Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مائنس ون یا نیااین آراو

سید شکیل احمد
     خیر سے سابق وزیر اعظم پا کستان و پا کستان مسلم لیگ کے صدر میا ںنواز شریف بد ھ کے روز لندن سے اسلا م آباد پدھا رے تو ان کی آمد پر پا رٹی کے سینیئر رہنما ؤں کے علا وہ نیب کی ٹیم بھی ایئر پو رٹ پر مستقر تھی ۔نیب نے شہر ی ہو ابازی کے محکمے سے درخواست کی تھی کہ نو از شریف کی آمد پر اس کی ٹیم کو رسائی کی اجا زت دی جا ئے جو ان کو مل گئی تھی۔ بعد ازاں یہ رسائی روک دی گئی، اس رسائی میں کیا ہونا تھا؟ بس اتنا تھا کہ میا ںنو از شریف سے عدالتی سمن کی تعمیل کر ائی جا تی۔ عدم تعمیل پر ان کی گرفتاری عمل میں لائی جا تی جس کیلئے پولیس چا ق و چوبند مو جو د تھی۔
     مسلم لیگیو ں کا کہنا ہے کہ سابق وزیر اعظم پاکستان اپنی بیما ر اہلیہ کو لند ن میں چھو ڑ کر عدالتو ں کا سامنا کرنے آئے ہیں ، پو لیس یا قانو ن نا فذ کرنے والو ں کو اتنی پھر تی کی ضرورت نہیں اور یہ پھر تی صرف نو از شریف کیلئے ہی کیو ں ہے جبکہ پی ٹی آئی کے سربراہ کے خلا ف3 سنگین ترین معاملات ہیںجن میں ٹی وی اسٹیشن اسلا م آباد اور قومی اسمبلی کی عما رت پر حملہ اور اسلا م آبا د تھانے پر حملہ شامل ہیں۔ تحریک انصاف کے کا رکنو ں کو زبردستی رہاکر کے لے جانے پر ورانٹ جاری ہو چکے ہیں مگر عمر ان خان نیا زی ویسے ہی کھلے پھر رہے ہیں۔  قانون تو سب کیلئے یکساں ہے ۔ بات تو حیر ت کی ہے کہ پانا مہ کیس جو اقامہ کیس میں تبدیل کر دیا گیا تھا، اس کی 34پیشیو ں میں سے 33پیشیوں میں مو صوف نیا زی صاحب عدالت آتے رہے لیکن اپنے خلا ف مقدمے میں ایک بھی پیشی میں حاضرنہیں ہو رہے ۔
        عمران خان نے جب وزیر اعظم سمیت ملک کی اہم شخصیا ت لند ن اجلا س میں شرکت کیلئے گئیں تو فرما یا تھا کہ نو از شریف نیا این آراو ما نگ رہے ہیں مگر وہ نہیں لینے دینگے ، حالا نکہ ما ضی میں خود خان صاحب ایک این آر او سے مستفید ہو چکے ہیں ،پھر یہ کہ اگر کوئی این آر او دے گا بھی تو کیا اس کی اجا زت خان صاحب سے لی جا ئیگی؟ ویسے ان کی اطلا ع کیلئے ہے کہ نیا این آراو ہو گیا ہے اور لے بھی لیا ہے ۔مسلم لیگ کی جا نب سے اعلا ن کیا گیا ہے کہ پا کستان کے اگلے وزیر اعظم شہباز شریف ہو ں گے۔ قانو ناًنو از شریف نا اہل ہو نے کی بنا ء پر آئندہ اس کے اہل بھی نہ تھے گو جب تک کہ اس بارے میں پارلیمنٹ کوئی ترمیم نہ کر لے مگر اب کسی ایسی ترمیم کا چرچا نہیں ہو رہا ۔
         اب تک کے سیا سی حالا ت کا جا ئزہ لیا جائے تو لند ن اجلا س اور میا ں شہباز کے بارے میں پیش گوئی کے بعد سے مسلم لیگ کے ممتاز رہنماء چوہدری نثاربھی بلبلا ئے ہوئے ہیں۔ ویسے وہ ما ضی میں پنجا ب کی راجد ھا نی کی آس لگائے رہے تھے۔ شاید اب وہ وزیر اعظم ہو نے کی خواہش لئے ہو ں ۔ انھو ں نے خود کو پا رٹی پالیسیو ں سے ایسے وقت الگ کیا جب پارٹی کو ایسے افراد کی مشاورت اور عملی تعاون کی بے حد ضرورت ہوتی ہے مگر ان کا طر ز عمل اس امرکی غما زی کر رہا تھا کہ نواز شریف جن سے استفسار کررہے ہیں کہ انھیں کیوں نکالا ان کو  چوہدری جی یہ یقین دلا نا چاہتے ہو ں گے کہ وہ ان کی پا لیسیو ں سے اتفا ق کرتے ہیں اسی لئے لند ن اجلا س کے فوری بعد چوہدر ی نثار علی نے فرمایا کہ انھو ں نے نو ازشریف کو سمجھا یا تھا کہ وہ ادارو ں سے ٹکر نہ لیں ، جے ٹی آئی پر ان کے تحفظات ہیں تو فوج سے بات کر لیں اور اداروں سے مفاہمت کیساتھ چلیں ۔ ان کی یہ تما م باتیں ما ورآئے آئین اور قانونی دائر سے باہر کی ہیں ۔ سرکا ری ادارو ں کے ساتھ مفاہمت کی بات تو بالکل بے تکی سی ہے۔ سرکاری ادارے تو حکو مت کی پالیسیو ں کے پابند ہو تے ہیں۔ چوہدری نثار شاید یہ کہنا چاہتے ہو ں گے مگر وہ کہہ نہ پائے کہ سرکا ری ادارو ں کو چاہیے کہ وہ منتخب حکومت کے مینڈیٹ کا احترام کر یں اور جمہو ری حکومت سے نہ ٹکر ائیں تاہم ان کی اطلا ع کیلئے عرض ہے کہ بعض ذرائع کی اطلا ع یہ ہے کہ میا ں نو از شریف نے جے ٹی آئی کے بارے میں آرمی چیف سے رابطہ کیا تھا مگر ان کو جو اب ملا تھا کہ ان کا پانا مہ وغیر ہ سے کوئی تعلق نہیں، آپ جا نیں یا عدالتیں جانے ۔
        چوہدری نثار علی نے ایک ایسے وقت میں مسلم لیگ ن کی سیا ست سے خود کو الگ تھلک کیا جبکہ مسلم لیگیو ں کا اتحاد وقت کا تقاضا قرار پاتا ہے ۔ ان کی ڈیڑ ھ انچ کی مسجد یہ کہہ رہی ہے کہ کوئی مسلکی اختلا ف نہیں بلکہ یہ سیاسی بلوغت میں نقص کی علا مت ہے جیسا کہ عمر ان خان کی سیا ست میں پائی جا تی ہے ۔ اب تک مسلم لیگ ن نے سیا ست میں جتنی بھی تر پ چالیں چلی ہیں وہ چوہدری نثار اور عمر ان خان کی بساط سے کہیں زیادہ موثر ثابت ہو ئی ہیں۔
    ما ضی میں میا ں نو از شریف نے چوہدری نثار کی تما م باتو ں کو رنگ دیا کسی کو میلا نہیںکیا۔ جنرل وحید کا کڑ سے لے کر پر ویز مشرف پھر جنر ل راحیل شریف تک سب چوہدری نثار کے مشور ے کے رنگ سے مستفید تھے مگر اس مر تبہ کہا جا تا ہے کہ جنر ل قمر باجو ہ اس رنگ کا حصہ نہیںتھے تاہم یہ کہا جا تا ہے کہ جنر ل قمر باجو ہ مو جو دہ وزیر اعظم کے پسند ید ہ ہیں اورچوہدری نثار سے ہٹ کر رہ گئے۔
    مسلم لیگ ن کی سیاست یا یو ں کہہ لیں کہ نو از شریف کی سیا ست بڑی گہر ی ہے کہ ان کا اس مرتبہ انتخاب ا نکی سیا سی سوجھ بو جھ کی بلوغلت کی دلیل ہے کیو نکہ انھو ں نے سوچا کہ اگر کبھی ایسا موقع آجائے کہ آرمی چیف سے براہ راست رابطہ نہ ہو نے پر کسی کے ذریعے ہی رابط ہو تو ان کیلئے شاہد خاقان عباسی سے زیا دہ مو زوں کوئی دوسرا نہیں تھا کیونکہ شاہد خاقان عباسی اور جنرل قمر باجو ہ کے درمیان خاندانی دوستی اور تعلق ہے۔
     شاہد خاقان عبا سی کے خسر جنرل ریا ض عباسی مر حو م سابق ڈائریکٹر آئی ایس پی آر کے جنرل قمر جا وید باجو ہ کے خاند ان سے دیر ینہ تعلقات تھے اور جنرل قمر جا وید با جو ہ کا رشتہ جنر ل عظیم کے گھر جنرل ریا ض خود لے کر گئے تھے ۔ جنر ل ریا ض کو کینسر کا عارضہ تھا۔ ان کا انتقال اسی مرض میں ہو اتھا چنا نچہ شاہد خاقان عباسی آج بھی اس پو زیشن میں ہیں کہ وہ  جنرل باجوہ سے براہ راست بات کر سکتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگا لیا جا ئے کہ ایسے مو قع پر مسلم لیگ کی جانب سے شاہد خاقان عباسی کو وزارت عظمیٰ کی مسند پر صریر آرا ء کر نا کتنا اہم سیا سی فیصلہ ہے ۔ شاہدخاقان عباسی میاں نو ازشریف کے اعتما د پر پورے اتر ے ہیں ۔

شیئر: