Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ترقی کی راہ میں رکاوٹ ، کا لی بھیڑیں

عنبرین فیض احمد۔ کراچی
برسات کا موسم شروع ہوتے ہی ملک بھر میں ہر قسم کے مچھروں کی نشوونما کے لئے سازگار ماحول پیدا ہوجاتا ہے۔ مسلسل بارشوں سے مچھروں کی افزائش میں مزید تیزی آجاتی ہے اور وہ اگست سے لے کر نومبر تک زیادہ ہوتی ہے لیکن جونہی سردی شروع ہوتی ہے تو ”نوجوان اور صحتمند“ مچھر اپنی جان بچانے کے لئے ”اپنی فیملیز“کو لے کر گرم مرطوب علاقوں کی جانب نقل کر جاتے ہیں اورکم ہمت ، معمر اور کھوسٹ قسم کے مچھر اپنے آبائی خطے کو نہیں چھوڑتے چنانچہ سردی میں ٹھٹھر کر جان دے دیتے ہیںاور وہیں پیوندِ خاک ہو جاتے ہیں۔اگربارش کا سلسلہ جاری رہے توجگہ جگہ پانی کھڑا ہو جاتا ہے جس میں مچھرموج منانے پہنچ جاتے ہیں۔ ایسے پانیوں میں ملیریاکا باعث بننے والے مچھر زیادہ پھلتے پھولتے ہیں جبکہ صاف پانی کے ذخیروں میں ڈینگی مچھر اپنے خاندان کے ساتھ قیام کرتے ہیں اور لوگوں کو ڈینگی میں مبتلا کرنے کے لئے اپنی زندگی وقف کر دیتے ہیں۔ 
ڈینگی مچھروں کے ”ڈسے ہوئے“ انسان بخار میں مبتلا ہو کر ڈاکٹروں کے کلینکس اور اسپتالوں کا رُخ کرتے ہیں۔ ایسے میں عوام حکومت کو موردالزام ٹھہرانا شروع کر دیتے ہیںحالانکہ ڈینگی کو وبائی شکل اختیار کرنے سے روکنے کی ذمہ داری صرف حکومت کی ہی نہیں بلکہ عوام پر بھی عائد ہوتی ہے ۔ انہیں خود بھی اپنا خیال رکھنا چاہئے اور احتیاطی تدابیر اپنانی چاہئیں تا کہ وہ اس موذی مرض سے نجات پاسکیں۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہر سال ہمارے وطن عزیز میں اتنی ہلاکتیں اسی موذی مرض کی وجہ سے ہوتی ہیں ، اس کے باوجود ہمارے صاحبان اختیار اس بات کا نوٹس نہیں لیتے۔ حکومت ڈینگی سے بچاﺅ کے اسپرے وغیرہ ہر گلی ، ہر محلے میں کرواتی ہے تا کہ ان مچھروں کی افزائش ہی ختم ہو جائے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ ڈینگی مچھر کے انڈوں کی بڑی تعداد برسات شروع ہونے سے پہلے ہی موجود ہوتی ہے ۔ ایک خاص درجہ حرارت پریہ انڈے لاروے میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان انڈوں کو ایسا ماحول فراہم نہیں کیا جانا چاہئے کہ وہ لاروے میں تبدیل ہو ں کیونکہ یہی لاروے ،پیوپا کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ ڈینگی بخار سے بچاﺅ کی نہ کوئی دوا بھی تک ایجاد ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی ٹیکہ بن سکا ہے ۔ اس کو صرف حفاظتی امور سے روکا جا سکتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ڈینگی بخار کا باعث بننے والا مچھر بڑا صفائی پسند ہوتا ہے۔اسی لئے یہ خطرناک مچھر کسی گندی جگہ یا جوہڑ وغیرہ کے اوپر نظر نہیں آتا بلکہ بارش کے صاف پانی، گھریلو واٹر ٹینکس کے آس پاس ، صاف پانی کے بھرے ہوئے برتنوں میں، گلدانوں میں ، گملوں میں یہ مچھر جنم لیتے ہیں جو عام طور پر گھروں میں سجاوٹ کے لئے رکھے جاتے ہیں۔ 
وطن عزیز میں ابھی تک یہ مرض چند شہروں تک ہی محدود ہے۔ اگر حکومت کے ذمہ داران ا سے سنجیدگی سے نہیں لیں گے تو یہ مرض سارے ملک خاص کر مضافاتی علاقوں میں پھیل سکتا ہے ۔ اس مرض سے بچاﺅ کے لئے بروقت اور موثر اقدامات کرنے سے ہی اسے وبائی شکل اختیار کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔ اس لئے وطن عزیز کے تمام صوبوں اور وفاقی وزارت صحت کو بھی اس صورتحال کا سنجیدگی سے ہنگامی بنیادوں پر نوٹس لینا چاہئے تا کہ ہمارے ملک سے آہستہ آہستہ اس قسم کے مچھروں کے وجود کا خاتمہ ہو سکے۔ کم از کم لوگوں کی جانیں ضائع نہ ہوں۔ اس مرض سے بچاﺅ کی ایک ہی صورت ہے کہ کہیں پانی کھڑا ہونے نہ دیاجائے۔ مچھروں کی ممکنہ افزائش کی جگہوں پرمچھر مار دواﺅں کا اسپرے کیا جائے لیکن ہمارے وطن عزیز میں ایسے لا پروا،بدعنوان، رشوت خور اور دھاندلی کرنے والے ذمہ داران موجود ہیں کہ حکومت جو رقم انسداد ڈینگی مہم پر خرچ کرنا چاہتی ہے وہ اس پر خرچ نہیں ہوپاتی بلکہ وہ سارا فنڈبدعنوان عناصر کی جیبوں کی نذر ہو جاتا ہے ۔ اسی لئے ہم ابھی تک ترقی پذیر ملکوںکی صف میں کھڑے ہیں۔
ہمارے مختلف شعبوں میں کالی بھیڑیں موجود ہیں جن کی وجہ سے ہمارا ملک 70سال گزر جانے کے بعد بھی ترقی نہیں کر سکا اور عوام سسک سسک کر جینے پر مجبور ہیں۔یہ کا لی بھیڑوں ہمارے ملک کی ترقی و خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ اس کے برعکس جب ہم ترقی یافتہ ملکوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ملک اور عوام سے کتنے مخلص ہیں۔ وہاں عوام کا ہر طرح سے خیال رکھا جاتا ہے ۔حفظان صحت کے لئے مخصوص مہینوں میں مختلف قسم کے اسپرے وغیرہ کرتے ہیں تا کہ ان کی عوام کو کوئی تکلیف نہ ہوا۔ 
دھنک کے صفحے پر دی گئی تصویر میں یہ دکھایا گیا ہے کہ کسی ایسوی ایشن کے تحت واک کی جا رہی ہے تا کہ ڈینگی سے بچاﺅ کے لئے لوگوں میں آگہی پیدا ہو سکے ۔اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں دھوکہ دینا عام بات بن کر رہ گئی ہے۔ ہم کوئی بھی کام نیک مقاصد کے لئے بمشکل ہی کرتے ہیں۔ہماری بے اعتنائی کا یہ عالم ہے کہ ہمارے اندر اچھے اور برے کی تمیز ختم ہو چکی ہے۔ ہم ایسے لا پروا ہو چکے ہیں کہ ہمیں لوگوں کی زندگیوں کی بھی پروا نہیں۔ بجائے اس کے کہ ان کی زندگیوں کو پرسکون بنائیں اور ان کی مشکلات کو کم سے کم کرنے کی کوشش کریں ہم ان کی مشکلات میں اضافہ کرتے ہیں۔ ہمارا ہر عمل صرف اور صرف دکھاوے کے لئے ہوتا ہے اور جو کام بھی ہم کرتے ہیں وہ صرف اپنے مفاد کے لئے ہوتا ہے بلکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ ہم جو کام کریں اس میں اجتماعی فائدہ ہو مگر حقیقت احوال یہ ہے کہ ڈینگی مار مہم میں اسپرے کے لئے ددور کی جگہ ڈیزل کی دھونی دے کر عوام کو بیوقوف بنا یاجاتا ہے۔ جس سے عوام کی صحت کے لئے خطرات پیدا ہوتے ہیں ، ڈینگی مچھردندناتے پھرتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ جہاں پر اس قسم کے مچھروں کی افزائش کا خدشہ ہو وہاں پر اسپرے کیاجائے۔ 
رہے بدعنوان افسران و ذمہ داران تو ان سے بازپرس کرنے والا کوئی نہیں۔ہمارے ہاں مختلف شعبوں میں لگتا ہے کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ دوسری جانب ہمارے معاشرے میں ایسے عناصر بھی موجود ہیں جوہر کام میں دکھاوا اور بناوٹ کرنے کے عادی ہوتے ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں ایسا نہیں ہوتا۔ وہاں باقاعدہ تنظیمیں بنائی جاتی ہیں جو لوگوں کی فلاح و بہبود کے لے کام کرتی ہیں ۔ وہ اپنے مسائل کے لئے آواز اٹھاتے رہتے ہیں ۔وہ نہ صرف آواز اٹھاتے ہیں بلکہ ان مسائل کا حل بھی پیش کرتے ہیں ۔ان کے ہاں حکومتی اداروں اور ذمہ داران پر دباﺅ ڈالا جاتا ہے کہ ان کے مسائل کو حل کیا جائے اس کے برعکس ہمارے وطن عزیز میں ہر مسئلے کو ذاتی مفاد کے آئینے میں دیکھا جاتا ہے ۔ ہمارے ہاںنہ مسائل حل ہوتے ہیں اور نہ ہی حکومتی اداروں پر کوئی دباﺅ ڈالتا ہے اور یہی ہماری بدنصیبی ہے ۔ معاشرے میں اپنی تشہیر کی کوشش بھی جاری و ساری رہتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں سب کو اپنی اپنی پڑی رہتی ہے۔ ہم بحیثیت قوم کمزور تر ہوتے جا رہے ہیں۔
دیکھاجائے تو آج مغرب نے ہمارے آباءکے اصولوں کو اپنارکھاہے۔ دیانتداری ، ناپ تول میں سچائی او راخلاق، ایک دوسرے کی مدد کرنا ، دوسروں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنا، ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی نہ کرنا، معاشرے کی فلاح و بہبود اور بنی نوع انسان کی بھلائی کے لئے کام کرنا ،ہر طرح کی ایجادات کرنا جس سے ہماری زندگیاں آسان اور سہل ہوسکیں۔ برسہا برس سے ہمارے اسلاف کے انہی اطوارکو مغرب نے اپنا وتیرہ بنا رکھا ہے اور ہم ہیںکہ تنزل کی جانب جا رہے ہیں۔ دنیا کہاں سے کہاں جا رہی ہے اور ہمیں ایک دوسرے کو دھوکہ دینے ، لوٹ مار اور دھاندلی کرنے سے فرصت نہیں۔ ہمارے قول و فعل میں کافی تضاد ہے۔ یہی نہیں ہمارے معاشرے میں ہر قسم کی برائیاں جنم لے رہی ہیں جو انتہائی افسوس ناک ہے۔ سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ ہم نیکیوں سے دور اور ہر قسم کی برائیوں سے قریب ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمارا ہر کام دکھاوے کے لئے ہوتا ہے، ہم ہر کام میں اپنا ذاتی مفاد تلاش کرتے ہیں۔ ہمیں نام و نمودکی بجائے نیک نیتی سے مسئلے کو حل کرنے کی جستجو کرنی چاہئے۔
 

شیئر: