Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حصول علم میں علمائے کرام کی محنتیں

اگر صحیح حدیث مل جائے تو وہی مذہب حق ہے، ایک سچا طالبعلم متعصب نہیں ہوتا بلکہ وہ دیکھتا ہے کہ حق کیا ہے،اسکے دلائل کیا ہیں؟
* * * عبدالمالک مجاہد۔ریاض* * *
علم حاصل کرنے کے لئے علمائے کرام نے جو محنتیں اور کوششیں کی ہیں انہیں پڑھ کر حیرت ہوتی ہے۔ آج ہمارے گھروں‘ دفاتر‘ مکتبات اور آئی پیڈز میں ہزاروں کتب ہیں۔ دنیا میں ہزاروں اسلامی اشاعتی ادارے ہیں۔ ذرا اُس وقت کا تصور کیجیے جب پرنٹنگ پریس نہیں تھے‘ کتابوں کی دکانیں ضرور تھیں مگر چھپی ہوئی کتب کی جگہ قلمی نسخے ہوا کرتے تھے۔ طلبہ بالعموم اپنے ہاتھوں سے کتابیں لکھتے تھے البتہ جو مالدار ہوتے وہ بعض خطاطوں سے لکھوا لیتے تھے۔ میں نے جب علمائے کرام کی زندگیوں کا مطالعہ کیا تو اندازہ ہوا کہ ان میں اکثریت ایسے علماء کی تھی جو مالی اعتبار سے کمزور تھے‘ مگر غیرت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ کیا مجال کہ انہوں نے کسی کے سامنے ہاتھ پھیلایا ہو۔
اسلامی تاریخ کے وہ بڑے ہی سنہرے ادوار تھے جب مختلف شہروں میں محدثین کے علمی حلقات اپنی رونق اوربہار دکھلایا کرتے تھے۔ اساتذۂ کرام حدیث پڑھانے بیٹھتے تو ان کے ارد گرد شاگرد اس طرح بیٹھتے جس طرح چاند کے گرد ھالہ ہو۔ یوں تو ہزاروں کی تعداد میں ایسی شخصیات گزری ہیں جن کے علم حدیث سیکھنے کے لئے اسفار کے احوال بیان کیے گئے ہیںمگر ہم اس مضمون میں چند شخصیات کے بارے میں ہی گفتگو کریں گے کہ انہوں نے حصول علم حدیث کے لئے کتنے سفر اختیار کیے اور کتنی مشقتیں برداشت کیں۔ * امام التابعین سیدنا سعید بن المسیب فرماتے ہیں: میں ایک حدیث کو حاصل کرنے کے لئے کئی کئی دن اور راتیں سفر میں گزارتا تھا۔ * محمد بن ابی حاتم امام بخاری کے شاگردوں میں سے ہیں ۔ وہ فرماتے ہیں: میں آدم بن ابی ایاس کے پاس علم حاصل کرنے کے لئے گیا۔ راستہ میں میرے پاس نان و نفقہ ختم ہو گیا تو اپنے پیٹ کے ایندھن کو بجھانے کے لئے میں نے گھاس کھانا شروع کر دی۔
غیرت اس چیز کا نام ہے کہ انہوں نے کسی کوبتایا نہیں کہ وہ کون ہیںکہاں اور کس کے پاس جا رہے ہیں؟! اُس دور میں کتنے ہی مالدار لوگ ایسے تھے جو طلبہ کی مدد کرنے کے لئے تیار رہتے تھے مگر طلبہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا علماء کے وقار کے منافی سمجھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کی مدد کرتا ہے۔محمد بن ابی حاتم فرماتے ہیں: جب تیسرا دن ہوا تو ایک شخص میرے پاس آیا۔ میں اسے بالکل نہیں جانتا تھا ۔ اس کے پاس دیناروں سے بھری ہوئی تھیلی تھی۔ اس نے تھیلی مجھے یہ کہتے ہوئے پکڑا دی کہ اسے اپنی ذات پر خرچ کر لینا۔* امام حافظ محمد بن طاہر مقدسی نے بھی علم حاصل کرنے کے لئے کتنے ہی سفر کیے۔ فرماتے ہیں: حدیث کا علم سیکھنے کے لئے دوران سفر2مرتبہ ایسا ہوا کہ میرے قدموں سے خون بہنے لگا۔ ایک مرتبہ بغداد کا سفر کرتے ہوئے اور دوسری مرتبہ مکہ مکرمہ کے سفر کے دوران اس قسم کا معاملہ پیش آیا۔ قارئین کرام! کیا آپ جانتے ہیں کہ اس کا سبب کیا تھا؟ ان کا جوتا ٹوٹ گیا، مگر انہوں نے ننگے پاؤں سفر جاری رکھا۔ فرماتے ہیں: موسم شدید گرم تھا۔ پتھر گرم تھے‘ اب ننگے پاؤں چل رہے ہیں تو ان کے قدموں میں ورم آ گیا اور خون بہنا شروع ہو گیا۔
فرماتے ہیں:کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ مجھے سواری تک میسرنہیں تھی‘ لیکن اس کے باوجود میں سفر کرتا رہتا تھا۔ اس دوران ہمیشہ اپنی کتابوں کو اپنی پیٹھ پر لاد کر سفر کرتا تھا۔ میں نے زمانہ طالب علمی میں کسی شخص سے مالی امداد طلب نہیں کی۔ میری آمدن کا ذریعہ بعض مخیر حضرات کی طرف سے ملنے والے عطیات تھے جو مانگے بغیر وہ مجھے عطا کر دیا کرتے تھے۔ *محدثین علمائے کرام نے بعض اوقات معمولی باتیں سمجھنے کے لئے‘ یہاں تک کہ محض ایک حرف سیکھنے کے لئے سفر اختیار کیے۔ چنانچہ مسروق بن اجدع اور ابو سعید نے ایک مرتبہ محض ایک حرف سیکھنے کے لئے سفر کیا۔ * عامر بن شَراحیل شعبی کبار تابعین میں سے تھے۔ایک مرتبہ انہوں نے کوفہ سے مکہ تک صرف 3 احادیث کی سماعت کے لئے سفر کیا۔ کوفہ میں کسی نے ان سے 3 احادیث بیان کیں۔ اب ان کی خواہش تھی کہ انہیں کوئی ایسا صحابی مل جائے جنہیں ان احادیث کے بارے میں علم ہو اور وہ ان سے براہ راست سن سکیں۔
امام شعبی کو یقینا کسی نے بتایا ہو گا کہ مکہ مکرمہ میں وہ اصحاب موجود ہیں جن سے ان احادیث کی روایت کی گئی ہے تو وہ کوفہ سے مکہ مکرمہ تک کا سفر اختیار کرتے ہیں۔ قارئین کرام! ذرا غور کیجیے کہ اس سفر میں ان کو کم و بیش ایک ماہ تو لگ ہی گیا ہو گا۔ اللہ اللہ! یہ ہے علم کا شوق اور ہمارے سلف صالحین کی علم حدیث سے محبت کا ایک انداز۔آج کے دور میں اگر کسی کو کہا جائے کہ جاؤ ہوائی جہاز سے سفر کرو اور فلاں شخص سے صرف 3 احادیث سیکھ کر آؤ تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس کا جواب کیا ہو گا۔ آپ اسے ٹکٹ بھی پیش کریں،مگر وہ انکار کر دے گا۔ ائمہ کرام پر اللہ تعالیٰ کی کروڑوں رحمتیں ہوں کہ ان کے پاس قرآن و حدیث کا جو علم ہوتا تھا‘ اسی کے مطابق فتویٰ دیتے تھے۔
بعد ازاں اگر انہیں مزید احادیث مل جاتیں تو وہ بعض اوقات مزید دلائل میسر ہونے کے بعد اپنے فتاویٰ سے رجوع بھی کر لیتے۔ یہی بات حق ہے کہ اگر صحیح حدیث مل جائے تو وہی مذہب حق ہے۔ ایک سچا طالبعلم متعصب نہیں ہوتا بلکہ وہ دیکھتا ہے کہ حق کیا ہے؟ اسکے دلائل کیا ہیں؟ *امام احمد بن حنبل کے بارے میں بڑی معروف بات ہے کہ وہ فتویٰ دیتے وقت ہمیشہ کتاب اللہ اور سنت رسول کو پیش نظر رکھتے تھے۔خلیفہ معتصم باللہ سے انہوں نے یہی کہا تھا: أَعْطُونِي شَیْئًا مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ وَسُنَّۃِ رَسُولِہٖ حَتّٰی أَقُولَ بِہٖ۔ ’’ میرے سامنے اللہ کی کتاب اور سنت رسولسے کوئی دلیل لاؤ تو میں تمہاری بات مان لوں گا۔‘‘ جیسا کہ میں نے عرض کیا ،ان کی علمی وجاہت اپنی جگہ‘ مگر ان ائمہ ھدیٰ کی سب سے بڑی عظمت یہ تھی کہ جب انہیں صحیح حدیث اور دلیل مل جاتی تو اپنے فتویٰ سے رجوع کر لیتے تھے۔ * علامہ اسحاق بن منصور مروزی نیشاپور کے رہنے والے تھے۔ نیشا پور ایران کے شمال مشرق میں واقع ہے۔ ان کے بارے میں سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ یہ ایک مدت تک امام احمد بن حنبل کے پاس رہے۔ ان کے بیان کردہ فقہی مسائل کو اپنی کتاب میں قلم بند کرتے رہے۔ ایک وقت آیا کہ یہ اپنے وطن نیشاپور واپس چلے گئے۔ اس دوران انہوں نے جو مسائل قلمبند کیے تھے ‘ اپنے ساتھ لے گئے۔ کچھ عرصے بعد انہیں معلوم ہوا کہ امام احمد بن حنبل نے کتنے ہی مسائل سے رجوع کر لیا ہے۔ علامہ اسحاق نے اس کتاب اور دیگر کتب کو ایک گٹھڑی میں باندھا،اسے اپنی پشت پر رکھا اور پیدل ہی بغداد کی طرف چل دیے۔ بغداد پہنچ کر انہوں نے امام احمد بن حنبل سے ملاقات کی۔ انہیں اپنی کتاب میں لکھے ہوئے مسائل سے آگاہ کیا اور کہا: کچھ عرصہ پہلے آپ نے ان مسائل میں یہ فتاویٰ جاری کیے تھے‘ اب آپ کا فتویٰ کیا ہے؟ امام احمد بن حنبل نے اقرار کیا کہ ہاں میں نے واقعی پہلے ان مسائل میں یہ فتاویٰ دیے تھے۔ا ب جبکہ میرے پاس مزید تحقیق اور علم آ گیا ہے،صحیح احادیث مل گئی ہیں تو میں نے اپنے سابقہ فتاویٰ سے رجوع کر کے نئے فتاویٰ دیے ہیں۔
امام اسحاق بن منصور نے نئے فتاویٰ کو قلم بند کیا اور اپنے وطن واپس چلے گئے۔ امام احمد بن حنبل نے اپنے اس شاگرد کی جانب سے اس نیک مقصد کے لئے سفر کی صعوبتیں برداشت کرنے پر تعجب اور مسرت کا اظہار کیا تھا۔ * ابو العالیہ کہتے ہیں: جب ہم کسی شخص سے اللہ کے رسولکے صحابی سے روایت کردہ کسی حدیث کی سماعت کرتے‘ تو ہم سواری پر بیٹھتے اور اُن صحابی کے ہاں پہنچ کر ان سے ملاقات کرتے۔ ہم صحابی کی زبان سے وہ حدیث براہ راست سنتے۔ ان کے الفاظ پر غور کیجیے،فرماتے ہیں : فَلَا نَرْضٰی حَتّٰی نَرْکَبَ إِلَیْھِمْ فَنَسْمَعَہُ مِنْہُمْ۔ ’’ہمیں اس وقت تک چین نہ آتا جب تک سواریوں پر بیٹھ کر اُن صحابی کے پاس پہنچ نہ جاتے اور براہ راست ان سے حدیث کی سماعت نہ کر لیتے۔ * امام احمد بن حنبل اور یحییٰ بن مَعین بغداد سے یمن جانے کے لئے نکلتے ہیں۔ پروگرام تھا کہ ہم پہلے مکہ مکرمہ جائیں گے۔کچھ عرصہ وہاں ٹھہرنے کے بعد یمن کے لئے روانہ ہو جائیں گے اور صنعاء پہنچ کر امام عبدالرزاق بن ھمام الصنعانی سے احادیث سنیں گے۔ بغداد سے مکہ مکرمہ تک پیدل سفر قریباً ایک ماہ کا تھا۔
مکہ مکرمہ پہنچے تو حج کا موسم آ گیا۔ فیصلہ کیا کہ پہلے حج کریں گے پھر یمن جائیں گے۔ اسی دوران ایک دن یحییٰ بن معین طواف کر رہے تھے کہ ان کی نظر امام عبدالرزاق پر پڑی۔ وہ بھی حج کے لئے یمن سے آئے ہوئے تھے اور طواف کررہے تھے۔ یحییٰ بن معین نے ان کو سلام کیا۔ طواف سے فارغ ہوئے تو انہیں بتایا کہ امام احمد بن حنبل بھی اس سفر میں میرے ساتھ ہیں۔ امام عبدالرزاق نے امام احمد بن حنبل کے لئے خوب دعائیں کیں۔ ان کی تعریف فرمائی اور ان کے علمی کارناموں کی تحسین کی۔ یحییٰ بن معین کہتے ہیں: میں بہت خوشی کے عالم میں اپنی رہائش گاہ پہنچا۔ امام احمد بن حنبل سے کہا:اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے آسانی پیدا فرما دی ہے اور زاد راہ بھی بچ گیا ہے۔ فرمانے لگے: وہ کیسے؟ میں نے کہا: امام عبدالرزاق صنعانی بھی مکہ مکرمہ آئے ہوئے ہیں۔ اب یمن جانے کی ضرورت نہیںرہی،ہم مکہ مکرمہ میں ہی ان سے احادیث کی سماعت کر سکتے ہیں۔ امام احمد فرمانے لگے: بغداد میں قیام کے دوران ہی میں نے نیت کر لی تھی کہ صنعاء پہنچ کر امام عبدالرزاق سے احادیث نبویہ کی سماعت کروں گا۔ اللہ کی قسم! میں کسی صورت اپنی نیت بدلنے کو تیار نہیں۔ یحییٰ بن معین فرماتے ہیں: جب ہم حج سے فارغ ہوئے تو اپنے پروگرام کے مطابق یمن کے لئے روانہ ہوئے۔ صنعاء میں امام عبدالرزاق کے ہاں پہنچ کر ان سے حدیث کی سماعت کی۔ اسی دوران امام احمد بن حنبل کے پاس نفقہ ختم ہو گیا۔ امام عبدالرزاق نے انہیں مالی امداد پیش کی‘ مگر انہوں نے لینے سے معذرت کر لی۔ انہوں نے یمن میں محنت مزدوری شروع کرلی اور اس سے جو آمدنی ہوئی، اسی سے اپنا گزر بسر کیا۔* محمود بن عمر الزمخشری علم کے حصول کے لئے خوارزم کے علاقے میں سفر کر رہے تھے۔
یہ وہ علاقے ہیں جہاں خوب سردی پڑتی ہے۔ راستہ میں موسم خراب تھا‘ برف باری شروع ہو گئی۔سردی کی شدت اس قدر زیادہ تھی کہ ان کا ایک پاؤں جام ہو گیا اور اسے کاٹنا پڑا۔ اس طرح وہ ایک پاؤں سے محروم ہو گئے۔ ان کی جان تو بچ گئی مگر انہیں خوف ہوا کہ لوگ انہیں اس حال میں دیکھیں گے تو کسی کو خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ کہیں شرعی حدود میں تو اس شخص کا پاؤں نہیں کاٹا گیا؟! انہوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ ایک ورق تیار کیا۔ اس پر سارا واقعہ لکھا کہ کس طرح ان کا پاؤں ضائع ہوا ہے۔ پھر بہت سارے لوگوں سے اس پر تصدیق کروائی کہ وہ اس معاملہ کے گواہ ہیں اور واقعی ان کی ٹانگ سردی کی شدت سے کٹی ہے۔* ابان بن ابی عیاش بصرہ کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے ایک حدیث بیان کی جسے ابو معشر کو فی نے سنا۔ محدثین کی حدیث کے ساتھ محبت کا تقاضا بھی تھا اور اس کی تصحیح کے لئے بھی وہ ضروری سمجھتے تھے کہ راویٔ حدیث سے براہ راست حدیث کو سنا جائے۔ ابو معشر کوفی کوفہ سے بصرہ کا سفر کرتے ہیں ۔ کم و بیش 350کلو میٹر کا سفر طے کر کے بصرہ پہنچتے ہیں۔ ابان بن ابی عیاش سے ملاقات کرتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں:
میں آپ سے ایک حدیث سننے کے لئے کوفہ سے آیا ہوں۔ ابان نے ان کو محض ایک حدیث کی خاطراتنا لمبا سفر پیدل طے کرنے پر بہت سی دعاؤں سے نوازا۔ قارئین کرام! آج جو ذخیرۂ حدیث ہمارے پاس موجود ہے یہ آسانی سے ہمارے پاس نہیں پہنچ گیابلکہ ان احادیث کو جمع کرنے اور ان کی تحقیق کے لئے علمائے کرام نے گھر بار کو چھوڑا‘ لمبے لمبے اسفار کی صعوبتیں‘ گرمی سردی اور بھوک پیاس برداشت کی۔ محدثین سے براہ راست ملاقات کی۔ جب یقین ہو گیا کہ حدیث صحیح ہے،محدثین کے مقرر کردہ معیار کے مطابق ہے تو پھر اسے اپنی کتاب میں لکھا اور اپنے شاگردوں کو لکھوایا۔ * امام احمد بن حنبل پر فتنۂ خلق قرآن کے حوالے سے آزمائشوں اور مشکلات کے کئی ادوار آئے۔ انہیں کوڑوں سے پٹوایا گیا‘ جیل میں ڈالا گیا ۔ معتصم ان کو منوانے کے لئے ان پر بدترین تشدد کرواتا کہ آپ اس کی مرضی کا فتویٰ دیں۔ امام صاحب پر ظلم وزیادتی کرتے کرتے وہ اس دنیا سے رخصت ہو گیا‘ مگر امام حنبلؒ کے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہ کر سکا۔ امام احمد کے جیل جانے سے عوام میں اضطراب تھا۔ معتصم کے بعد واثق باللہ کا دور آتا ہے۔ اس نے امام صاحب کو جیل سے رہا کر کے گھر میں نظر بند کر دیا۔ اس نے حکم جاری کیا کہ آپ درس و تدریس کا کام نہیں کریں گے۔ گھر سے باہرنہیں جائیں گے۔ جمعہ یا5 وقت کی نماز بھی نہیںپڑھا سکیں گے۔ان حالات میں سرزمین اندلس سے ایک پُرعزم وباہمت نوجوان امام احمد بن حنبل کی خدمت میں حاضری کے لئے بغداد کی جانب روانہ ہوتا ہے۔ اندلس آج کل اسپین میں واقع ہے۔یہ 20 سالہ طالبعلم جس کا نام بقی بن مخلدہے‘ گھر سے نکلتا ہے ۔وہ امام احمد بن حنبل سے ملنا اور حدیث پڑھنا چاہتا ہے۔ ذرا تصور کریں، کہاں اندلس اور کہاں بغداد ۔ہزاروں کلو میٹر کا فاصلہ ہے مگر جسے علم کا شوق ہوتا ہے وہ فاصلوں کو نہیں دیکھتا۔ اگر اسے علم حاصل ہوگیا تو فضیلت ‘ مقام ‘ مرتبہ اور اللہ تعالیٰ کا قرب سب کچھ حاصل ہو جاتا ہے۔ صحیح حدیث میں آتا ہے کہ اللہ کے رسولنے ارشاد فرمایا :مَنْ سَلَکَ طَرِیقًا یَلْتَمِسُ فِیہِ عِلْمًا سَھَّلَ اللّٰہُ لَہُ طَرِیقًا إِلٰی الْجَنَّۃِ۔ ’’جوشخص علم حاصل کرنے کے لئے کسی راہ پر چلا‘اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کی راہ آسان فرما دیتا ہے۔‘‘ بقی بن مخلد بغداد کے قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ امام احمد بن حنبل پر درس و تدریس کی پابندیاں ہیں۔ یہ کب ختم ہوں گی‘ اللہ ہی جانتا ہے؟ امام احمد اپنے گھر میں نظر بند ہیں۔ بقی سخت مایوس ہوئے ‘مگر یہ پابندیاں ‘ یہ نظر بندیاں دین کے طالب علم کو حصولِ علم سے روک نہیں سکتیں ۔ انہوں نے تہیہ کر لیا کہ علم تو ہر حال میں حاصل کرنا ہو گا۔ ایک سرائے میں گئے اور اپنا سامان وہاں رکھا۔ اس زمانے میں دین کے طالب علموں کا خاص لباس ہوتا تھا۔ دور سے پہچان لئے جاتے کہ یہ طالب علم ہے۔
یہی وجہ تھی کہ لوگ ان کی عزت اور قدر کرتے‘ امکانی حد تک ان کی مدد بھی کرتے۔ بقی سرائے میں پہنچے تو سرائے کے مالک نے انہیں مفت رہائش مہیا کر دی۔ اُس زمانے کے بغداد میں بے شمار علمی حلقے تھے۔ طلبہ دور دور سے آتے اور ان علمی سرچشموں سے اپنی پیاس بجھاتے۔ بقی جامع مسجد دار السلام میں گئے۔وہاں مشہور محدث امام یحییٰ بن معین کا حلقہ علم ِحدیث تھا۔ درس میں شریک ہوئے‘ سوال و جواب شروع ہوئے ۔بقی نے بھی آگے بڑھ کر سوال کرنا شروع کیے۔ یہ تو بڑی دور سے آئے تھے۔ حدیث کے راویوں پر جرح و تعدیل ہو رہی ہے۔ کون ثقہ ہے‘ کون ضعیف ہے‘ کون منکر ہے ؟ بقی نے ایک کے بعد دوسرا ‘پھر تیسرا اور چوتھا سوال پوچھا تو دیگر طلبہ نے شور مچا دیا کہ انہیں بھی سوال کرنے کا حق ہے۔اس نوجوان نے کئی سوال کر لئے ہیں‘ اب اسے چاہیے کہ دوسروں کو موقع دے۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ سنت کا یہ جانثار کہاں سے آیا ہے؟ بقی نے کہا: بس صرف ایک سوا ل آخری سوال۔امام یحییٰ بن معین نے سر اٹھایا‘ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ سوال پوچھو؟ بقی نے کہا: آپ یہ بتا دیں کہ ابو عبد اللہ احمد بن حنبل کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ ثقہ ‘ ضعیف یا منکر۔ سوال تو زیادہ مشکل نہیں تھا‘ مگر حالات ایسے تھے کہ امام احمد کی تعریف میں کچھ کہنا خود کو آزمائش میں ڈالنا تھا۔استاذ یحییٰ بن معین نے حالات کی کوئی پروا نہیں کی‘ امام احمد کے ذکر پر ان کا چہرہ تمتما اٹھا۔ کہنے لگے: تم مجھ سے احمد بن حنبل کے بارے میں پوچھتے ہو؟وہ صرف ثقہ ہی نہیں ‘ بلکہ فوق الثقہ ہیں۔ ارے ہم کون ہوتے ہیں‘ ان کے حوالے سے بات کرنے والے‘ وہ امام اہل سنت وجماعت ہیں ۔ وہ تو بڑے اعلیٰ مقام پر فائز ہیں۔
(جاری ہے)

شیئر: