Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بچپن میں بیل گاڑی کا سفر اور شفیق اساتذہ کا برتائو بہت یاد آتا ہے

سید علی کریم سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں مقیم ہیں۔انہوںنے  ہندمیں انگریزوں کیخلاف تحریک بھی دیکھی ہے جبکہ تحریک پاکستان کے بھی چشم دید گواہ ہے،ہمارا سلسلہ ’’میرا بچپن ‘‘ دیکھا تو پسند کیا اور ہماری درخواست پر اپنے بچپن کی یادیں لکھیں ،جس کیلئے ہم ان کے شکرگزار ہیں۔ہمارا مقصد یہی ہے کہ ہمارے بزرگ اپنے بچپن کی یادوں سے ہماری اور آج کی نسل کی تربیت کرسکیں۔امید ہے قارئین کو یہ سلسلہ پسند آرہا ہوگا۔ہم سے رابطہ کریں۔00923212699629یا میل کریں۔[email protected]
 
سید علی کریم۔۔الریاض
پہلی قسط
رانچی صوبہ بہار ( موجودہ جھارکھنڈ ) معدنی ذخائر سے لبریز سطح سمندر سے تقریبا 2ہزار بلندی پر واقع ایک خوشحال شہر ہے۔ یہاں ابتدا میںقبائلی قوم جنہیں ’’آدی باسی‘‘ کہتے ہیں آباد تھے ۔رفتہ رفتہ یہاں  کوئلے اور لوہے کے کارخانے معرض وجود میں آنا شروع ہوئے ۔لوگوں میں لکھنے پڑھنے کا رحجان پیدا ہوا اور یہ صوبہ ترقی کی طرف گامزن  ہوگیا۔ یہ شہر موسم گرما میں صوبہ بہار کا سمر کیٹ ہوا کرتا تھا ۔پٹنہ سکریٹریٹ موسم گرما میں منتقل ہوکر یہاں آجاتا تھا جس سے اسکی اہمیت کافی بڑھ جاتی۔ 
میرے والد ماجد 1940ء  کے اوائل میں پٹنہ سے منتقل ہوکر رانچی آگئے تھے۔ ان کی ملازمت بحیثیت پروفیسر اردو فارسی کے رانچی کالج میں ہوگئی جو اس وقت یہاں کا واحد کالج تھا ۔اس وقت انکی تنخواہ 500 روپئے تھی جو سب سے زیادہ سمجھی جاتی تھی ۔ ہم لوگوں کی کچھ زرعی زمین شہ سرام سے کو ئی  14 میل دور ایک دیہات سمری دیو میں تھی ۔یہاں میرے ماموں شروع سے رہائش پذیر تھے ۔انکے یہاں ہر سال ہم لوگ گرمی کی تعطیل گزارنے جاتے۔ انکے پاس2 نال کی بندوق تھی اس سے وہ شکار کیلئے جاتے جب میں یہاں ہوتا تو مجھے بھی ساتھ لیکر جاتے ۔یہاں شکار کیلئے ایک پرندہ حارپل نام کا ہوتا  ہے ۔ہمارے ما مو ں جان اسکا شکار کرتے۔ اسکو حلال کرنے کے بعد ہمیں پکڑا دیتے کہ اسے گھر لیکرچلنا۔ 
کھیتوں میں آبپاشی کیلئے ایک مشین ہوتی تھی۔ ا س میں تقریباً 50/60 چھوٹی چھوٹی بالٹیاں لگی ہوتیں جو ایک بڑی گاڑی کے پہیہ کے ساتھ لگی رہتیں جسے 2 بیل ملکر مسلسل چلاتے رہتے۔ اسکا پانی ایک بڑے حوض میں گرتا پھر دور دور تک کھیتوں میں اس پانی سے آبپاشی ہوتی رہتی۔ ہم لوگ ا س میں دیر دیر تک نہاتے اور خوب تفریح کرتے ۔چھٹی جب ختم ہونے لگتی تو رانچی کیلئے روانہ ہوتے ۔سمری دیو سے شہسرام تک کا راستہ بیل گاڑی کے ذریعے طے ہوتا۔ صبح سویرے روا نہ ہوتے تو شام تک شہسرام پہنچتے۔ یہاں سے ٹرین کے ذریعے رانچی روانہ ہوتے۔موسم گرما کی تعطیل شروع ہو ئی تو شہسرام جانے کا پروگرام بنا۔ کچھ ہی دنوں بعد سفر پر روانہ ہوا۔ شہسرام پہنچا تو شیر شاہ سوری کا خیال آیا جو یہیں مدفون ہیں ۔ان کی قبر پر گیا  پھر دوسرے دن سمری دیو کیلئے بیل گاڑی سے روانہ ہوئے۔ سمری پہنچے چند دن ہی گزرے ہوں گے کہ ابا جان کی طبیعت ناساز ہونی شروع ہو گئی پھر ا  س میںاضافہ ہی ہوتا گیا ۔دیہات میں علاج و معالجہ کا کوئی ذریعہ نہ تھا اسلئے شہسرام لیکر گئے لیکن یہاں بھی کوئی خاص انتظام نہیں تھا ۔آخر میں رانچی روانہ  ہونا پڑا۔ یہاں کے صدر اسپتال میں ابا جان کو داخل کیا گیا لیکن یہاں بھی وہ  اپنے مرض سے جانبر نہیں ہوسکے ۔ایک رات میں گھر پر  سویا ہوا تھا۔ نصف شب میرے کانوں میں کچھ شور کی آواز سنائی دی ۔رفتہ رفتہ ا س میں اضافہ ہوتا گیا۔ صبح ہوئی تو دیکھا کافی لوگوں جمع تھے۔ لوگ ابا جان کی سفر آخرت کی تیاری کر رہے تھے چند ہی لمحے میں دیکھا لوگ قافلے کی شکل میں گھر سے نکل رہے ہیں۔ کوئی  میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے باہر لے گیا۔غالبا ًیہ حبیب اللہ بھائی تھے جن سے ہمارا کوئی رشتہ تو نہیں تھا  مگر  ابا جان کی سرپرستی  میںہمارے یہاں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ انھوں نے مجھے سائیکل پر بٹھایا اور خود پیدل چل کر مجھے لیکر چلتے رہے۔ ایک مخصوص مقام پر رک گئے دیکھا ابا جان کو لحد میں اتارا جارہا ہے۔ چند ہی لمحے میں تمام رسومات مکمل ہو گئیں اور تمام لوگ منتشر ہو گئے ۔میں بھی جن کے ساتھ گیا تھا ان کے ساتھ گھر واپس آگیا۔ ماحول میں افسردگی چھا ئی ہوئی تھی۔ رفتہ رفتہ اس میں تبدیلی آتی گئی  پھر لوگ اپنے اپنے  معمولات میں مصروف ہو گئے۔ یہی زما نے کا دستور ہے جس سے کسی کوبھی مفر نہیں۔ اللہ کی رضا اسی میں ہے۔ ہر ا نسان کو اسکے لئے تیار رہنا ہے اور اللہ تعالی کو اسکے لئے راضی رکھنا ہے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے پھر ہماری زندگی بھی معمول کے ساتھ شروع ہو گئے۔ 
ہمارے بڑے بھائی نویں جماعت میں پڑھ رہے تھے۔ ان کے ساتھ حبیب اللہ بھائی بھی تھے یہ کوئی 1947 کا دور تھا۔ انگریزوں کے خلاف  ’’ہند سے نکلو مہم ‘‘بڑے زور و شور سے جاری تھی جو آخر میں ہندوستان کی تقسیم پر مکمل ہوئی ۔2 مذہب کی اکثریت کی بنیاد پر اسکی تقسیم ہو ئی ۔ اسکی بنیاد پر ایک ہولناک فرقہ وارانہ فساد بھی رونما ہوا ۔بے شمار جانیں ضائع ہوئیں۔ ایک خطیر تعداد مسلمانوں کی ہندوستان سے ہجرت کر گئی ۔ ملک تقسیم کیا ہوا خا ندان بھی تقسیم ہو گئے۔ کچھ دنوں کے بعد امن فائم ہوا تو ہم لوگوں کا قیام پرانی رانچی لیک روڈ پر رہا اسی دوران ہماری بڑی ہمشیرہ کی شادی کاسلسلہ شروع ہوا ۔ان کا رشتہ اعظم گڑھ میں علامہ سید سلمان ندوی کے گھرانے میں انکے برادر نسبتی سید اسلم صاحب سے طے پایا ۔آپ اعظم گڑھ میں علامہ شبلی نعمانی کے قائم کردہ دارلمصنفین کے ناظم اعلیٰ تھے۔ سید صاحب جب تقریب نکاح میں رانچی تشریف لائے تو ان سے ملنے کیلئے ایک جم غفیر جمع ہوگیا ۔تقریب کے اختتام کے بعد گھر کے خارجی اور داخلی امور کا از سر نو جائزہ لیا گیا اور ایک نیا لائحہ عمل ترتیب دیا گیا  جس میں رانچی کا مکان کالج کے ہاسٹل کیلئے کرایہ پر دے دیا گیا۔ اسطرح گھر والے سمری دیو شہسرام کے مکان میں منتقل ہوگئے اور میں تعلیم کے سلسلے میں اپنے خالہ زاد بھائی  امین اشرف بلخی کے ساتھ پٹنہ میں رہنے لگا۔آٹھویں جماعت تک تعلیم ہماری یہیں مکمل ہوئی ۔بڑے بھائی نے  بی ایڈ کی تعلیم اور ٹریننگ کے بعد بحیثیت استاد مولانا ابو الکلام آزاد مسلم ہائی  اسکول میں ملازمت اختیار کرلی۔ اس اسکول کی اہمیت  یوں بھی زیادہ تھی کہ انگریزوں کے خلاف مہم  میں مولانا ابوالکلام آزاد کو انگریزوں نے اسی اسکول میں قید میں رکھا تھا۔ 
غرض میں اپنی تعلیم کے سلسلے میں مختلف جگہ پھرتا رہا کبھی ہاسٹل میں رہا تو کبھی کسی کے ساتھ ایک کمرہ لے کر کرائے پر رہا۔ اسطرح خدا خدا کرکے گریجویشن مکمل کی۔تعلیمی دور کا ایک واقعہ جو کبھی نہیں بھولتا۔ جب گرمی اور برسات کی تعطیل میں سمری دیو کے سفر  پر روا نہ ہوا شہسرام پہنچے تو معلوم ہوا سمری کی سڑکوں پر پانی ہی پانی ہے۔ لوگ زیادہ تر پیدل چل کر اپنی منزل کی طرف جارہے ہیں ۔میں بہت پریشان ہوا کہ اب کیا کیا جائے ۔سوائے اسکے کوئی چارہ نہ تھا کہ  واپس رانچی جائیں یا ہم بھی اسی طرح پیدل چل پڑیں ۔میں اللہ کا نام لیکر پیدل ہی چل پڑا مختصر سا سامان ایک بیگ میں رکھا اور بقیہ سامان ماموں کے جاننے والے ایک ہوٹل میں رکھ چھوڑا۔حد نگاہ تک پانی ہی پانی خشکی کا نام تک نہیں تھا۔ اسی طرح پانی میں چلتا رہا ۔پانی کبھی نیچے ہوجاتا اور کبھی اوپر سینے تک لیکن اسوقت ذہن میں ڈر و خوف کا کوئی  شائبہ بھی نہیں تھا ۔اللہ اللہ کرکے سمری پہنچے تو امی اور باجی سے ڈانٹ بھی پڑی کہ اس برسات میں خطرات مول لیکر آنے کی کیا ضرورت تھی۔ 
ایک اور  واقعہ بھی اکثر یاد آتا ہے جب ایک مرتبہ کالج میں ہنگامہ آرائی کی وجہ  سے تعلیمی سرگرمیاں معطل ہو گئیں تو کچھ دوستوں نے پکنک کا پروگرام بنا لیا۔ شہر سے دور ایک آبشار ہڈروفول ( موجودہ گوتم دھاوا ) کے نام سے تھا ۔ تقریباً100 فٹ کی بلند پہاڑ سے پانی نیچے گرتا اور زمین کی جانب بہتا رہتا بعض جگہوں پر اسکا بہائو رک جاتا اور یہیں پر لوگ نہانے کا مزہ لیتے۔  ہم لوگوں نے بھی یہیں نہانا شروع کر دیا کہ اچانک ایک تیز ریلہ پانی کا آیا اور میں اسکی زد میں آگیا اور اس پانی کے ریلے میں بہتا گیا۔ لوگ مجھے  بچانے کیلئے آوازیں لگاتے رہے اسی دوران ایک ربر کا تکیہ میرے ہاتھ آگیا جس سے میں نے خود کو کنٹرول کیا ہوا تھا کچھ ہی دیر کے بعد پتھر کی  چٹان نظر آ ئی پانی کا بہائو اس سے رک گیا اور میں بھی اللہ کے فضل و کرم سے خود کو بچا نے میں کامیاب ہو گیا۔ اب میں سوچتا ہوں اللہ کا خاص کرم تھا مجھ پر۔۔ مہلت زندگی باقی تھی۔۔جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔۔۔(باقی آئندہ) 
 
 

شیئر: