹیا ں اور چا ربیٹے اسکول جاتے تو وہ ان کے بستے ٹھیک کر کے سلیقے سے رکھتیں۔اسکول کےلئے لنچ منہ اند ھیرے اٹھ کر بنا تیں اور پھر نماز پڑ ھتیں۔کسی کو خیال نہ آتا کہ اس معصوم کے بھی جذ بات ہیں ۔یہ بات ان کو محبت دینے والوں نے جب نہیں سو چی تو کوئی اور کیسے سوچ سکتا تھا ۔سچ تو یہ تھا کہ گھر میں ایک وفا دار نو کرانی چو بیس گھنٹے خدمت پر مامور تھی۔
دن گزرتے گئے اور لڑ کے یو نیور سٹی چلے گئے ، لڑ کیو ں کی شادی کی فکر ہو ئی ۔بھابی نے یہ ذمہ داریاں بھی بخو بی نبھا ئیں۔ما ں کی طرح ہر شے بنانے اور سنبھا لنے میں آ گے آگے رہیں ۔اب لڑ کو ں کی فکر ہو ئی تو منجھلے کو حکم ہوا کہ نصرت سے شادی کرو ۔وہ بہت چلا یا کہ اماں برائے مہربانی یہ ظلم نہ کیجئے۔انہیں میں نے ہمیشہ بہنو ں کی طرح سمجھا ہے ۔میں یو نیور سٹی گریجویٹ اور اسے آپ نے الف ،ب سے بھی متعا رف نہیںکرایا ۔اس زمین وآسمان کے فرق کو مت پا ٹئے لیکن اماں نے ایک نہ سنی اورناراض ہوجانے کی دھمکی دے دی۔ آخر اس نے ہتھیار ڈال دیئے اور بھا بی کو اسی گھر میں بہو کی حیثیت مل گئی ۔دوسرے لفظو ں میں انہیں دائمی نوکرانی کا رتبہ مل گیا ۔
ان کے شو ہر نے انہیں کتنی محبت دی، یہ ایک الگ کہا نی ہے۔انہیں ایسا لگا کہ وہ ایسی ملکہ ہیں جس کی سلطنت ان کے کمرے سے شروع ہو کر وہیں ختم ہو جاتی ہے ۔شو ہر کی یو نیور سٹی فیلوز اب بھی ان کے گرد رہتی تھیں ۔آ خر انہیں بھی ایک پڑ ھی لکھی ما ڈرن سا تھی کی ضرورت تھی ۔پھو پھی کی خود غر ضی نے کچھ بھی نہ سو چا ۔
آج بھا بی کو 15 برس ہو گئے تھے اس نئے ٹا ئٹل کو سنبھا لے ہو ئے ۔گھر کی لڑکیوں میں میرا نمبر تیسر ا تھا ۔میری دوستی نے انہیں کا فی بشا شت بخشی تھی۔ وہ اپنے دل کی ہر بات مجھ سے شیئر کر تیں ۔اب چو تھے یعنی آ خری کو بیا ہنے کی باری تھی ۔میں نے اس میں بھا بی کا بہت ساتھ دیا ،ان کی ذ مہ داریا ں با نٹ لیں۔اس شادی پر سا ری بہو ﺅ ں کو سونے کی چوڑ یاںدلا ئی گئیں ۔بھا بی بہت خوش تھیں ۔بار بار اپنی کلائیو ں کو تکتیں۔بارات والے دن وہ بھی پارلر سے تیار ہو ئیں۔بہت حَسین لگ رہیں تھیں ۔16 سترہ برس کی عمر میں ہی بیا ہی گئی تھیں اس لئے گزشتہ 15 برس سے ان کے حُسن و جمال میں کو ئی فرق نہیں آیا تھا ۔بارات کی روانگی کے وقت یہ سوال اٹھا کہ واپسی پر با رات کو کون وصول کرے گا ۔ظاہر ہے گھر بھی نو کروں پر نہیںچھوڑ سکتے تھے ۔آ خر وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا۔قر عہ بھا بی کے نام نکلا کہ وہ گھر پر رکیں گی۔ اس لمحے میں نے پہلی مر تبہ ان کے چہرے پر ایک رنگ آ تے اورایک جاتے محسوس کیا ۔انہو ں نے بظا ہر مسکراتے ہو ئے رکنا منظور کر لیا۔ خیر شادی بخو بی انجام پا گئی۔
سب سے چھو ٹی ھماکے تیور نرا لے تھے۔وہ نا شتہ، کھا نا اپنے کمرے میں ہی منگوا لیتی تھی۔گھل مل کر رہنا اسے ایک آ نکھ نہیں بھا تا تھا۔ بد قسمتی سے خوا تین کا وجود جہا ں تصویرِ کا ئنات میں رنگ بھر تا ہے وہا ں زبان کے حوالے سے تصویرِ کائنات کا زنگ بھی ثابت ہوتا ہے۔ یہ وہ ہستی ہے جسے دوسری عورت کی خو شی کھَلتی ہے ۔حسد ورقابت کی آگ میں وہ دو سروں کی زندگیا ں اجیرن کرنے پر تُل جاتی ہے اور نتائج سے بے خبر ہو کر تبا ہی کا راستہ ا ختیارکر لیتی ہے ۔اسے بھا بی کے اختیارات نے رقابت کی آگ میں ڈال دیا ۔
پہلے پہل توہما نے بھابی میں من گھڑت باتیں،برا ئیا ں اور خا میا ں ڈھو نڈیں پھر ایک روزگو یا ہو ئی کہ میں جا ہلانہ انداز میں پکایا ہوا اس کے ہاتھ کا کھا نا ہرگز نہیں کھا ﺅ ں گی چنا نچہ اس نے شو ہر کے ساتھ ہو ٹلنگ کاسلسلہ شروع کر دیا مگر وہی بات کہ آ خر کب تک ؟ جلد ہی الگ گھر کا انتظام ہو گیا ۔گھر میں اداسی چھا گئی ۔پھو پھی کو پہلی بار بڑی کی اہمیت کا اندازہ ہوا ۔گھر کو جو ڑے رکھنے میں اس نے جس طرح صبر سے کام لیا تھا ،اس کی تو میں بھی گواہ ہو ں ۔شو ہر بھی اب کبھی کبھی انہیں کچھ تحفے میں دینے لگا تھا۔میرے شو ہر کو بھی جر منی سے اچھی آ فر آئی اور ہماری بیرون ملک روانگی کی تیاری ہو گئی ۔روانگی سے قبل ہم دو نوں رات بھر جا گتی رہیں۔بھا بی بہت اداس تھیں،وہ بہت روئیں۔ پھر اچانک بو لیں میری ما ں کو ذرا فون ملا دو ۔میں چو نک گئی اور فون ملا کر انہیں تھما دیا ۔پھر جو کچھ میں نے سنا اور دیکھا ،وہ شا ید میںلکھ نہیں سکتی۔دو نو ں طرف سسکیاں اور ہچکیا ں بند ھی تھیں ۔شاید دکھوں کی زبان یہی ہو تی ہے ۔پھر وہ بو لیں کہ ما ں مجبور تھی ۔وہ میرے لئے تڑ پتی رہیں لیکن کیا کرتیں ۔اسے بھی سائبان کی ضرورت تھی ۔شاید وہ اسے بھی اپنی پناہ میں لے لیتا لیکن پھو پھی کی خود غر ضی نے ان دو نوں کو ملنے نہ دیا ۔ما ں نے تہواروں پر ملنے کو کہا تو کو ئی نہ کو ئی بہانہ بنا کر ٹال دیا ۔وہ پھر پھو ٹ پھوٹ کر رونے لگیں ۔
اگلے دن ہماری فلائٹ تھی۔گھر سونا ہو گیا،پھو پھی بھی بستر سے لگ گئیں۔بھا بی کی ذمہ داریو ں میں اضا فہ ہو گیا ۔اب انہیں یہی فکر لگی رہتی ہے کہ کہیں پھو پھی کی دوا کا وقت نہ گزر جا ئے ۔فون کرو تو جلدی سے بند کر دیتی ہیں کی پھو پھی آوازدے رہی ہیں۔ان کو میں ایک لمحے کے لئے تنہا نہیں چھو ڑ سکتی ۔کبھی انسو لین کا وقت ہے اور کبھی کپڑے بدلانے کا ۔یوں لگتا ہے کہ شاعر نے یہ شعر بھابی جیسی مظلوم ہستی کے لئے ہی کہاہوگا کہ:
جا نتا ہو ں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیر
 غم سے پتھر ہو گیا  لیکن کبھی رویا نہیں
 

شیئر: