Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ سوچ رہی تھی” ہماری خود غرضی کب ختم ہو گی“

 زینت شکیل۔جدہ 
وہ روزانہ ایک عمرے کا ثواب حاصل کرنا چاہتی تھی۔ دادی جان کا بتایاہوا سبق اسے بچپن سے ازبر تھاکہ جس شخص نے فجر کی نمازجماعت کے ساتھ ادا کی اور پھر سورج نکلنے تک وہیں بیٹھا مالک حقیقی کا ذکرکرتا رہاپھر دو رکعات اشراق کی پڑھیں اور پھر مسجد سے واپس آیا تو اسکو ایک حج اور ایک عمرے کی مانند اجر ملے گا۔
وہ اشراق کی دو رکعات پڑھ کر دادا جان اور دادی جان کے لئے چائے بناتی تھی۔ ساتھ میں سادہ بسکٹ رکھتی۔ چند منٹ میں سفید بڑی چادرلئے گیٹ کی طرف بڑھتی ۔سامنے محلے میں بنے پارک کی طرف جاتے ہوئے روزانہ کی طرح آواز دیتی کہ داداجان، جلدی چائے کا کپ ختم کرکے آجائیے گا، بس میں اذکار شروع کر رہی ہوں، اشجارہمارا انتظار کر رہے ہونگے۔ پھر مجھے کالج کی باٹنی لیب کے لئے چندمختلف اقسام کے پھول بھی جمع کرنے ہیں۔
دادا اپنی پوتی کو جانتے تھے کہ وہ کتنی فرمانبردارہے۔ اس نے اپنے والدین اور گھر میں موجود بزرگوںکی خدمت کو اپنا نصب العین بنارکھا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے کئی سال پہلے کا تجربہ اسے بتایا تھا کہ وہ جس جگہ اپنے والد کے ہمراہ سیر کے لئے جاتے تھے ، وہاں واک کرتے ہوئے والد صاحب، مولوی صاحب کا دیاہواسبق یاد کراتے تھے اور میں روانی سے سنایا کرتا تھا۔ ایک دن اتفاق سے والد صاحب کسی دوست کے ہمراہ گفتگو کرتے آگے بڑھ گئے ۔اس دن کا سبق میں خود سنگی بنچ پر بیٹھ کر دہرانے لگا۔ مغرب کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ لوگوں نے بھی واپسی کی راہ لی۔ کچھ لوگوں نے قریبی مسجد کا رخ کیا۔ کچھ ہی دیر میں اذان کا وقت ہو جاتا۔ میں نے تیزی سے سبق دہرانا شروع کیا۔ سورہ کہف پڑھتے ہوئے ورق پلٹتا جا رہا تھا۔مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے دور موجود ہرن میرے قریب آکر پیچھے کھڑاہوا اور مالک حقیقی کا کلام خاموشی سے سن رہا ہے ۔ میں اسے اپنے پیچھے محسوس کر کے سبق مکمل کرتے ہی اسکی جانب بڑھا تو وہ چھلانگ لگاکر دور چلا گیا۔ اس تجربے کے بعدمیں نے اپنا معمول بنا لیا کہ جہاں پارک، کھیل کے میدان، سفاری ، پہاڑ ،اشجار کہیں سے بھی گزریںتو اللہ کریم کا ذکر کرتے ہوئے گزریں۔ دنیا کی ہر مخلوق تسبیح کرتی ہے اور قیامت کے دن وہ ہمارے حق میں گواہی دے گی کہ یا رب کریم !یہ جب ہمارے پاس سے گزرا تھا تو تیرے ہی ذکر میں مشغول تھا۔
وہ ابھی پارک میں پہنچی تھی کہ کئی لوگ واپس جانے کے لئے گیٹ کی طرف رواں دواں نظر آئے ۔ایک صاحب سیل فون پر کسی سے بات کرتے ہوئے سمجھا رہے تھے کہ10ویں کلاس کے بعد سب نے یہاںسے میڈیسن اور انجینیئرنگ کی ہے۔اس طرح وہاں کے چار سال کے بیکار سسٹم میں وقت ضائع نہیں ہوتا اور چار سال تک طالب علم کنفیوز نہیںرہتاکہ پروفیشنل کالج میں میرا داخلہ ہوگا کہ نہیں۔ اس نے دیکھا کہ بات مکمل کرنے کے بعد ڈرائیور جو گیٹ تک گاڑی لے آیا تھا، اسے پیچھے بیٹھے شخص نے تولیہ پیش کیا۔ جب وہ اپنے چہرے سے پسینہ پونچھ چکے تواس نے اورنج جوس کی چھوٹی بوتل آگے بڑھائی ۔اسی وقت انکے سیل فون کی گھنٹی بجی ۔وہ دوبارہ باتوں میں مصروف ہو گئے۔ لٹھ بردار گارڈ نے آگے بڑھ کر انکے لئے گاڑی کا اگلا دروازہ جلدی سے کھولا۔ وہ فون پر کسی سے مخاطب تھے ۔اس ملک میں کچھ نہیں رکھا،یہاں رہنا بالکل بے کارہے۔ انکے گاڑی میں بیٹھتے ہی گارڈ نے ارد گرد موجودگاڑیوں کو روکا اور صاحب کی گاڑی کا راستہ بنایا ، پھر تیزی سے گاڑی لمحوں میں موڑ تک کا فاصلہ طے کر گئی ۔ وہ سوچ رہی تھی کہ ہماری خود غرضی کب ختم ہو گی اورہم رب کریم کے شکر گزار کب بنیں گے۔
 

شیئر: