Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لائق تحسین و آفرین ہستیاں

شہزاد اعظم
دستور دنیا ہے کہ انسان اپنے مستقبل کو بہتر سے بہتر اور تابناک بنانے کے خواب دیکھتا ہے۔پڑھتا لکھتا ہے ، معاشرے میں اپنا مقام بنانے کی تگ و دو کرتا ہے ۔خوبصورت نظر آناچاہتا ہے ، اچھا لباس زیب تن کرنا چاہتا ہے، تندرستی برقرار رکھنے کے لئے ورزش کرتا ہے، غذا پر توجہ دیتا ہے، پھلوں کا استعمال کرتا ہے ۔ جوان ہوتا ہے توشریک حیات کی تلاش شروع کر دیتا ہے۔ شریک حیات میسر آجائے تو وہ اس کے ہم قدم ہو کر نئی زندگی کو مثالی بنانے کے لئے طرح طرح کے جتن کرتا ہے۔شوہر اور بیوی ایک دوسرے کا دل خوش رکھنے کے لئے پیش پیش رہتے ہیں۔ ان کاخواب یہی ہوتا ہے کہ ان کا گھر جنت ارضی بن جائے اس کے لئے فریقین ہر طرح کی سعی کرتے  ہیں۔ہمارے ہاںوہ لائق تحسین ہستیاں بھی ہیں جو وطن عزیز پر جاں نثار کرنے کے خواب دیکھتی ہیں۔ یہ وہ نوجوان ہوتے ہیں جو اپنے ہم وطنوں کی زندگیوںکومامون بنانے اور انہیں سکون و راحت سے معمور کرنے کے لئے اپنی زندگیاں دائو پر لگا دیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو  اپنا مستقبل مامون بنانے کے بہانے پردیس کا سفر اختیار نہیں کرتے، یہ روپے پیسے کے لالچ اوردنیاوی رنگینیوں کی طلب میںوطن کو خیر باد کہہ کر دیار غیر کی خاک کا پیوند ہونا نہیں چاہتے بلکہ وہ وطن کی حفاظت اور اہل وطن کے تحفظ کے لئے اپنی جان قربان کرنا اور شہدائے وطن کی صفوں میں شامل ہونا اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں۔ بہت عظیم ہیں یہ لوگ ، واقعی عظیم ہیں کہ جو زندگی میں ہی اپنے وجود کو وطن اور اہل وطن کی میراث قرار دے دیتے ہیں مگر لائق صد ستائش ہیں وہ ہستیاں جو ان کی ہم سفر ہوتی ہیں، یہ ایسی صنف نازک ہوتی ہیں جو دوسروں کے سہاگ کی حفاظت کے لئے دل پر خدشات اور امکانات کا سنگ گراں رکھ کر اپنے سہاگ کو بری ، بحری اور فضائی سرحدوں کے تحفظ کے لئے گھر سے وداع کر دیتی ہیں پھر وہ غازی بن کر لوٹے تو آنکھوں سے خوشی کے آنسو چھلکا دیتی ہیں اور اگر شہید ہو کر آئے تو تشکر و تفاخر کے جذبوں سے معمور ہو کرباقی ماندہ زندگی’’ شہید کی بیوہ‘‘کے طور پر بسر کر دیتی ہیں۔ لائق تحسین و آفرین ہیں یہ ہستیاں۔
 
 

شیئر: