Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

محاذ آرائی

ایک عجیب قسم کا نعرہ مستانہ وجود میں لایا گیا کہ مقدمہ تو پانامہ سے متعلق تھا مگر فیصلہ اقامہ پر کیا گیا
* * * *محمد مبشر انوار* * * *
کوشش تو یہی تھی کہ اس مرتبہ کچھ مختلف لکھا جائے بالخصوص تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کے عدالتوں میں پیش نہ ہو نے والے غیر ذمہ دارانہ رویے کی مذمت کی جائے مگر اس سے قبل ہی چیئر مین عمران خان نے ہمیشہ کی طرح فرنٹ فٹ پر کھیلتے ہوئے ببانگ دہل اعلان کیا کہ اگر سپریم کورٹ انہیں نا اہل قرار دیتی ہے تو وہ نہ صرف یہ کہ سیاست چھوڑ دیں گے بلکہ پارٹی قیادت سے بھی علیحدگی اختیار کر لیں گے۔
عدالتی فیصلوں کے سامنے سرنگوں ہونا ہی ملک کے بہترین مفاد میں ہوتا ہے اور یہی عمل ملک میں ایک نظم کو برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے جبکہ کسی بھی سیاسی قائد کا یہ عمل اس کے سیاسی پیروکاروں کے لئے قابل تقلید ہوتا ہے بلکہ ایک لحاظ سے سیاسی کارکنوں کی تربیت کا بنیادی عنصر ہوتا ہے۔ عمران خان کے اس بیان سے محسوس ہوتا ہے کہ ان کو اندازہ ہے کہ پارلیمنٹ میں ہونے والی نئی ترامیم کا کوئی خاص فائدہ انہیں انفرادی طورپر نہیں ہو سکتا کہ ان کے حلیف شیخ رشید ہی ان ترامیم کے خلاف سپریم کورٹ میں جا چکے ہیں اور قرین قیاس یہی ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے نا اہل قرار دئیے جانے والے ’’فرد واحد‘‘ کی خاطر کی جانے والی اس ترمیم کو بد نیتی یا اختیارات سے تجاوز قرار دیا جا سکتا ہے لہذا ابھی سے اعلان دستبرداری،عوامی سطح پر مقبولیت کو مزید تقویت دے سکتی ہے ۔
یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے اگر سپریم کورٹ پارلیمان کی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس ترمیم کو مان لیتی ہے تب بھی خان صاحب قیادت سے دستبردار ہو جائیں گے یا اس ترمیم سے فائدہ اٹھانے والوں میں شامل ہوں گے؟اس سب کے باوجود خان صاحب کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کی باز گشت ہواؤں میں ہے اور اس سے کسی بھی صورت ان کا تاثر مثبت نہیں ابھر رہا بلکہ ایک طرح سے ان کا شمار بھی موجودہ قائدین ہی کی ذہنی استعداد سے مطابقت رکھتا نظر آتا ہے کہ جو قوانین ،قاعدوں اور عدالتوں کا احترام برائے نام ہی کرتے نظر آتے ہیں، ایسی پالیسی کسی بھی صورت ایک قومی رہنما کو نہ زیب دیتی ہے اور نہ ہی یہ اس کے شایان شان ہے۔ ایک طرف تو آپ کے پرستار آپ کو مختلف حوالوں سے قائد اعظم کے ساتھ ملاتے ہیں اور دوسری طرف یہ بھول جاتے ہیں کہ بابائے قوم کے پورے کیرئیر میں قانون کی ایک خلاف ورزی بھی شامل نہیں اور نہ ہی انہیں کبھی جیل لے جایا گیا،اتنا صاف ستھرا سیاسی کیرئیر کسی بھی اور رہنما کا نہیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی،آئی سی سی فیلو شپ یا اس طرح کی دوسری مماثلتیں کبھی بھی سیاسی سطح پر آپ کا وہ مقام متعین نہیں کرسکتی جو خاصہ بابائے قوم کا رہا ہے،اگر ان کے نقوش پا ہی کی تلاش ہے تو قانون کی خلاف ورزی کسی صورت نہیں ہونی چاہئے اور نہ ہی عدالتوں کی بے حرمتی،امید ہے کہ آپ عدالتوں کے سامنے کسی بھی صورت پیش ہونے سے گریز نہیں کریں گے۔ اب بات ہو جائے اس کی جو ہر صورت خود کو نمایاں رکھنے میں ہمیشہ کامیاب رہے ہیں کہ بدنام اگر ہوئے تو کیا نام نہ ہو گا۔ نا اہل وزیر اعظم کی داغدار شہرت دنیا کے کس حصے میں نہیں پہنچی ؟کون سا ایسا خطہ ہے جہاں پاکستان کا نام بدنام نہیں ہوا؟ لیکن اس سب کے باوجود نہ تو نااہل وزیراعظم اور نہ ہی ان کے متوالوں کو اس کا احساس،ادراک کما حقہ ہو سکا ہے جس کا فقط ایک ہی مطلب ہے کہ جیسا قائد ویسے ہی اس کے پیروکار مگر یہاں اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ متوالوں کی اکثریت شخصیت پرستی یا بھٹو مخالفت میں نواز شریف کے ساتھ کھڑی ہے وگرنہ پاکستانی من حیث القوم سب سے زیادہ اہمیت اپنے وطن کو دیتے ہیں ماسوائے ان تاجروں کے جن کا دین، ایمان اور مذہب صرف حصول زر ہے ،خواہ اس کا ذریعہ و منبع کچھ بھی ہوانہیں اس سے غرض نہیں۔
میاں نواز شریف کے ماضی پر نظر دورائیں تو یہ حقیقت واضح ہے کہ اپنے مقصد اور مطلب براری کیلئے میاں نواز شریف نے کسی اصول یا قاعدے کی کبھی پروا ہی نہیں وہ خواہ مرکز گریز پالیسی رہی ہو یا عدالتوں کا احترام۔میاں صاحب نے ہمیشہ اپنے مطلب کے حصول کو ترجیح دی اور ببانگ دہل کہا کہ ان کی طاقت ان کی محاذآرائی میں پوشیدہ ہے اور آج بھی صورتحال ایسی ہی ہے کہ میاں صاحب اتنے حقائق سامنے آنے کے باوجود انہیں تسلیم کرنے کی بجائے ایک بار پھر محاذ آرائی پر تلے نظر آتے ہیں۔ پاناما کیس میں جہاں کئی حکمران اپنے عہدوں سے رخصت ہوئے،میاں صاحب نے اولاً اس کو تسلیم کرنے سے ہی انکار کیا اور بعد ازاں سپریم کے از خود نوٹس پر(جب ملک میں انتشار و انارکی کا شدید خطرہ پیدا ہوا)بھی ٹھوس ثبوت فراہم کرنے کی بجائے فقط قطری خط کا سہارا لینے کی کوشش کی۔
سپریم کورٹ نے اس کیس کی تفصیلی جانچ پڑتال کرنے کی خاطر ملک کے بہترین متعلقہ افسران پر مشتمل جے آئی ٹی تشکیل دی تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے مگر افسوس کہ وہاں بھی شریف خاندان ٹھوس ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہا لیکن اس تفتیش کے دوران جے آئی ٹی نے اقامہ کی بے ضابطگی بھی تلاش کر لی جو رائج قانون کے مطابق نا اہلی کی مضبوط وجہ بنی مگر اس حقیقت کو تسلیم کرنے کی بجائے ایک بار پھر اداروں پر طعن و تشنیع کے ساتھ ساتھ شدید تنقید کرتے ہوئے انہیں مطعون کیا گیا،جس کا مقصد صرف اور صرف عوام کو حقائق سے گمراہ کرنا تھا۔ ایک عجیب قسم کا نعرہ مستانہ وجود میں لایا گیا کہ مقدمہ تو پانامہ سے متعلق تھا مگر فیصلہ اقامہ پر کیا گیا،کس قدر لغو بات ہے کہ حکمران فقط اپنی ذات کو بچانے کی خاطر اداروں کی نہ صرف تضحیک کرتے رہے بلکہ ان کے دائرہ کار کو بھی محدود کرنے کی بھونڈی کوشش کی۔ اسلام آباد سے لاہور تک ایک ہی گردان کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ جو کلیتاً بے بنیاداور عوامی جذبات کو انگیخت کرنے کا بہانہ تھامگر پھر بھی کامیابی نصیب نہ ہوئی کہ متعلقہ اداروں نے انتہائی صبر و تحمل سے اس بے بنیاد پراپیگنڈے کا سامنا کیا مبادا کہیں اس کے جواب سے ملکی مفادات متاثر نہ ہوں اور مقدمے کی ہیئت ،ملزمان کی حیثیت نہ بدل دے اور ملزمان جس صورتحال کے متلاشی ہیں انہیں وہ بنیاد نہ مل جائے۔
سیاسی شہادت کے متمنی ابھی تک اپنے ترکش کے تمام تیر آزما رہے ہیں کہ کسی طرح سے متعلقہ ادارے ماورائے آئین رد عمل کا مظاہرہ کریں تا کہ ا ن سیاسی یتیموں کی نہ صرف بن آئے بلکہ لوٹ مار کا وہ تمام مال بھی محفوظ ہو جائے جو انتہائی ’’محنت‘‘ سے پاکستان کو لوٹ کر کمایا گیا ہے۔ میاں نواز شریف اپنی بھرپور کوششوں میں ہیں کہ کسی طرح بھی اداروں کو بر انگیخت کیا جائے تا کہ محاذ آرائی کے جواب میں کوئی ایسا اقدام ہو جائے جس سے ان کی حیثیت ’’مظلوم ‘‘ کی ہو جائے،احتساب عدالت میں ایک طرف تو قانونی موشگافیوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش ہو رہی ہے تو دوسری طرف مٹھی بھر افراد کو اس کام پر لگا دیا گیا ہے کہ وہ عدالتوں میں ایسا رویہ اختیار کریں جس سے عدالتیں اپنا کام کرنے سے قاصر ہوں۔ احتساب عدالت میں 13اکتوبر کی پیشی کے دوران ہنگامہ آرائی اسی امر کا مظہر تھی کہ عدالتوں کو دباؤ میں لایا جائے جبکہ اس سے قبل گزشتہ پیشی پر رینجرز کی موجودگی کو چیلنج کیا گیا تھا کہ ریاست کے اندر ریاست برداشت نہیں کی جائے گی مگر آج رینجرز کی عدم موجودگی میں جو حال پنجاب پولیس کے افسران کا ہوا،اس نے رینجرز کی موجودگی کو درست ثابت کیا اور اس کے ساتھ ہی ملزمان کے گھناؤنے مقاصد کو بھی بے نقاب کر دیا۔ کیا اگلی پیشی پر معزز عدالت رینجرز کو طلب کرے گی یا وزیر داخلہ اداروں کے احترام کو یقینی بنانے کیلئے ،ان کی کارروائی کو پر امن طور پر جاری رکھنے کے لئے رینجرز کی تعیناتی کی درخواست کریں گے یا اپنے نا اہل سیاسی قائد کے گھناؤنے مقاصد کی خاطر اداروں کی تذلیل جاری رکھیں گے؟سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا اس مرتبہ بھی محاذ آرائی کے نتیجے میں خود کو مظلوم ثابت کر پائیں گے یا پھر غیر آئینی قدم اٹھایا جائے؟

شیئر: