Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قاتلوں کو انعام

اب تک گئو کشی کے جھوٹے الزامات کے تحت جن درجنوں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا
معصوم مرادآبادی
کسی بھی معاشرے میں امن وامان برقرار رکھنے کے لئے جرائم پیشہ افراد کو عبرتناک سزائیں دینا انتہائی ضروری ہے لیکن ہمارے ملک میں اس وقت جو نظام چل رہا ہے، اس میں مجرموں کو انعام واکرام سے نوازنے کا چلن ایجاد کیاگیا ہے ۔ اس سے بڑھ کر بدقسمتی اور کیا ہوسکتی ہے کہ انتہائی سفاکی اور بربریت کے ساتھ ہلاک کئے گئے محمد اخلاق کے ملزموںکو سیاسی تحفظ اور سرکاری ملازمتیں دی جارہی ہیں۔ اترپردیش کے دادری ٹاؤن میںستمبر2015میں عین بقرعید کے موقع پر محمداخلاق کو شرپسندوں نے پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا تھا۔ شرپسندوں نے محمد اخلاق پر گئو کشی کا جھوٹا الزام لگایا اور پھر ایک وحشی ہجوم نے ان کے گھر پر حملہ آور ہوکر درندگی اور بربریت کی وہ کہانی رقم کی کہ انسانیت کانپ اٹھی۔ اس دردناک واردات کی گونج پوری دنیا میں سنائی دی اور انسانی حقوق کے درجنوں کارکنوں اور دانشوروں نے احتجاجاً حکومت سے حاصل شدہ ایوارڈ واپس کردیئے۔ محمد اخلاق کے قتل کے الزام میں 15نوجوانوں کی گرفتاری عمل میں آئی تھی جس میں بی جے پی کے ایک مقامی لیڈر کا بیٹا بھی شامل تھا۔ اس معاملے کی گونج عالمی پیمانے پر سنائی دی تھی اور لوگوں کو امید تھی کہ محمد اخلاق کے قاتلوں کو عبرتناک سزائیں ملیں گی تاکہ مستقبل میں پھر کوئی ایسی بربریت کا ارتکاب نہ کرسکے لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ تمام گرفتار شدگان یکے بعد دیگرے ضمانت پر رہا ہوگئے کیونکہ پولیس نے ان کے خلاف جو مقدمات قائم کئے تھے ،وہ اتنے کمزور اور لچر تھے کہ ملزمان کوضمانتیں حاصل کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔ شرمناک بات یہ ہے کہ ان ملزمان کی رہائی کے بعد انہیں انعام واکرام سے نوازنے کیلئے اترپردیش کی یوگی سرکار انکی بازآبادکاری کے منصوبے پر پوری بے شرمی کے ساتھ کام کررہی ہے۔ یہاں تک کہ مرکزی حکومت کے ایک اہم ادارے میں ان ملزمان کو ملازمتیں دی جارہی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق محمد اخلاق کے قتل میں ملوث ملزمان کو3 ماہ کے اندر مرکزی وزارت توانائی کے ذیلی شعبے این ٹی پی سی (نیشنل تھرمل پاور کارپوریشن) میں کنٹریکٹ پر ملازمت ملنے والی ہے۔ اس سلسلے میں 9اکتوبر کو بی جے پی ممبراسمبلی تیج پال ناگر نے دادری میں واقع این ٹی پی سی کے سینیئر افسران سے بات چیت کی تھی تاکہ مذکورہ ملزمان کو وہاں ملازمت فراہم کی جاسکے۔ ان ملزمان کو این ٹی پی سی کے اشتراک سے کام کرنے والی ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت دی جائیگی۔ اس سلسلے میں این ٹی پی سی کی جانب سے ڈپٹی ڈائریکٹر اومیش کمار ، سینیئر منیجر نکیش کمار اور بی جے پی ممبراسمبلی تیج پال ناگر نے دستخط کئے ہیں۔ ان ملزمان کو ملازمتیں فراہم کرنے کے علاوہ محمد اخلاق قتل کیس کے ایک فوت شدہ ملزم کے پسماندگان کو بھی معاوضہ اور اس کی بیوہ کو ٹیچر کی نوکری دی جارہی ہے۔ آپ کو یادہوگا کہ اخلاق قتل کیس کے ایک ملزم روین سسودیا کی گردے خراب ہوجانے کی وجہ سے جیل میں ہی موت ہوگئی تھی۔ اب اس کے اہل خانہ کو 8لاکھ روپے کا معاوضہ اور اس کی بیوہ کو ایک پرائمری اسکول میں ملازمت دی جارہی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ روین سسودیا کی جیل میں موت ہوجانے کے بعداسے قومی پرچم میں لپیٹ کر آخری رسومات ادا کی گئی تھیں اور اس موقع پر مرکزی وزیر مہیش شرما بھی اسے خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے موجود تھے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بی جے پی کی مرکزی اور صوبائی حکومت محمد اخلاق کے قاتلوں کو نہ صرف یہ کہ تحفظ فراہم کررہی ہے بلکہ انہیں سرکاری ملازمتوں کا تحفہ دے کر یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ محمد اخلاق اور اس کے گھر والوں کے ساتھ ظلم وبربریت کا جو تانڈو کھیلا گیا تھا، وہ بالکل درست تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومت نے آج تک اخلاق اور اس کے گھر والوں کی کوئی خبر نہیں لی اور نہ ہی ان کی گاؤں واپسی کے سلسلے میں کوئی قدم اٹھایا ہے۔ اخلاق کے گھر والے آج بھی دردر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ وہ عدم تحفظ کے شدید احساس کے ساتھ انصاف کی لڑائی لڑرہے ہیں لیکن سرکاری مشینری قانون کی پاسداری کی بجائے لاقانونیت پھیلانے والوں کی سرپرستی کررہی ہے۔ محمد اخلاق کا ایک بیٹا ہندوستانی فضائیہ میں ملازم ہے اور وہ آج بھی ملک کی حفاظت کی ذمہ داری نبھارہا ہے۔ ایک وطن دوست خاندان کے خلاف گئو کشی کا جھوٹا الزام عائد کرکے درندگی اور بربریت کا جو کھیل کھیلا گیا وہ انتہائی شرمناک تھا۔ لیکن اس وحشیانہ کارروائی کے ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچانے کی بجائے انعام واکرام سے نوازنا اور ان کی بازآبادکاری کے سرکاری انتظامات کرنا انسانیت کے خلاف ایک سنگین جرم ہے۔ معاملہ صرف محمد اخلاق اور ان کے اہل خانہ کا ہی نہیں بلکہ اب تک گئو کشی کے جھوٹے الزامات کے تحت جن درجنوں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے، اُن کے ملزمان کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی گئی ۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر مقدمات میں ملزمان کو ضمانتیں مل گئی ہیں اور وہ سکون کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں راجستھان کے الور ضلع میں پیٹ پیٹ کر ہلاک کئے گئے پہلو خان کے ملزمان کو عدالت نے باعزت بری کردیا ہے حالانکہ پولیس نے ان 6ملزمان کی گرفتاری کے لئے باقاعدہ انعام کا اعلان کیا تھا لیکن ان کی گرفتاری سے قبل ہی عدالت نے ان کے بے قصور ہونے کا اعلان کردیا۔ ظاہر ہے یہ سب کچھ سرکاری مشینری کی مدد اور تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ اسی طرح ہریانہ کے جنید خاں قتل کیس کے ملزمان بھی یکے بعد دیگرے رہا ہوگئے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سرکاری مشینری گئو کشی کے جھوٹے الزام میں درندگی اور بربریت پھیلانے والے دہشت گردوں کو ہر قسم کا تحفظ فراہم کررہی ہے۔ ہرچند کہ سپریم کورٹ نے گئو رکشا کے نام پر غنڈہ گردی پھیلانے والے عناصر کے خلاف کارروائی کیلئے ہر صوبے میں ایک نوڈل افسر مقرر کرنے کا حکم دیا ہے لیکن گئو کشی کی آڑ میں مسلمانوں پر دہشت گردوں کے حملے آج بھی جاری ہیں اور وہ کھلے عام قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکتے پھررہے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭

شیئر:

متعلقہ خبریں