Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پردیس :اجنبی شوہر، اجنبی آسمان،چہار سو رونق، دل ویران

عنبرین فیض احمد۔ کراچی
باہر کافی تیز بارش ہورہی تھی۔ موسم بھی کافی سرد اور اداس ہورہا تھا مگر رابعہ کے دل میں اس سے بھی زیادہ اداسی چھائی ہوئی تھی۔ وہ صبح سے اپنی بہن کی شادی کا کارڈ دیکھ کر رو رو کر ہلکان ہوئی جا رہی تھی۔ اس نے اس کارڈ کو نجانے کتنی بار پڑھا ہوگا مگر ہر بار آنسو تھے کہ ہر بند کو توڑ کر بہہ جانے کو تیارتھے ۔ اسماءبھی اب جیتے جی ہی مصلوب کر دی جائے گی او رمیں اسے بچا بھی نہیں پاﺅں گی۔ اپنی بہن کو کیسے بتاﺅں کہ 7 سمندر پار جانے والی ڈولیاں، در حقیقت ڈولیاں نہیں تابوت ہوتے ہیں۔ ان تابوتوں میں بند خوبصورت شیشوں کے آر پار مردہ چہرے بہت دلکش اور حسین دکھائی دیتے ہیں۔ خوبصورت شیشم کی لکڑی سے تیا رکئے ہوئے اس تابوت سے نہ اندر کی ہوا باہر جا سکتی ہے اور نہ باہر کی تازہ ہوا اندر داخل ہو سکتی ہے۔
رابعہ کا دل وہ کارڈ دیکھ کر پھٹا جا رہا تھا جو اس کے ابا جان نے اسے پاکستان سے بھیجا تھا ۔جب وہ رو رو کر تھک گئی تو باقی آنسوﺅں کو اس نے اپنے پلو سے پونچھ ڈالا۔آخر کوئی کب تک رو سکتا تھا۔ نجانے کس وقت اس کی آنکھ لگ گئی۔ رات کا نہ جانے کون سا پہر تھا کہ رابعہ کو دروازے کا لاک کھلنے کی آواز آئی۔ اس کے شوہر سلمان نے گھر میں داخل ہوتے ہی زور سے دروازہ بند کیا اور جوتوں سمیت بستر پر گر گیا۔ ساتھ ہی پورے کمرے میں ناگوار سی بو پھیل گئی۔ رابعہ نے ایک ٹھنڈی آہ بھری ۔وہ اپنے تمام آنسو اس کارڈ کی نذر کر چکی تھی۔ اب ا سکے پاس سوائے خشک آنکھوں اور خشک گلے کے اور کچھ نہیں بچا تھا۔
وہ ہر صورت پاکستان جانا چاہتی تھی۔ اس کے شوہر کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ اس کے لئے تو رابعہ کا ہونا یا نہ ہونا برابر تھا۔ اس نے ٹکٹ بنوا کر رابعہ کو دیئے۔ ایئرپورٹ پر بھی چھوڑنے گیا مگر نہ رابعہ سے پوچھا کہ کب تک اس کی واپسی ہے؟ آخری دفعہ الوداع کہتے ہوئے رابعہ نے سوچا کہ شاید وہ کہہ دے کہ جلد آجانا، میں تمہارا انتظار کروں گا مگر یہ اس کی بھول تھی وہ تو منہ میں سگریٹ دبائے مزے سے کھڑا ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ وہ انہی سوچوں میں الجھی جہاز پر سوا ہوگئی اور جانے کب ہواﺅں کے دوش پر اڑتی اپنے دیس پہنچ گئی۔ 
اپنا دیس تو اپنا ہوتا ہے ۔اسے بے اختیار یہاں کی مٹی سے اٹی ہوئی سڑکوں سے انسیت ہونے لگی۔ کوڑے کے ڈھیر بھی ویسے کے ویسے ہی تھے۔ سڑکوں پر گاڑیوں کا رش، یہاں سب لوگ کتنے خوش دکھائی دے رہے تھے۔کوئی مصنوعی پن نظر نہیں آرہا تھا۔سب کچھ ویسا ہی ہے تھاجیسا وہ چھوڑ کر گئی تھی۔ ایئرپورٹ پر اس کا بھائی اسے لینے کے لئے آیا ہوا تھا۔ وہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ رابعہ کو اس پر بہت پیار آیا۔ گھر پہنچتے ہی سب گھر والے حسب معمول اسے دیکھ کر خوشی سے شور مچاتے ہوئے اس سے لپٹ گئے۔ اس کے والدین اور اس کے بہن بھائی سب اس سے بہت کچھ پوچھنا چاہتے تھے۔ اس کے بہن بھائیوں کی زبان پر ایک ہی سوال تھا کہ آپا ،دولہا بھائی کیوں نہیں آئے؟ وہ سب کو جواب دیتے دیتے تھک چکی تھی ، امی نے سب کو ڈانٹا کہ اسے دم تو لینے دو۔ امی نے شربت کا گلاس لا کر دیااور کہا کہ سات سمندر پار سے آئی ہے بیچاری، تھکی ہاری ،اسے آرام کر لینے دو۔ اسے اپنے گھر آ کر اپنے بہن بھائیوں کا یہ شور ہنگامہ بہت اچھا معلوم ہو رہا تھا۔ شاید وہ اس شور میں خود کو بھولنا چاہ رہی تھی۔ موقعہ ملتے ہی اپنے والد کے کمرے میں چلی آئی۔ وہ اخبار پڑھنے میں مصروف تھے۔ اسے دیکھ کراس کے لئے جگہ بناتے ہوئے بولے ،آ¶ بیٹی۔رابعہ اپنے والد کے قریب بیٹھ کر بولی ابو اسماءکا ہونے والا شوہر امریکہ میں کیا کرتا ہے؟ وہ بھی ہمارے سلیمان کی طرح ڈاکٹر ہے اور کسی بڑے اسپتال میں کام کرتا ہے۔ کافی اچھے لوگ ہیں، بڑے شریف اور معزز لیکن ابو آپ کو معلوم ہے شریف اور معزز کا مطلب آج کے دور میں کیا ہوتا ہے، بالکل سلیمان کے خاندان کی طرح۔
ابو جان خالہ نسیم کے بیٹے ،وہ یہ کہتے کہتے رک سی گئی کیونکہ اس کی امی کمرے میں آگئی تھیں۔ کلاس ون آفیسر کیا بنا، ماں اور بہنوں کے تو مزاج ہی نہیں ملتے۔ جتنی دفعہ آئیں ،نئی فرمائشیں ان کے منہ سے سننے کو ملیں مگر امی! اپنے تو پھر بھی اپنے ہی ہوتے ہیں۔ جانے دو کیسے اپنے او رکہاں کے اپنے۔ دولت تو بڑے بڑوں کا دماغ خراب کر دیتی ہے۔ نسیم کو کسی دولت مند باپ کی بیٹی کا رشتہ مل گیا۔ اس میں تمہاری بہن کیا بھاتی انہیں۔اور اللہ تعالیٰ سلامت رکھے ہماری اسماءکو ،اتنا اچھا رشتہ اللہ کریم نے دیا کہ جھٹ پٹ میں کروا دیا۔ لڑکا امریکہ میں ڈاکٹر ہے، اپنے سلیمان میاں کی طرح۔ امی نے کتنی محبت سے نام لیا تھا سلیمان کا۔ بس ہم سب نے شکر ادا کیا کہ نہ جہیز کی بک بک نہ ساس نندوں کا بکھیڑا۔ انہیں میں کیسے بتاتی کہ پردیس کی زندگی کی حقیقت یہ ہے کہ اجنبی شوہر، اجنبی زمین و آسمان،چہار سو رونق مگر دل ویران۔ 
امی یہ جہیز کی بک بک توچندروز کی بات ہو تی ہے پھر بعد میں سب ٹھیک ہی ہو جاتے ہیں اور ساس نندیں بھی زندگی کا روپ ہوتی ہیں۔ ارے واہ خود تو اکیلی ولایت میں عیش کر رہی ہو اور اپنی بہنوں کے لئے کہتی ہو کہ کنویں میں دھکیل دوں۔ واہ بھئی واہ! ہم تو سمجھے تھے کہ سب سے زیادہ رابعہ خوش ہو گی مگر ہماری سوچ غلط تھی۔ وہ ایک دم گڑا بڑا گئی۔ نہیں امی میں بہت خوش ہوں۔ میرا یہ مطلب ہر گز نہیں تھا۔میری دعا ہے کہ اسماءبہت عیش کرے ۔ 
گھر میں شادی کے ہنگامے ختم ہوئے تو امی نے اس سے چھوٹے بھائی کو امریکہ بلانے کا اصرا رکرنا شروع کر دیا۔ اب وہ انہیں کیا بتاتی کہ وہ تو خود اُس اجنبی دیس میں ایک اجنبی شوہر کے ساتھ اپنی زندگی کے دن پورے کر رہی ہے۔ وہ اپنے بھائی کو کہاں سے لے جا سکتی ہے۔ اس کے ٹال مٹول کے انداز پر سب کھل اٹھے اور ایک دن اسے اپنے ابو جان کے کمرے سے امی کی تیز آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔وہ کہہ رہی تھیں کہ دیکھ لیجئے یہ ہے آج کل کی اولاد ۔ آج کل کا مادی دور، سگی بہن ہے مگر اپنے برابر کسی کو دیکھنا پسند نہیں کرتی۔ہماری رابعہ ، اسماءکی امریکہ شادی پر بھی خوش نہیں تھی اور نہ ہی چھوٹے بھائی کے لئے کسی قسم کی حامی بھری۔ دیکھ لیا ناںدولت انسان کا خون کس طرح سفید کردیتی ہے۔
ابوبہت دھیمے لہجے میں بولے مگر بیگم رابعہ بہت ہمدرد لڑکی ہے۔ ہو سکتا ہے وہ کچھ سوچ سمجھ کر کہہ رہی ہو ۔ رہنے دیجئے، خود تووہ سونے سے پیلی ہوئی پڑی ہے ۔ ہر طرح کی آسائشوں سے پر زندگی گزار رہی ہے۔ یہاں کیا ہے۔ بھوک، افلاس، رشوت، بے روزگاری۔ یہاں اسے کون سی بہتری نظر آرہی ہے۔ بس یوں کہئے کہ ولایت کے پانی نے نظریں بدل دی ہیں۔یہ باتیں سن کر اسے یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے اسے زندہ ہی برف میں دفنا دیا ہو اورانجام کار وہ سرد اذیت سے دوچار ہو کر موت کے منہ میں جا رہی ہو۔
واپسی کا سفر اور بھی تھکا دینے والا تھا۔ دیس میں اسے پردیسی بنا دیا گیا تھا اور اب وہ پردیس جا رہی تھی۔ جہاز کی کھڑکی سے اس نے نیچے جھانکا اور سوچا کہ عورت کا کوئی دیس نہیں ہوتا۔ وہ امریکہ میں بھی تنہا ہے اور پاکستان میں بھی ایک پردیسی کی حیثیت سے تھی۔ آنکھوں میں پھر سے ساون بھادوں اُمنڈنے لگا۔ اس نے ضبط کرنا چاہا مگر غم کا بادل صبر کے پہاڑ سے ٹکرا کر برس پڑا۔کسی نے نہایت ہی محبت اور اپنائیت سے اس کے ہاتھو ں پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ دھندلائی ہوئی آنکھوں سے اس نے اپنے دائیں طرف نگاہ اٹھائی تو ایک ادھیڑ عمر کی معزز خاتون تھیں۔وہ کہنے لگیں کہ بیٹی! کیا اکیلی جا رہی ہو ؟ان کے استفسار پر اس نے صرف گردن کے اشارے سے کہاجی۔ انہوں نے بڑی اپنائیت سے کہا کہ پیا کے دیس جا رہی ہوگی۔تبھی تو میکا چھوٹنے کا دکھ اور غم تمہارے چہرے سے عیاں ہو رہا ہے۔ 
وہ حیران ہو کرانہیں دیکھے جا رہی تھی۔ ہاں میری بچی ہر عورت اس کرب سے گزرتی ہے ۔جب بھی کسی پودے کو جڑوں سے اکھاڑ کر دوسری جگہ لگا یاجاتا ہے تو وہ مرجھا جاتا ہے۔ وہ اتنے پیار اور محبت سے اسے کہہ رہی تھیں کہ اس کے آنسو خود بخود تھم گئے۔
رابعہ نے ان خاتون سے پوچھا کہ آپ کہاں جا رہی ہیں۔ انہوں نے ہنستے ہوئے جواب دیا،میں بھی سسرال جا رہی ہوں۔ بوڑھے بھی ہو جا¶ تو بھی میکے سے دوری کا غم تو ہوتا ہی ہے ناں۔ یہ سفر ہر عورت کے لئے بڑا کٹھن ہوتا ہے مگر ان کے لئے نہیں جو اپنی کشتیاں جلا کر نکلتی ہیں کیونکہ پرانی کشتیاں جلائے بغیرنئی منزلوں کے سراغ نہیں ملا کرتے۔
 

شیئر: