Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اچھے نام سے پکارنا ، رب کریم کی سنت

حافظ محمد ہاشم صدیقی ۔جمشید پور،ہند
گزشتہ سے پیوستہ
سیرت کی کتابوں میں حضور اکرم کی جانب سے نام تبدیل کرنے کے بہت سے واقعات موجود ہیں ۔گزشتہ قسط میں چند واقعات کا ذکر کیا گیا تھا، باقی ملا حظہ فرمائیں:
<  حضور کی خدمت میں ایک صحابی تشریف لائے۔ آپ نے ان کا نام پوچھا تو بتایا گیا :حزن یعنی پتھریلی زمین۔ آپ نے یہ نام نا پسند فرمایا اور کہا کہ اپنا نام سہل یعنی نرم زمین رکھ لومگر انہوں نے نام تبدیل نہ کیا اورکہا کہ یہ میرے باپ نے رکھا تھا۔ان صحابی کے بقول ان کے خاندان میں سختی برابر قائم رہی (یہ نام کا اثرہے) ( بخاری )۔
<  حضور نے مدینہ منورہ جسے یثرب کہتے تھے، اس کے معنیٰ میں جبر و زیادتی اور الزام کا مفہوم پایا جاتا ہے، اسلئے آپ نے اسکا نام طابہ اور طیبہ رکھا۔آپ نے تاکید کی کہ یثرب کو طیبہ( خوشگوار عمدہ )کہا جائے۔
<   مدینہ کے معنیٰ شہر کے آئے ہیں۔ چونکہ یہ مدینتہ الرسول ہے اس لئے اسکا نام ہی مدینہ پڑ گیا۔ اب اگر بغیر کسی اضافت مدینہ کہا جائے تو اس سے مراد مدینتہ الرسول  طیبہ ہی ہوگا۔ مدینہ میں بخار کی وبا (بیماری) عام تھی، بڑی شدت کا بخار ہوتا تھا۔ اکثر آنے والے اس میں مبتلا ہو جاتے تھے، نووارد اسکی زد میں آتے تو وہ جلد ہی وہاں سے رخصت ہونا چاہتے تھے۔ اللہ کے رسول نے مدینہ کی مشقتیں (تکلیفیں) جھیلنے پر جنت کی بشارت سنائی اور اس کا نام طیبہ رکھدیا تو نام بدلنے کی برکت سے مدینہ منورہ کی فضاء اللہ کے فضل و کرم سے خوشگوار ہو گئی۔ 
اللہ کے رسول نے خواب میں دیکھا کہ کالی کلوٹی عورت مدینہ منورہ سے نکل کر حجفہ جہاں یہودیوں کی آبادی تھی کی طرف چلی گئی۔ آپ نے فرمایا کہ وہ وبا (بیماری جو ہوا کے خراب ہونے سے پھیلتی ہے یعنیFLU ) تھی جو یہاں سے منتقل ہو گئی۔
اس لئے بہت سے علماء ،مفسرین ،شارحین نے لکھا ہے کہ مدینہ منورہ کو اب یثرب کہنا صحیح نہیں ۔
نام رکھنے میں حد سے گذ رنا، غلو کرنا :
اکثر یہ بات مشاہدے میں آتی ہے کہ جب کسی کے یہاں بچہ یا بچی پیدا ہوتی ہے تو سب سے پہلے جس مرحلے میں والدین کا سابقہ پڑتا ہے وہ بچہ یا بچی کا نام رکھنا ہوتا ہے جس کی روشنی میں بچہ سب کیلئے قابل محبت، قابل توجہ اور پرکشش بن سکے اور اسکے نام سے خاندان کی عزت و وقار بڑھے۔
خاندان بھر میں ہر فرد اپنی اپنی مرضی کا نام تجویزکرتا ہے۔ جو نام تجویز (Choice) ہوتا اس کے معنیٰ پر غور نہیں کیا جاتا حالانکہ کسی بھی نام کے اثرات اس کے معانیٰ کے اندر پوشیدہ ہوتے ہیں اور معنیٰ ہی شخصی کردار کی تشکیل میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح اس کے نام سے ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ بچہ یا بچی کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے ،کس قوم سے تعلق رکھتا ہے اور یہ کہ اسکا نام شرعی اسلامی ہے یا نہیں اور یہ کہ یہ نام اس بچے کے لئے موزوں بھی ہے یا نہیں  اسی لئے مذہب اسلام نے معنیٰ کے اعتبار سے اچھا نام رکھنے کا حکم دیا تاکہ بچے کی زندگی کی شروعات کی پہلی اینٹ درست طور پر رکھی جائے۔ 
نام رکھنے میں غلو کی حد تک یکساں اوزان کا خیال رکھا جاتا ہے، یعنی سارے بچوں اور بچیوں کا نام ہم وزن ہو، حالانکہ ناموں کے سلسلے میں یہ التزام غیر ضروری ہے۔کبھی کبھی اسکی پابندی بھونڈی معنویت پیدا کر دیتی ہے۔
ایک صاحب کے چند لڑکے ہیں۔ ایک کا نام شمیم ہے، دوسرے کا نام تسلیم ہے تیسرے کا نام کریم ہے چوتھا بچہ پیدا ہواتو انہیں یہ سودا خبط سمایا کہ اس بچے کا نام قرآن پاک سے اسی وزن پر رکھیں گے۔چنانچہ تلاش بسیار کے بعد انہیں سورہ القلم میں زنیم لفظ مل گیا۔انہوں نے بغیر معنیٰ پر غور کئے ہوئے ہم وزن نام زنیم رکھدیا۔ کچھ دنوں بعد ان کے یہاں ایک عالمِ دین مہمان ہوئے۔ انہوں نے میزبان کو اپنے لاڈلے بچے کو زنیم کہہ کر پکارتے ہوئے سنا۔ اس پر انہیں بڑا تعجب ہوا کہ باپ اپنے بیٹے کو خود زنیم کہہ رہاہے، تعجب کی بات ہے لیکن تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ اس بچے کا نام ہی زنیم ہے۔ چنانچہ عالم صاحب نے دریافت کیا کہ آخر آپ نے یہ نام کیوں رکھا ۔ انہوں نے بڑی مسرت کے ساتھ فرمایا کہ اصل میں مَیں نے اپنے اس بچے کے نام کے متعلق یہ سوچا کہ اپنے دیگر بچوں کے ناموں پر ہموزن ایک ہی طرح کا نام ہو اور تمنا یہ بھی تھی کہ وہ نام قرآن پاک سے ہو۔ بہت تلاش کے بعد یہ نام سورہ القلم میں مجھے مل گیا اور میں نے یہ نام رکھدیا۔ مہمان عالم نے کہا :ابلیس، ابولہب اور فرعون بھی تو قرآن میں ہیں، کیا یہ نام کوئی رکھنا پسند کرے گا۔ بالآخیر جب قرآن میں اسکا معنیٰ دیکھا گیا تو زنیم کے معنیٰ ’’حرام زادے‘‘ کے ہیں۔ مہمان عالم نے کہا کہ کیا کوئی یہ سننا پسند بھی کر سکتا ہے۔ میزبان کو بڑی پشیمانی ہوئی اور اس بچے کا نام بدل دیا گیا۔ نثار اشرف نام رکھا گیا۔
آجکل نام رکھنے میں ہم سے غلطیاں ہو رہی ہیں جس سے ہماری تہذیب متاثر ہو رہی ہے۔ اس سے ہمیں بچنا چاہئے۔
نام بگاڑنا گناہ ہے :
ً بچوں کے حقوق میں سے یہ ہے کہ ان کا نام اچھا رکھا جائے اوراچھے نام کو بلاتے وقت بھی ملحوظ رکھا جائے۔ اسی طرح نام بگاڑنا بھی گناہ کی بات ہے۔ قرآن پاک میں اسے بِئسَ لاِْسْمُ الْفُسُوْق(الحُجُرات11) کہا گیا ہے،لہٰذا کسی کے نام کو بگاڑ کر پکارنا نہیں چاہئے۔ اس میں خود گھر والوں کی طرف سے کوتاہی ہوتی ہے، وہ پیار میں مْخفف (Short) کرتے ہیں اور پھر وہی نام بن جاتاہے۔ اس سے پرہیز لازم ہے۔ حضور نے ایک صحابی کا نام پوچھا۔ صحابی نے کہا’’ اصرم‘‘ جس کے معنی کانٹے کے آتے ہیں۔ اللہ کے رسول نے فرمایا تمہارا نام اصرم نہیں بلکہ زرعۃ ہوگا، جس کے معنیٰ کھیتی اور جود و سخا کے ہوتے ہیں۔ بعد میں وہ صحابی اسی نام سے معروف ہوئے۔ لہٰذا ہمیں اچھے ناموں کا التزام کرنا چاہئے۔ 
مذہب اسلام یہ چاہتا ہے کہ اسکے ماننے والوں کی اولاد نیک اور مسلمان ہوں۔ بچوں کی پرورش بہتر طریقے سے کی جائے اور اولاد جو نعمتِ  الٰہیہ ہے اسکی قدر کی جائے تاکہ وہ بڑا ہو کر ملک و سماج اور خود والدین کیلئے نعمت ثابت ہو۔
اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں اولاد کی پرورش اور نام رکھنے میں اللہ اور رسول اللہ کے حکم اور خوشنودی کا خیال ہمیشہ دل میں جاگزیں فرمائے اور تمام مسلمانوں کو اسلامی طرز زندگی گزارنے اورعمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
 
 

شیئر: